نریندر مودی اور انتہا پسندی کی سیاست
ان کے بقول ہم ’’مسلمانوں یا اسلام سے پاک‘‘ بھارت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں
نریندر مودی کی سیاسی کامیابی یا ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ان کی سیاسی شخصیت کے پیچھے ایک بڑی کنجی ''ہندواتہ یا انتہا پسندی پر مبنی سیاست'' کی حکمت عملی بھی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ نریندر مودی , بے جے پی یا ہندو پرست جماعتیں انتہا پسندی یا ہندواتہ کی سیاست کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ بھارت کی مجموعی سیاست میں پاکستان مخالف یا مسلم دشمنی پر مبنی ایجنڈا ہمیشہ سے انتخابی سطح کی سیاست کا حصہ رہا ہے ۔
مسئلہ کسی ایک فرد یا ایک تحریک یا گروہ کا نہیں کیونکہ انفرادی سطح کے کسی بھی منفی امر کو ریاستی سطح کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔لیکن آج کے بھارت میں انتہا پسند ی یا ہندواتہ کی سیاست کو عملی طور پر حکومتی حمایت کے ساتھ ساتھ ریاستی حمایت کے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔مسئلہ صرف مسلم دشمنی کا ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتیں بھی بھارت میں خود کو غیر محفوظ یا عدم تحفظ کا شکار نظر آتی ہیں او راس کی کئی شکلیں ہمیں مختلف خبرو ں کی بنیاد پر دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
عالمی سطح پر موجود انسانی حقوق کی تنظیمیں ہوں یا عالمی میڈیا یا عالمی ممبران پارلیمنٹ پر مبنی رپورٹس ہوں ان میں ایک مشترکہ نقطہ بھارت میں اختیار کیے جانے والے اقلیتوں کے ساتھ دوہرے معیارات بھی ہیں ۔ان رپورٹس کے مطابق حکومتی اور ریاستی مدد کے ساتھ انتہا پسندی یا پر تشدد واقعات کا ہونا سنگین تشویش کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے ۔
حال ہی میں بی جے پی راہنما نارسنگھا نندسرسوتی ہریدوار شہر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سرعام مسلمانوں کو ختم کرنے کی دھمکی بھی دی۔ وہ برملا انتہا پسند ہندوں کو ترغیب دے رہے تھے کہ مسلمانوں کے خلاف پر تشدد مظاہروں کی حمایت کی جائے۔
ان کے بقول ہم ''مسلمانوں یا اسلام سے پاک '' بھارت بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ محض بی جے پی کے ایک راہنما کا موقف نہیں بلکہ اس کو ہر سطح پر نریندر مودی اوربی جے پی کے سخت گیر موقف رکھنے والے لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔نارسنگھانند سرسوتی کے اس موقف پر بی جے پی کا بطور حکومت کوئی موقف سامنے نہیں آیا جو ظاہر کرتا ہے نریندر مودی کی حکومت انتہا پسندوں کی حمایت کے ساتھ اس بیانیہ کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔
نارسنگھا نند سرسوتی کا یہ موقف کوئی نیا نہیں اس سے قبل بھی سخت گیر انتہا پسند عناصر یہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہم سیکولر بھارت نہیں بلکہ ہندواتہ پر مبنی بھارت چاہتے ہیں۔ ان کے بقول جس نے بطور اقلیت بھار ت میں رہنا ہے تو اسے ہندواتہ پر مبنی سیاست کے اصول کو تسلیم کرنا ہوگا۔اگر نارسنگھا نند سرسوتی کا یہ موقف انفرادی سطح کا ہے تو پھر اس پر بی جے پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے اس کی مذمت کا سامنے نہ آنے کو کیا نام دیا جائے گا ۔
اسی طرح حال ہی میں بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا ہے کہ 2019کا پلوامہ حملہ حکومت کی لاپرواہی کا نتیجہ تھا۔انھوں نے یہ باتیں معروف صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہیں ۔ ان کے بقول 2019میں بھارت کے نیم فوجی دستے سے آر پی ایف پر ہونے والے حملے کو حکومت کی نااہلی اور وزارت داخلہ کی لاپرواہی قرار دیا۔
ان کے بقول بھارت کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل ہونے والے اس حملہ نے پورے ملک میں پاکستان مخالف لہر چھیڑ دی جس کا برا ہ راست فائدہ حکمران بی جے پی کو ملا اور اس کا ایک نتیجہ جہاں ایک طرف بھارتی میڈیا پر جنگی جنون کی طرز پر نشریات نے پورے ملک میں قومی جذبات کو بھڑکا دیا وہیں کشمیر میں سیکیورٹی پابندیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اورمسلم مخالف حکمت عملی مودی سیاست کی طاقت کی عکاسی کرتا ہے ۔
اسی طرح بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہندو تہوار بھار ت میں موجود مسلمانوں کے لیے ڈراونا خواب بن گئے ہیں جس کا سدباب ضروری ہے۔ اس رپورٹ کے بقول گذشتہ برس کی طرح اس برس مارچ میں بھی رام کی پیدائش کا جشن منایا گیا، اس روز بھی ایسی کئی خبریں اور دیوڈیو ز سامنے آئی ہیں جو پرتشدد واقعات کا سبب بنی ہیں۔ اس تہوار میں تشدد اور نفرت انگیز تقاریر نے ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسایا۔بی جے پی کے ایک معطل رکن راج سنگھ نے سب سے زیادہ یہاں نفرت پر مبنی تقرریں کیں۔
مہارراشٹرا, بہار ,مدھیہ پردیش, جھار کھنڈ,گجرات ,اترپردیش مغربی بنگال,تلنگانہ اور راجھستان میں یہ مناظر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سٹیزن اینڈ لائر انیشیٹو کی طرف سے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی جلوس اور تشدد کے ان واقعات میں سالانہ بنیادوں پر اضافہ ہورہا ہے ۔
اس رپورٹ کے بقول تشدد کے واقعات کا جائز ہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے جلوس ہمیں اکثر مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں دیکھنے کو ملتے ہیںاور خاص طور پر مساجد کے سامنے مسلمانوں میں اشتعال پھیلایا جاتا ہے جو مزید تشدد کو ابھارنے کا سبب بنتا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے سابق جج روبنٹن نریمن نے مشورہ دیا تھا کہ بھارت کی تمام ریاستوں میں پولیس فورس کو ان کے آئینی اقدار اور شہریوں کے بنیادی فرائض کے بارے میں حساس بنانا بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا۔
ان کے بقول سب سے پہلے انھیں یہ بتانا چاہیے کہ بھارت میں رہنے والے مسلمان ہندوستانی ہیں ۔معروف صحافی منوج مٹا جنہوں نے دہلی میں 1984کے سکھ مخالف فسادات پر بڑے پیمانے پر لکھا تھا۔ان کے بقول اس طرح کا تشدد کانگریس کے دور حکومت میں شروع ہوا تھالیکن بی جے پی کے دور حکومت میں یہ بالکل مختلف سطح پر چلاگیا ہے او رحالیہ برسوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی نوعیت بدل گئی ہے۔
بھارت نے خوب ترقی کی ہے مگر داخلی محاذ پر انتہا پسندانہ رجحانات اور اقلیتوں سمیت مسلم دشمنی سے جڑے معاملات کی وجہ سے اس کو مسائل کا سامنا ہے۔
کشمیر کے داخلی محاذ پر بھی جو کچھ ہورہا ہے اس کو سمجھنے کے لیے عالمی اداروں کی رپورٹس کافی ہیں۔ جب ہم اپنے سیاسی مفادات کے لیے انتہا پسندی یا تشدد پر مبنی پالیسی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج پھر ریاستی محاذ پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
خود پاکستان بھی اسی بحران کا شکار رہا ہے اور اس کی وجہ بھی انتہا پسند عناصر کی ریاستی محاذ پر سرپرستی تھی۔ اس لیے بھارت کو ایک بات سمجھنی ہوگی کہ وہ انتہا پسندانہ رجحانات کو بنیاد بنا کر وقتی طور پر تو سیاسی فائدہ اٹھاسکتا ہے مگر مستقبل میں اس کے اثرات خود اس کی ریاست کے لیے بھی خطرہ ہوںگے۔