انصاف کے منتظر ہزاروں سائل
بعض سیاسی مقدمات کی فورا شنوائی ہوتی ہے مگر اکثر مقدمات زیر التواء رہتے ہیں
'' آئین میں ' سوموٹو ' کا لفظ نہیں ہے۔ آئین کا آرٹیکل 184/3 کو کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اس شق کا استعمال مفاد عامہ میں نہ ہو تو اس کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، چیف جسٹس کے پاس نہیں، اگر کسی کو میری رائے سے اختلاف ہے تو آئین کی وہ شق دکھا دے میری اصلاح ہوجائے گی۔''
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور اگلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد کی ایک غیر سرکاری یونیورسٹی میں قانون کے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے آئین کی حقیقی تشریح کردی۔
اسلام آباد کے وکیل عدنان اقبال نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ڈیم فنڈ کے ازخود اختیار کے نوٹس کے بارے میں ایک سوال اٹھایا ہے۔ عدنان اقبال کا بیانیہ ہے کہ ڈیم فنڈ میں 10 ارب روپے جمع ہوئے مگر اس فنڈ کی پبلسٹی مہم پر 13 ارب روپے خرچ ہوئے۔
عدنان اقبال نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک عرض داشت داخل کی ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کو عدالت میں طلب کیا جائے اور چیف جسٹس ڈیم فنڈ بنانے کے اختیار کو ختم کیا جائے۔ ان کا مدعا ہے کہ ثاقب نثار کی اس مہم سے ایک طرف عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی تو دوسری طرف سرکاری خزانہ کو تقریباً 3 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
سپریم کورٹ کے ایک معروف وکیل منصور حسن خان نے مقامی انگریزی اخبار میں ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بلوچستان کے معدنیات کے ذخائر سے تانبہ نکالنے کے ایک غیر ملکی کمپنی کو دیے گئے ٹھیکہ کے خلاف از خود نوٹس لیا تھا اور طویل سماعت کے بعد یہ ٹھیکہ منسوخ کر دیا۔
متاثرہ غیر ملکی کمپنی نے اس ٹھیکہ کے خاتمہ کو عالمی عدالت میں چیلنج کیا، یوں عالمی عدالت نے 6.5 بلین ڈالرکا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس شوکت صدیقی نے اسلام آباد کے وکلاء کی ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ نے نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کر کے سماعت کے لیے مخصوص بنچ بنانے پر دباؤ ڈالا تھا۔ پھرجسٹس شوکت صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا گیا۔
انھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضداشت دائر کی مگر ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت آگیا عرضداشت پر فیصلہ نہ ہوا۔
پاکستان بار کونسل اور صوبوں کی بار کونسلز کے متعدد وکلا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے نفاذ کو روکنا درست فیصلہ نہیں ہے ۔ پاکستان بار کونسل کے رہنماؤں کا عزم ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔ بار کونسل کے سینئر وائس چیئرمین ہارون رشید کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں میں کنونشن منعقد ہوںگے۔
ملک معاشی، سیاسی بحران کے علاوہ عدالتی بحران کا بھی شکار ہو چلا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں میں تقسیم واضح ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ کے فیصلے سے چار ججوں نے واضح طور پر اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور نے اپنے معرکتہ الآراء فیصلہ میں عدالتوں کے اختیارات، وفاق اور صوبوں کے اختلافات کے تناظر میں ایک جامع فیصلہ تحریر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ایک اور جج جسٹس اطہر من اﷲ نے بھی اپنے ایک فیصلہ میں اہم نکات اٹھائے ہیں۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدہ پر بحال کیا گیا تو یہ فیصلہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جائے گا اور اس روایت کا صوبائی ہائی کورٹس میں بھی عمل ہوگا مگر سینیارٹی کے اصول کو نظرانداز کیا گیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار سیٹھ اس خصوصی ٹریبونل کے سربراہ تھے ، جس نے سابق صدر پرویز مشرف کے آئین کو توڑنے کے مقدمہ سنا تھا اور پرویز مشرف کو آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر سزائے موت کا حکم سنایا، یہ فیصلہ برطانیہ کی تاریخ کے تناظر میں دیا گیا تھا۔
برطانیہ میں کرام ویل کو پارلیمنٹ توڑنے کے جرم پر مرنے کے بعد سزائے موت سنائی گئی تھی، کچھ لوگوں نے اس ٹریبونل کی تشکیل کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جونیئر جج نے ٹریبونل کے قیام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ جسٹس وقار سیٹھ کو سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا گیا، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت سینئر ججوں کو نظرانداز کر کے سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا۔
موجودہ حکومت کے دور میں سپریم کورٹ میں دو جونیئر ججوں کا تقرر کیا گیا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے حکومت کی ہدایت پر چیف جسٹس کے جونیئر جج کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کے فیصلہ کے حق میں رائے د ی تھی۔
گزشتہ دنوں انھوں نے پریس کانفرنس میں اپنے اس اقدام پر معافی مانگی اور یہ انکشاف کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومت پر دباؤ ڈالا تھا کہ سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان خلیج کم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے موقف کی حمایت کی جائے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اہم مقدمات کی سماعت کے لیے سینئر ترین ججوں کو نظرانداز کر کے جونیئر ججوں کو بنچوں میں شامل کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی طویل عرصہ تک رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی نے ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں کہا تھا کہ راولپنڈی میں ہونے والی تبدیلی سے سپریم کورٹ کی ہواؤں کا رخ بھی تبدیل ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں انصاف کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ صرف سپریم کورٹ میں اس وقت 52 ہزار 450 مقدمات زیرِ التواء ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سول مقدمہ کے فیصلہ میں 20، 20 سال لگ جاتے ہیں۔
بعض سیاسی مقدمات کی فورا شنوائی ہوتی ہے مگر اکثر مقدمات زیر التواء رہتے ہیں۔ ایک استاد جنید حفیظ کی اپیل کی سماعت کا مقدمہ 10 برسوں سے التواء کا شکار ہے۔
گوادر کے مولانا ہدایت الرحمن نوحہ خوانی کررہے ہیں کہ وہ ایک سیاسی کارکن ہیں اور ایک بلوچ ہیں مگر وہ نا نیازی ہیں، نا باجوہ ہیں نا کیانی اور نا گنڈا پور ہیں اس لیے ان کی ضمانت نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس پر اپیل کا حق قانون کے فطری تقاضوں کے مطابق ہے، المیہ یہ ہے کہ اس مقدمہ کی فوری سماعت ہورہی ہے اور ہزاروں سائل اپنے مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔