ستیا پال ملک کے انکشافات
ستیاپال ملک کی کرن تھاپر کے بعد این ڈی ٹی وی کے سابق سربراہ رمیش کمار سے بھی ایک بیٹھک ہوئی
اگست 2019میں بھارتی آئین میں تبدیلی سے بھارتی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر،اب ریاست نہیں رہی، ایک یونین ٹیریٹری بن چکی ہے۔سابق ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں لداخ کے علاقے کو ایک نئی شناخت مل گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اب گورنر نہیں بلکہ محض ایک لیفٹیننٹ گورنر لگا کر انتظامی امور چلائے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کے آئین سے آرٹیکل 370ختم کر دینے سے ریاستِ جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت بھی ختم ہو گئی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس وقت ستیا پال ملک، گورنر تھے۔
وہ اکتوبر 2019 میں اپنی ذ مہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔ ستیاپال کو بعد میں بھارتی ریاست گوا کا گورنر بنایا گیا جہاں مرکزی حکومت سے گوا میں جاری کرپشن کی رپورٹ کرنے پر اختلافات ہو گئے اور ان کو وہاں سے رخصت ہوناپڑا۔پچھلے دنوں ستیا پال کابھارت کے مشہور صحافی کرن تھاپر سے ایک تفصیلی انٹرویو ہوا جس میں فروری 2019 میں پلوامہ ہلاکتوں کے حوالے سے انکشافات ہوئے۔
ستیاپال ملک کی کرن تھاپر کے بعد این ڈی ٹی وی کے سابق سربراہ رمیش کمار سے بھی ایک بیٹھک ہوئی۔ ستیاپال ملک نے بتایا کہ 14فروری 2019کو بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ایک دستے نے جو 900سے کچھ اوپر افسروں اور جوانوں پر مشتمل تھا اس دستے کو پلوامہ کے علاقے میں لیتھورا کے مقام پر ایک حملے کا سامنا کرنا پڑا جس میں سی آر پی ایف کی کئی ہلاکتیں ہوئیں۔
عام طور پر سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ایسے بڑے قافلے سڑک کے ذریعے سفر سے اجتناب کرتے ہیں اور ریل یا ہوائی جہاز کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کیے جاتے ہیں۔سابق گورنر ستیاپال ملک نے بتایا کہ حملے میں ہلاکتوں کی اطلاع ملنے پر جب سی آر پی ایف کے افسران سے انھوں نے پوچھا کہ اتنا بڑا قافلہ کیونکر سڑک کے ذریعے موومنٹ کر رہا تھا تو فورس کے متعلقہ افسران نے بتایا کہ انھوں نے بھارتی وزارتِ داخلہ کو موومنٹ کی اطلاع دیتے ہوئے وزارت سے ہوائی جہازوں کی فراہمی کی درخواست کی تھی جو چار ماہ تک رکھے رہی۔چونکہ ہوائی جہاز مہیا نہیں کیے گئے۔
اس لیے مجبوراً سڑک پر کانوائے کو روانہ ہونا پڑا۔جناب ستیاپال ملک نے مزید بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ جموں سے سری نگر ہائی وے پر اس علاقے میں دس بارہ علاقائی سڑکیں آ کر ملتی ہیں۔سی آر پی ایف قافلے کی موومنٹ کے دوران ان سڑکوں کی نگہداشت ہونی بہت ضروری تھی تاکہ کسی بھی گڑ بڑ کا خطرہ نہ رہے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ کسی کراسنگ کے اوپر پہرہ نہیں دیا گیا۔پہرہ نہ دینے کا مطلب حملے کے لیے مکمل موقع فراہم کرنا ہے۔
ستیاپال ملک نے مزید انکشاف کیا کہ دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی پلوامہ کے اس علاقے میں کم و بیش دس دن تک موجود رہی اور مسلسل موومنٹ کرتی رہی۔اس میں تقریباً تین سو کلو گرام دھماکہ خیز بارود موجود تھا،انھوں نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ اس گاڑی کو دس بارہ دنوں میں کسی جگہ ایک مرتبہ بھی نہ ہی روکا گیا اور نہ ہی چیک کیا گیا۔
اس گاڑی کو مکمل موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنا ٹارگٹ تلاش کرے اور کام بآسانی مکمل کرے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ایڈورس انٹیلی جنس رپورٹوں کے باوجود بھارتی وزارتِ داخلہ نے ہوائی جہاز کی فراہمی نہیں کی اور سی آر پی ایف نے بھی کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے۔
ایڈورس انٹیلی جنس رپورٹوں کے باوجود سڑک کے اوپر کانوائے کی موومنٹ کروائی گئی،دس بارہ کراسنگز پر پہرہ نہیں دیا گیا۔رپورٹوں کے باوجود بارود بھری گاڑی اس علاقے میں موجود رہی اور اسے کسی جگہ روک کر چیک نہیں کیا گیا۔اس وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ایک حادثہ اور حملہ تھا یا جان بوجھ کر ایسا پلان تیار کیا گیا۔
ستیاپال ملک کرن تھاپر اور رمیش کمار سے بات کرتے ہوئے مزید گویا ہوئے کہ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی انھوں نے اتھارٹیز سے مکمل معلومات حاصل کیں، اور فوراً ہی بھارتی وزیرِ اعظم جناب نریندر مودی کو اطلاع کرنے کے لیے فون کیا لیکن ان سے بات نہ ہو سکی۔دراصل وہ ایک غیر ملکی کے ساتھ ایک ایسے پارک میں شوٹ کرا رہے تھے جہاں ٹیلیفون کی سہولت میسر نہیں تھی۔
شوٹ سے فارغ ہو کرجناب مودی نے پارک سے قریب ایک ڈھابے سے گورنر کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا ہوا۔ جناب ستیاپال نے ساری رپورٹ دے کر کہا کہ اس میں بھارتی وزارتِ داخلہ اورسی آر پی ایف کی جانب سے فاش غلطیاں اور بہت بڑا سیکیورٹی لیپس ہوا ہے۔وزیرِ اعظم نے گورنر کی بات سن کر ان سے کہا کہ آپ اس سلسلے میں کچھ نہ بولیں اور مکمل خاموشی اختیار کریں البتہ جب وہ دہلی آئیں تو بات کر لیں گے۔وزیرِ اعظم سے بات کے بعد بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول نے بھی گورنر سے بات کی۔
ستیا پال ملک نے بتایا کہ اجیت ان کے کلاس فیلو رہے ہیں اور دونوں آپس میں ہر بات کھل کر کر سکتے ہیں۔ستیاپال نے اجیت کو بھی سارا واقعہ بتانے کے بعد بڑے پیمانے پر سیکیورٹی لیپس کا ذکر کیا تو اجیت نے گورنر کو مکمل خاموشی اختیار کرنے کا کہتے ہوئے بتایا کہ یہ معاملہ کچھ اور ہے۔ستیا پال نے کہا کہ وزیرِ اعظم اور این ایس اے سے بات کرنے کے فوراً بعد میں جان گیا تھا کہ اس واقعے کا الزام پاکستان پر ڈال کر وزیرِ اعظم انتخابات میں فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ستیاپال ملک نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کشمیر کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ستیاپال صاحب نے Ill informedکا لفظ استعمال کیا۔
انھوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم اپنے حال میں مست ہیں،انھیں کشمیر کی زیادہ فکر نہیں۔ سابق گورنر نے مثالیں دے کر اوریہ کہہ کر تو چونکا ہی دیا کہ جناب مودی کو کرپشن سے کوئی خاص نفرت نہیں ۔وزیرِ اعظم نے گوا میں قیام کے دوران بھی گورنر کو کشمیر کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کرنے کا کہا۔ ستیاپال نے یہ بھی کہا کہ کشمیر کے بارے میں انتہائی اقدام اُٹھاتے ہوئے ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا لیکن اگر ان سے مشورہ لیا جاتا تو وہ آرٹکل 370کے بارے میں مختلف مشورہ دیتے اور کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بالکل ڈاؤن گریڈ نہ ہونے دیتے۔انھوں نے اعتراف کیا کہ کشمیر کے لوگ ریاست کی حیثیت ختم ہونے پر بہت دکھی ہیں، ریاست میں جماعت بہت مضبوط ہے۔
آرٹیکل370 کو ختم کرنے سے پہلے دہلی حکومت بہت خائف تھی کہ کہیں کشمیری پولیس بغاوت نہ کر دے،کہ اگر ایسی بغاوت ہو گئی تو کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل جائے گا لیکن کشمیری پولیس اور دوسرے کشمیرے اداروں نے کوئی بغاوت نہیں کی ۔ستیا پال ملک کے انکشافات سے پتا چلتا ہے کہ حکومتیں انتخابات جیتنے کے لیے کیا کیا ڈرامے رچاتی ہیں اور اپنے ہی لوگوں کی معصوم جانیں قربان کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرتیں۔