زرداری سب پر بھاری حصہ دوئم

یوں آصف زرداری کی سیاست نے پیپلز پارٹی اور بلاول کے لیے راستہ ہموار کر دیا


[email protected]

ہم نے کئی بار اس کالم میں مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس بار جمعیت کو پورے ملک خصوصاً پنجاب میں منظم کریں، ہر یونین کونسل کی سطح پر تنظیم سازی کریں جو کم از کم مولانا کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ اس ملک کا ایسا کوئی محلہ نہیں جہاں مولانا کے دس پندرہ چاہنے والے نہ ہوں، پتہ نہیں یہ کیوں نہ کرسکے۔

مولانا شاید وسائل کی کمی کے سبب یا مسلم لیگ نون رکاوٹ ہوگی، کیونکہ مسلم لیگ نون پنجاب میں کسی کے گھسنے پر راضی کیسے ہوسکتی ہے۔

ہم نے یہ بھی متنبہ کیا تھا کہ پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام کا کوئی نظریاتی جوڑ نہیں، دونوں جماعتوں کا ماضی نا قابل اعتبار ہے۔

آصف زرداری مفاہمت کا چورن بانٹ رہے ہیں لیکن وہ کسی بھی وقت مفاہمت کے حوالے سے ترجیحات تبدیل کرسکتے ہیں،ایسی سیاست کی وجہ سے ہی انھیں "سب پر بھاری " کہا جاتا ہے۔

شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کا رخ بھی بدل سکتا ہے ، یہ باتیں میں نے شک اور ماضی کے تجربے کی بنیاد پر کہیں تھیں۔ مگر پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے دوران پیپلز پارٹی کی حکمت عملی نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی مگر لگتا ہے کہ مولانا اور ان کے قریبی ساتھیوں کو اب تک یقین نہیں آرہا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوچکا ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے عمران خان نیازی اور تحریک انصاف کی سیاست حالت نزع میں تھی اور برف کی طرح مسلسل پگھل رہی تھی۔

بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان کی وجہ سے عمران خان کے ٹائیگرز منہ چھپاتے پھرتے تھے، قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران عوامی اجتماعات یہاں تک کے شادی غمی کے مواقع پر اپنے حلقوں میں جانے سے کتراتے تھے اور تمام ملکی اور بین الاقوامی سرویز اور زمینی حقائق سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ تحریک انصاف کی عوامی تائید نفرت میں بدل چکی تھی۔

اسی دوران "ایک زرداری سب پر بھاری" کو شوگر کوٹیڈ فارم میں اتارا گیا تو پہلے عدم اعتماد کی تحریک اور پھر خادم اعلی کو خادم اعظم بنانے کا چورن بیچنے میں کامیاب ہوئے اور پھر خادم اعظم کو اقتدار سے چمٹے رہنے پر تھپکی دیتے رہے۔ یوں مجھ لگتا ہے کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ، عمران اور آصف زرداری مل کر کھیل رہے تھے۔

آصف زرداری نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ بنوا کر پی ڈی ایم حکومت کو اس کے لیے بین الاقوامی لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا۔

بلاول بھٹو زرداری بطور وزیر خارجہ ایک سال کے دوران اکثر و بیشتر غیر ملکی دوروں پر رہا اور دنیا کے تمام ممالک میں اپنے تعلقات بنانے میں کامیاب ہوا۔ اگر ایک زرداری سب پر بھاری ثابت نہ ہوتے اور تحریک انصاف اپنے پانچ سال پورے کرتی یا عدم اعتماد کے فوراً بعد اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات میں جاتے تو سیاسی منظر نامے سے تحریک انصاف کا صفایا ہوجاتا جس کا فائدہ ان کے حقیقی مخالفین مسلم لیگ نون اور جمعیت علمائے اسلام کو ہوتا، جب کہ پیپلز پارٹی کے لیے تحریک انصاف کی بربادی میں کوئی سیاسی فائدہ نہیں تھا۔

اس لیے پی ڈی ایم حکومت کو طول دے کر (جس کے لیے نوازشریف اور مولانافضل الرحمن بالکل تیار نہیں تھے) مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کو استعمال کیا اور ناقابل برداشت مہنگائی اور معاشی بحران کا ملبہ اتحادیوں پر ڈال دیا۔

یوں آصف زرداری کی سیاست نے پیپلز پارٹی اور بلاول کے لیے راستہ ہموار کردیا۔ سب نے دیکھا کہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار زیادہ جیتے لیکن اس کے مقابلے میں صرف پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ نون کی کمزوری اور گرتی ہوئی ساکھ سے پیپلزپارٹی کو پنجاب میں دوبارہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع مل گیا۔ موجودہ سیاسی منظر نامے کو غور سے دیکھا جائے تو ہماری بات سو فیصد درست ثابت ہوئی ہے۔

آج مسلم لیگ نون اور جمعیت علمائے اسلام کو جن حالات کا سامنا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ معاشی بحران اور مہنگائی کا ملبہ مسلم لیگ ن گرا ہے اور اس کے بعد جے یو آئی پر ۔ میاں شہباز شریف کا اگلا چانس ختم ہوتا نظر آرہا جب کہ بلاول بھٹو کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے ، زرداری صاحب نے برملا اظہار کر دیا کہ میں اپنی زندگی میں بلاول کو وزیر اعظم بنوانا چاہتا ہوں۔کیا کمال کی بساط بچھائی گئی ہے۔

باشعور عوام تو حقائق سے باخبر ہیں لیکن عوام کی اکثریت کی نظر میں حکومت میں شامل دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ نون اور جے یو آئی موجودہ معاشی بحران کی ذمے دار بن چکی ہیں۔

پیپلز پارٹی نے حکومت کے مزے لوٹتے ہوئے اپنے دامن کو بچایا ہوا ہے۔ کوئی ایسی وزارت قبول نہیں کی جس میں عوام کا غیض و غضب حصے میں آتا وہ تمام وزارتیں نون لیگ کے پاس ہیں اور چند جے یو آئی کے پاس ہیں۔ قربانی کا بکرا یہی دو جماعتیں بن گئیں۔ اب تک کے زمینی حقائق سے پتہ لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی ساکھ بہتر ہو گئی ہے۔

ایک بار پھر پورے ملک اور خصوصاً پنجاب میں اس کے غبارے میں ہوا بھری گئی اور مسلم لیگ نون اپنے سیاسی قلعے پنجاب میں تاریخ کی بدترین اور کمزور ترین پوزیشن میں آ گئی ہے اور یہ مولانا کے لیے بھی نقصان کا سودا ثابت ہوا ہے، کیونکہ وہ جمعیت جو پختونخوا اور بلوچستان میں ناقابل شکست بن چکی تھی، اس مخلوط حکومت کی کارکردگی اور ہو شربا مہنگائی کی وجہ سے دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔

اس کھیل میں اگر اسٹبلشمنٹ نہیں تو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں فائدے میں ہیں، ایک زرداری ایک بار پھر سب پر بھاری نظر آرہے ہیں۔ مزید فوائد سمیٹنے کے لیے زرداری سیاسی مفاہمت کا چورن لے کر پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے بھی تیار ہیں، شہباز شریف بھی مفاہمت کے لیے تیار نظر آر ہے ہیں جس کی وجہ سے مسلم لیگ نون میں تقسیم نظر آرہی ہے۔ مگر مذاکرات سے صاف انکار کرکے مولانا فضل الرحمان عمران مخالف عوام کے ترجمان اور آخری امید بن کر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پاکستان، پاکستانی عوام اور جمہوریت کو بچانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ یقین کریں مولانا کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زرداری ان پر بھی بھاری ہوںگے مگر یہ ماننا پڑے گا کہ اس بار ایسا ہوا، مولانا نے جن عوامی خطوط پر اپنی تحریک چلائی تھی۔

اس نے مولانا کو حقیقی اپوزیشن لیڈر اور عوامی ترجمان کے درجے پر فائز کیا تھا اور پہلی بار محسوس ہورہا تھا کہ اب مولانا کو کوئی نہیں روک سکتا مگر عدم اعتماد کے بعد اس نااہل اور نالائق حکومت کے ساتھ رہ کر اپنا بہت بڑا نقصان کرگئے جب سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا تو ڈر جاتا ہوں کہ کہیں مولانا بھی خاصوں اور ان کے سانپوں کے گھیرے میں تو نہیں آگئے۔ بحرحال اللہ نہ کرے ایسا ہو مگر مولانا کو حالات پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔

ہم انھیں ایک بار پھر وہی مشورہ دیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی بے اعتبار اور مسلم لیگ ن ڈری ہوئی ہے۔اگر چہ بے سود ہے مگر مسلم لیگ نون کے قائدین کو مشورہ دوںگا کہ نواز شریف خود آکر کمان سنبھال لیں اور اپنی مسلم لیگ کو بچائیں اور یہ یاد رکھیں کہ یہ وقت قیام ہے سجدے میں گر گئے تو انجام عبرتناک ہوگا کیونکہ تاریخ بار بار معاف نہیں کیا کرتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں