ساری ناکامیاں کردار کی ناکامیاں ہوتی ہیں
حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعداد و شمار حاصل کر کے ایک تجزیہ مرتب کیا گیا
ایڈورڈ بین فیلڈ کہتے ہیں '' کسی بھی سیاسی نظام کو ایک حادثے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یہ فی الواقع آزمائش و خطا کے طویل عمل سے سلامت بچ نکلنے والے رسوم و رواج ، عادات و تعصبات اور اصولوں اور بدلتے ہوئے حالات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسلسل رد عمل کا مجموعہ ہوتا ہے اگر مجموعی طور پر یہ نظام ٹھیک کام کرتا دکھائی دے تو اسے ہم ایک خوشگوار حادثہ تعبیر کرتے ہیں کسی معاشرے ، اس معاشرے کے تمام اداروں اس کے پورے کردار اور اس میں وضع پانے والی انسانی اہداف کا اصل دارو مدار حکومت اور سیاسی نظام پر ہوتا ہے۔''
ہماری خوشی کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمیں وراثت میں کیا ملا ہے؟ ہمارا کردار کیا ہے؟ ہمیں رشتے میں کیسے لوگ ملے ہیں اور ہم کہاں اور کن حالات میں پیدا ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ہمارا نصیب کیسا ہے لیکن شہروں اور قوموں میں انسانی خوشی کے لیے سب سے زیادہ اہم جو بات ہوتی ہے وہ آب و ہوا یا آس پاس کے قدرتی مناظر، اچھے یا برے جین یا قومی کردار نہیں ہوتے بلکہ وہاں جاری حکومت کا معیار ہوتا ہے برطانیہ ، یورپ ، امریکا ، کینیڈا ، آسٹریلیا تک یہ ریاست کے ہی اوصاف ہیں جو لوگوں کی خوشحالی کا تعین کرتے نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعداد و شمار حاصل کر کے ایک تجزیہ مرتب کیا گیا جس میں مختلف علاقوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خوشی و مسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس تجزیے جسے کہ ہم اب تک کیا جانے والا بہترین تجزیہ قرار دے سکتے ہیں کہ مطابق عوام کی خوشی و خوشحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں جو کہ اچھی تعلیم ، اچھی آمدن اور بہتر صحت سے مرتب ہوتے ہیں ۔
بری حکومت ایسی حکومت ہوتی ہے جو جوابدہی سے انکاری ہو چھپنا شروع کردے جو خود کو ہی اپنا جواز ماننے لگے اور باقی سب کے احتساب کے در پے ہوجائے جو اپنی حقیقت خو د تخلیق کرنے کی کو شش کرتی ہے جب کہ تانگ عہد کا ایک چینی وزیراعظم بادشاہوں کی برائیاں یوں گنواتا ہے جتنے کی ترجیح، اپنی غلطیوں کا سن کر غصہ میں آجانا، اپنے اختیار میں اضافہ اور اپنی مضبوط خواہش پر قابو پانے میں ناکامی۔ وہ بتاتا ہے کہ جب انھیں یہ جراثیم لگ جائیں تو پھر وہ لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا بند کردیتے ہیں اور انتشار و افراتفری کے بیج پنپنا شروع کردیتے ہیں۔
بری حکومت اور برائی کا جنم خود نہیں ہوتا ہے یہ ہم ہی ہیں جو انھیں جنم دیتے ہیں جب ایک بار ان کا جنم ہو جاتا ہے تو ان کے وارث خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں اور ہر آنے والا وارث اور برا اور برائی والا ہوتا ہے۔
دنیا بھر کے تاریخ دان اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ لیڈر شپ کی 90 فیصد ناکامیاں کردار کی ناکامیاں ہوتی ہیں۔
روز ویلٹ کہتا ہے '' کردار۔ کسی فریاد کسی قوم کی زندگی میں ایک فیصلہ کن عامل ہوتا ہے'' دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری کی ساری ناکامیاں کردار کی ہی ناکامیاں ہیں۔ ہماری سارے بحرانوں کے پیچھے اصل میں نیت کا بحران ہے۔ اصل میں ہمیں نیت کے بحران کے علاوہ کسی اور بحران کا کبھی بھی سامنا نہیں رہا ہے اور اسی نیت کے ہی بحران سے باقی سب بحرانوں نے جنم لیا ہے۔
آئیں! ایسا کریں کہ آپ اپنے پہلے حکمرانوں سے لے کر آج تک کے تمام حکمرانوں کا ایک مکمل چارٹ بنا لیں اور اسی چارٹ میں حکمرانوں کی فہرست کے سامنے دو کالم دیانت دار یا بد دیانت دار لکھ لیں پھر اس کے بعد ملکی تاریخ کی مستند کتابیں کھول کر بیٹھ جائیں اور ایک ایک حکمران کا تفصیلی جائزہ لینا شروع کردیں اور ان کے انداز حکمرانی، اقدامات، ان کے کردار، ان کی نیت کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرنے کے بعد ان کے دیانت دار یا بد دیانت دار کا فیصلہ کر لیں اور جب آپ اپنے آخری حکمرانوں کے بارے میں فیصلہ کر چکے ہوں تو پھر آپ دیانت داروں اور بدیانتوں کی گنتی کرلیں جیسے ہی آپ گنتی ختم کریں گے تو آپ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہوں گے کہ ہمیں ہمیشہ ہی سے نیت اور کردار کے بحرانوں کا سامنا رہا ہے اور ہمارے حکمرانوں کی اکثریت حکومت کرنے کی اہل ہی نہ تھی اور ان کی نیت ملک اور قوم کی خوشحالی ، ترقی ، کامیابی اور استحکام کی تھی ہی نہیں ، بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو سیڑھی بنا کر اقتدار حاصل کر کے اپنے آپ کو خوشحال، کامیاب ، دولت مند بنانا مقصود تھا انھوں نے نہ صرف خود بھر پور لوٹ مار کی بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی بھر پور لوٹ مار کرنے کا موقع فراہم کیا۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کل تک ملک پر بیس خاندانوں کی حکمرانی قائم تھی۔ آج وہ تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے چند ہزار لوگوں کی بددیانت داری ، بدنیتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کی نظر میں سیاست ایک گھناؤنا اور گندہ ، کرپٹ کھیل بن کے رہ گیا ہے لوگوں کا سیاست پر سے ہی اعتماد اٹھ گیا اور لوگوں کی اکثریت نے سیاست سے لاتعلقی اختیار کر لی جب آپ غیر سیاسی ہوجاتے ہیں تو آپ معاشرے کی تمام سر گرمیوں سے لاتعلق ہوجاتے ہیں کیونکہ انسان معاشرتی جانور کے ساتھ ساتھ سیاسی جانور بھی ہے اور پھر بددیانت داروں ، بد نیتوں کا راستہ صاف ہوجاتا ہے جب اکثریت لاتعلق ہوجاتی ہے تو پھر اقلیت اکثریت پر حاوی ہوجاتی ہے اور اپنے لیے جو فیصلے اور اقدامات آپ نے خود کرنا ہوتے ہیں پھر وہ فیصلے اور اقدامات آپ کے دشمن کررہے ہوتے ہیں۔
خدارا اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کریں آپ جتنی دیر اور سیاست سے لاتعلق رہیں گے، اتنے ہی آپ کے بحرانوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اگر آپ اپنی بدحالی ، بربادی ، اذیتوں ، تکلیفوں پر خوش وخرم ہیں تو پھر لاتعلقی جاری رکھیے اور اگر آپ اپنے عذابوں سے بیزار آچکے ہیں تو پھر فوراً سیاسی جانور بن جائیے۔ افلاطون کہتا ہے '' سیاست میں حصہ نہ لینے کی ایک سزا یہ ہے کہ آپ سے کم تر لوگ آپ پر حکومت کرتے ہیں۔''