تلاش گمشدگان
ہمیں یہ پتہ تو نہیں چلا کہ دادا نے وہ نسخہ بنایا یا نہیں یا اس کے منہ پر تھوکا یا نہیں
بے شک ہمیں تلاش گمشدگان تو ہیں لیکن یہ وہ گمشدگان نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں جن کے تذکرے سرکاری وغیر سرکاری حلقوں میں ہوتے ہیں جن کے سخت نوٹس بھی لیے جاتے ہیں اور نرم بھی،جن کے لیے سرکاری یا قانون نافذکرنے والے ادارے کنوؤں میں بانس بھی ڈالتے رہتے ہیں لیکن ملتے کبھی نہیں۔
وہ ہم نے آپ کو اس سرکاری خادم کی کہانی تو کئی بار سنائی ہے جو کسی کی گھڑی کی گمشدگی کا اعلان کررہا تھا اورگھڑی خود اس کی جیب میں تھی ۔مطللب یہ کہ ہم ان غنچوں کی بات نہیں کررہے ہیں جو ''بن کھلے'' مرجھاتے ہیں کہ وہ تو پیدا ہی گمشدگی کے لیے ہوتے ہیں، گمشدگی میں جیتے ہیں اورگمشدگی ہی گمشدگی میں گمشدہ ہو جاتے ہیں ۔
پھولوں اورغنچوں کی بات آئی ہے تو آپ کو ایک بہت ہی پتے کی بات بھی بتا دیں،ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ پھولوں کے موسم میں پیڑوں پودوں پر بے پناہ پھول آتے ہیں کہ پھل بہت تھوڑے لگتے ہیں،وجہ اس کی یہ ہے کہ پیڑ پودے جب نیم غنودگی کی حالت میں ہوتے ہیں تو بہت سارے پھول نکل آتے ہیں لیکن بعد میں جب پیڑ پودا اپنی طاقت اور پھولوں کا حساب لگاتاہے تو اتنے ہی پھول رہنے دیتے ہیں جن کو پھل بنانے کی استطاعت ان میں ہوتی ہے، باقی پھول جھڑ جاتے ہیں۔
آپ چاہیں تو قبروں کے لیے رجسٹرشدہ اس شعر کو پیڑپودوں پر بھی منطبق کرسکتے ہیں کہ ان میں کچھ غنچے بن کھلے ہی مرجھا جاتے ہیں اور بہت تھوڑے پھول بہار جان فزا دکھاتے ہیں۔کچھ مقامات اور باغات میں تو ہوشیار کسان خود بھی ایسا کرتے ہیں کہ پیڑوں کے زیادہ پھول توڑ دیتے ہیں اورچند پھلدار پھولوں کو رہنے دیتے ہیں۔
اس طرح چھوڑے جانے والے چند گنتی کے پھول جب بنتے ہیں تو بہت موٹے اور فربہ بن جاتے ہیں۔ افغانستان میں جہاں سے بڑے بڑے خربوزے اور تربوزآتے ہیں وہاں یہی ٹیکنالوجی مروج ہے کہ بیل پر ایک یا دو پھل رہنے دیے جاتے ہیں جن کو ضایع شدہ پھولوں یا پھلوں کی غذا بھی مل جاتی ہے ، بہت کچھ اسی سے ملتاجلتاسلسلہ انسانوں میں بھی پایا جاتاہے کچھ لوگوں پر قربان کردیاجاتاہے تب ہی کچھ لوگ موٹے اورفربہ ہوجاتے ہیں ۔
ایک اوردم بڑی تیزی سے ہلنے لگی ہے ،چلئیے اس سے بھی نمٹتے ہیں، ہمارے دادا کے ایک دوست تھے جو کبھی کبھی ہمارے ہاں بھی مہمان بن جاتے تھے، ہرفن مولا آدمی تھے ،عامل کامل اور دم درود بھی کرتے اور تیربہدف قسم کے حکیمی نسخے بھی بتاتے تھے۔
ایک کاندھے سے چترالی ستار لٹکا رہتا تھااوردوسرے کاندھے سے ہزار دانہ تسبیح لٹکی رہتی ، جنات سے اپنی ملاقاتوں کے قصے بھی ان کے پاس بہت تھے اور پرستان کے سفر نامے۔ایک دن اس نے ہمارے دادا کو ایک عجیب وغریب نسخہ بتایا، بولے، ایک مرغی انڈوں پر بٹھادو جس کے نیچے کم سے کم پندرہ انڈے ہوں۔
ایک دو ضایع بھی ہوں تو کم ازکم بارہ چوزے تو نکل آئیں گے جب یہ چوزے مہینے بھر کے ہوجائیں تو ایک تولہ شنگرف لاکر ،پیس کر اور آٹے میں ملاکر ان کو کھلادو، ایک ہفتے بعد ان میں سے ایک چوزہ پکڑ کر حلال کردوں اور اس کا قیمہ باقی چوزوں کو کھلادو ،اس طرح ہرہفتے ایک ایک چوزہ دوسرے چوزوں کوکھلاتے رہو، آخر میں جب ایک چوزہ مرغ بن جائے گا تو اسے ذبح کرکے اتنا پکا دو کہ گوشت پوری طرح گل جائے، پھر اس گوشت کو تھوڑا کرکے ایک گائے کو کھلاتے رہو اوراس کے دودھ سے مکھن نکال کر جمع کرتے رہو، پھر اپنی جیب سے ایک پڑیا نکال کر دیتے ہوئے کہا کہ یہ سونے چاندی اور ہیرے موتی کاکشتہ ہے ، یہ کشتہ اس مکھن میں ملاکر اتنا اتنا صبح نہار منہ کھا لیاکرو ،دوبارہ جوان نہ ہوئے تو میرے منہ پر تھوک دینا۔
ہمیں یہ پتہ تو نہیں چلا کہ دادا نے وہ نسخہ بنایا یا نہیں یا اس کے منہ پر تھوکا یا نہیں، لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں ضرورآگئی، ایک ''چوزہ خاص'' کو مرغ بنانے کے لیے نئی چوزوں کی قربانی دینا پڑتی ہے اور باغ میں موٹا موٹا اور فربہ پھل لانے کے لیے بہت سارے گلوں اور غنچوں کو مرجھانا پڑتاہے ، لیکن یہ کتنا ظلم ہے کہ پھول صرف دو دن بہارجانفزا دکھلاکر عدم پتہ ہوجاتے ہیں ،ایسے پھولوں میں سرفہرست تو ہمارے باباجی ڈیموں والی سرکار ہیں کہ جب ''تھے'' تو اتنے زیادہ کہ جیسے پورے ملک میں صرف وہ ہی وہ ہوں اور اب جب نہیں ہوگئے ہیں تو ایسے نہیں ہوگئے جسے کبھی تھے ہی نہیں۔
ویسے تو اور بھی بہت سارے گمشدگان ہیں جنھیں یادکر کے دل روتا ہے اور۔
ذرا سی آہٹیں ہوتی ہیں تو دل سوچتاہے
کہیں یہ ''وہ'' تو نہیں کہیں وہ ''یہ'' تو نہیں
خاص طور پر اپنے ہاں ''کرینہ سیف'' کے دم قدم سے جو رونق شونق رہتی ہے، اسے یاد کرکے سارے اخبارات بند ہونے کی دعاکرتے ہیں کہاں وہ روزانہ کے درشن اورکہاں یہ ظالم قحط سالی بلکہ ہمیں تو کبھی کبھی شبہ ہوتا کہ کہیں کترینہ کیف نے اس کے ساتھ کچھ جادو تو نہیں کر دیا ، ایسی گمشدگی نہ کبھی دیکھی نہ سنی تھی۔