تعلیم سے دور لاوارث اور غریب بچے

ان بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یہ ساری زندگی یوں ہی بھیک مانگتے رہیں گے؟


ان بچوں کی صلاحیتیں یوہنی سڑکوں پر ضایع ہورہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کو جانچنے کا بہترین پیمانہ اور بنیاد ہے۔ تعلیم کی وجہ سے ہی معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ معاشرے میں جس قدر شرح خواندگی زیادہ ہوگی، وہ معاشرہ اسی قدر ترقی کرے گا۔ اس کے برعکس شرح خواندگی کم ہو تو وہ معاشرہ تنزلی کا شکار ہوجائے گا۔

دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک تعلیم کی طرف خصوصی طور پر توجہ دے رہے ہیں۔ وہاں پر سڑکیں، پل وغیرہ بنانے کے بجائے تعلیمی شعبے میں کارکردگی بہتر کرنے کی طرف توجہ دی جاتی ہے اور اس کےلیے بجٹ میں بھاری رقم مختص کی جاتی ہے۔ کسی ملک کی ترقی کو جانچنے کا عالمی اصول بھی یہی ہے کہ اس ملک کی اوسط عمر، شرح خواندگی اور فی کس آمدن کتنی ہے؟ ہم نے دفاع کے شعبے میں تو اچھی طرح ترقی کی لیکن دیگر شعبوں میں ہماری کارکردگی بہتر نہ رہی، جن میں تعلیمی شعبہ سرفہرست ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں تو شرح خواندگی بہت زیادہ ہے اور وہ اس پر مزید توجہ بھی دے رہے ہیں اور اسے مستحکم کرنے کےلیے پالیسیاں بنا رہے ہیں مگر پاکستان تو جنوبی ایشیا کے کم ترقی یافتہ ممالک سے بھی شرح خواندگی میں پیچھے ہے۔ سری لنکا بنگلہ دیش اور بھارت کی شرح خواندگی بھی پاکستان کی نسبت بہت مستحکم ہے۔ پاکستان کی شرح خواندگی بمشکل 50 فیصد سے بڑھی ہے۔ اس میں اضافہ تو ہورہا ہے لیکن نہایت سست رفتاری کے ساتھ، جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے سے قاصر ہیں۔ کچھ لوگ تو شعور کی کمی کی وجہ سے تعلیم نہیں دلاتے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو تعلیمی اخراجات برداشت نہ کرنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں اسکول موجود ہی نہیں۔ کہیں کہیں سرکاری اسکول تو ہیں لیکن ان کی تعداد نہایت کم ہے، جو ضرورت کو پورا نہیں کرسکتے۔ ایسے بچے جو غریب ہیں اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ چھوٹی سی عمر میں ہی گھروں کے اخراجات پورے کرنے کےلیے محنت اور مزدوری شروع کردیتے ہیں۔

ان میں سے کچھ بچے تو سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، کچھ بچے ٹریفک سگنلز پرکھڑے گاڑیوں پر وائپر لگا رہے ہوتے ہیں اور کچھ دیگر اشیاء فروخت کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف امراء کے بچے اسی عمر میں گھروں سے باہر نہیں نکلتے، ان کے والدین انہیں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ان کےلیے ہر ضرورت کی چیز مہیا کرتے ہیں۔ مگر افسوس کہ یہ غریب بچے بنیادی ضروریات حاصل کرنے میں بھی ناکام ہوتے ہیں اور تعلیم جو ان کا بنیادی حق ہے، اس سے بھی محروم ہوتے ہیں۔

ان بچوں کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔ اکثر 6 سے 14 سال کی عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں ان غریبوں کی زندگی میں زمانے کی دھتکار آجاتی ہے۔ بہن بھائیوں اور دوستوں کو ساتھ کھیلنا ان کے مقدر میں کہاں اور اگر اسکول جائیں تو ان کے تعلیمی اور گھریلو اخراجات کہاں سے پورے ہوں؟ ان کے گھروں میں انتہائی غربت ہوتی ہے جس کی وجہ سے مجبور ہوکر ان کے والدین انہیں بھیک مانگنے کےلیے بھیج دیتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یہ ساری زندگی یوں ہی بھیک مانگتے رہیں گے؟ کیا ان بچوں کو پڑھنے کا کوئی حق نہیں؟ کیا ان کی ساری زندگی یونہی سڑکوں پر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے گزرے گی؟ اگر یہی حالت رہی تو نہ ہی ان کی دنیا بنی اور نہ ہی آخرت، بے چارے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں خسارے میں رہیں گے اور کیا وہ اپنی اولاد کو بھی بہتر مستقبل دے پائیں گے یا انہیں بھی اسی راستے پر چلائیں گے جس پر وہ خود چل رہے ہیں؟ ان کی معصوم نظروں میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ کس کو تلاش کررہی ہیں؟ ان کی نظریں ہم میں سے ہی کسی اہلِ خیر کو تلاش کر رہی ہیں جو ان کا ہاتھ تھام لے اور انہیں اس اندھیر نگری سے نکال دے۔ انہیں تعلیم دلائے اور ان کا مستقبل سنور جائے۔

نہ جانے ان بچوں میں ہی کتنے ہیرے پوشیدہ ہوں، یہ بچے کتنی صلاحیتوں کے مالک ہوں جن کی صلاحیتیں سڑکوں پر ضائع ہورہی ہیں۔ ہمارے ملک میں کچھ ادارے ایسے موجود ہیں جو ایسے بچوں کو اپنے پاس رکھتے ہیں, انہیں تعلیم دیتے ہیں لیکن یہ ادارے اس ضرورت کو پورا کرنے کےلیے ناکافی ہیں۔ ایسے ادارے تب ہی کامیابی سے اس ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں جب انہیں حکومت کی سرپرستی میں چلایا جائے اور وہ بڑے پیمانے پر کام کریں اور ان کی بہت زیادہ تشہیر کی جائے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے فروغ کےلیے مؤثر پالیسی بنائے اور بجٹ میں ایک بڑا حصہ تعلیم کےلیے مختص کرے۔ اس کے علاوہ غریب بچوں کی مفت تعلیم کا کوئی انتظام کرے۔ صاحب ثروت حضرات سے بھی درخواست ہے کہ وہ اجتماعی طور پر ایسے ادارے بنائیں جو ان بچوں کی صحیح طور پر کفالت کریں اور اگر اجتماعی طور پر کوئی صورت نہ بن سکے تو انفرادی طور پر ہی حسبِ توفیق ایک یا دو بچوں کی کفالت کا ذمہ لے لیں تو بھی کافی حد تک ایسے بچوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں