مرغ مسلم
اس گاؤں میں انھوں نے خوب موٹا تازہ ایک مرغ پایا لیکن بالکل ہڈیوں کی مالا کہ ذرا سا بھی گوشت اس میں نہ تھا
مولانا جلال الدین رومی کی حکایات درحقیقت پند و نصائح کا ایک گنجینۂ بے بہا ہے جس میں سیکھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کا بہت سامان موجود ہے اگر کوئی سمجھنا چاہے تو۔ مولانا فرماتے ہیں کہ '' بچے بہت سے من گھڑت قصے کہتے ہیں، ان کہانیوں اور پہیلیوں میں بہت سے راز اور نصیحتیں ہوتی ہیں اور فضول باتیں بھی، لیکن تو انھی ویرانیوں میں سے خزانہ تلاش کر لے۔''
مولانا روم کی ایک حکایت کے مطابق ایک بڑا گنجان شہر تھا، کوئی دس شہروں کے آدمی اس ایک شہر میں آباد تھے لیکن وہ سب کے سب تین ہی قسم کے نادان تجربہ کار تھے۔
ایک تو وہ کہ دور کی چیز دیکھتا تھا مگر آنکھوں سے اندھا تھا۔ حضرت سلیمان کے دیدار سے تو اس کی آنکھیں بے نصیب تھیں لیکن چیونٹی کے پاؤں دیکھ لیتا تھا۔ دوسرا بہت تیز سننے والا مگر بالکل بہرہ تھا اور تیسرا چم ننگا جیسے چلتا پھرتا ہوا مردہ لیکن اس کے کپڑوں کے دامن بہت لمبے لمبے تھے۔
اندھے نے کہا دیکھو! ایک گروہ آ رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ کون سی قوم ہے اور اس میں کتنے آدمی ہیں۔ بہرے نے کہا کہ ہاں ! میں نے بھی ان کی باتوں کی آواز سنی ہے، ننگے نے کہا کہ بھائی! مجھے یہ ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں وہ میرے لمبے لمبے دامن نہ کتر لیں، اندھے نے کہا کہ دیکھو! وہ لوگ نزدیک پہنچ گئے ہیں۔
ارے جلدی اٹھو، مارپیٹ یا پکڑ دھکڑ سے پہلے ہی نکل بھاگیں۔ بہرے نے کہا کہ ہاں ان کے پیروں کی چاپ نزدیک ہوتی جاتی ہے۔ اے دوستو! ہوشیار ہو جاؤ۔ ننگے نے کہا کہ بے شک! بھاگو! کہیں ایسا نہ ہو وہ میرا دامن کتر لیں۔ میں بالکل ہی خطرے میں ہوں۔ الغرض تینوں شہر سے بھاگ کر باہر نکلے اور ایک گاؤں میں پہنچ گئے۔
اس گاؤں میں انھوں نے خوب موٹا تازہ ایک مرغ پایا لیکن بالکل ہڈیوں کی مالا کہ ذرا سا بھی گوشت اس میں نہ تھا۔ اندھے نے اسے دیکھا۔ بہرے نے اس کی آواز سنی اور ننگے نے اسے پکڑ کر اپنے دامن میں لے لیا۔ وہ مرغ مر کر خشک ہو گیا تھا اور کوے نے اس میں چونچیں ماری تھیں۔
ان تینوں نے ایک دیگ منگوائی جس کا نہ دہانہ تھا نہ پیندا، بس اسی کو چولہے پر چڑھا دیا پھر اس میں وہ مرغ ڈال دیا اور اسے پکانا شروع کیا اور اتنی آنچ دی کہ ساری ہڈیاں گل کر حلوہ ہوگئیں پھر جس طرح شیر اپنا شکار کھاتا ہے اسی طرح تینوں نے وہ مرغ کھایا اور ہر ایک نے ہاتھی کی طرح سیر ہو کر کھایا۔
وہ تینوں اس ایک مرغ کو کھا کر بہت بڑے گراں ڈیل ہاتھی کی طرح موٹے تازے ہوگئے ان کا مٹاپا اتنا بڑھا کہ ہر ایک اپنے چوڑے چکلے پن کی وجہ سے جہاں میں نہ سماتا تھا۔ مگر اس قدر مٹاپے کے باوجود وہ دروازے کے سوراخ میں سے نکل جاتے تھے۔مخلوق کو ''ہوکا'' ہو گیا ہے کہ دنیا کی ہر شے اپنے پیٹ میں اتار لے اور کھا کھا کر خوب موٹی ہو جائے۔
خواہ وہ چیز ظاہر میں چرب اور اچھی نظر آتی ہے اور حقیقت میں کیسی ہی گندی اور ناجائز کیوں نہ ہو، اسے اپنے پیٹ بھرنے سے کام ہے، لیکن دوسری طرف تو بات یہ ہے کہ اسے موت کے راستے پر چلے بغیر چارہ نہیں اور یہ وہ عجیب راستہ ہے کہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک کے پیچھے ایک قافلے کے قافلے دروازے کے روزن سے نکلے جاتے ہیں اور وہ روزن دکھائی نہیں دیتا بلکہ خود اس دروازے کا پتا نہیں چلتا جس کے روزن سے یہ قافلہ گزرا چلا جاتا ہے۔
اس حکایت میں امید کی مثال بہرے کی ہے ہماری موت کی خبر تو رکھتا ہے مگر اپنی موت کی خبر نہ سنتا ہے اور نہ اپنے کو گزرتا ہوا دیکھتا ہے۔
حرص کی مثال اندھے کی ہے کہ مخلوق خدا کے ذرا ذرا سے عیب کو تو دیکھتا ہے اور کوچہ کوچہ اس کی تشہیر بھی کرتا ہے لیکن اس کی اندھی آنکھ اپنے اندر کے عیب کو ذرہ برابر بھی نہیں دیکھتی۔ جب کہ ننگے کی مثال دنیا دار شخص کی ہے کہ وہ دنیا میں ننگا آیا تھا اور ننگا ہی یہاں سے جانا ہے مگر ساری عمر چوری چکاری، لوٹ کھسوٹ اور کرپشن و بدعنوانی کے غم میں اس کا جگر خون ہوتا رہتا ہے۔
ایسا آدمی اپنی موت کے وقت اور بھی واویلا مچاتا ہے لیکن اس وقت خود اس کی جان خوب ہنستی ہے کہ زندگی میں تو یہ شخص کسی چیز کا خوف نہ کھایا کرتا تھا۔ اس گھڑی صاحب حس کو یہ پتا چلتا ہے کہ اس نے زندگی کس بے ہنری میں گزاری۔
آپ اس حکایت کے پس منظر میں ریاست پاکستان اور اس کے آئینی اداروں اور ان سے وابستہ کرداروں کے قول و عمل کا جائزہ لے لیجیے اصل حقیقت آپ کے سامنے کھل کر عیاں ہو جائے گی۔
حکایت کے تین اہم کردار اندھے، بہرے اور ننگے کی جگہ ریاست پاکستان کے اداروں کو ''فٹ'' کر دیجیے۔ اسی طرح موٹے تازے مرغ کی جگہ وطن عزیز پاکستان کو '' فٹ'' کر دیجیے۔ اب آپ گزشتہ سات دہائیوں سے آج تک پاکستان کی تاریخ کا طائرانہ جائزہ لے لیجیے اور دیکھیے کہ کس ادارے نے اپنے اندھے، بہرے اور ننگے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست پاکستان کو موٹا تازہ مرغ مسلم سمجھ کر کس کس طرح سے شکم خوری کی ہے اور ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔
سیاست، عدالت، معیشت، تجارت اور صحافت کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں ابتری و بدحالی نہیں، معاشی استحکام کسی بھی ملک کی ترقی و کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ آج ہماری معیشت آئی ایم ایف کی غلامی اور بھاری قرضوں تلے ایسے دب گئی ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لاکھوں کا مقروض ہے لیکن ملکی معیشت کو تباہ کرنے والوں کے بچے آج کروڑ اور ارب پتی ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ پانے والے سرکاری بزر جمہوروں اور ان کے آقاؤں نے ایسی پالیسیاں بنائیں کہ خود تو خوش حال ہوگئے لیکن ملک کنگال اور عوام بدحال ہوگئے۔ عام آدمی کی یہ حالت ہے کہ وہ دو وقت نہیں بلکہ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس رہا ہے۔
مہنگائی و گرانی قومی تاریخ کے بلند ترین مقام پر ہے۔ برسر اقتدار آنے والے سیاسی و غیر سیاسی ہر دو حکمرانوں نے اپنی عاقبت نااندیشی میں ایسے فیصلے، اقدامات اور پالیسیاں مرتب کیں کہ سیاست، عدالت، تجارت غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں آج دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
بدعنوانی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، آئین شکنی، جمہوریت پر شب خون، عدالت میں نظریہ ضرورت کا جنم، قانون کی پامالی، آمریت کی طوالت غرض جس کو جب جہاں اور جس طرح موقعہ ملا آنکھیں، سماعتیں رکھنے اور قیمتی پوشاک پہننے والے صاحب اختیار اندھوں، بہروں اور ننگوں نے ''مال مفت دلِ بے رحم'' کے مصداق پاکستان کو مرغ مسلم سمجھتے ہوئے اپنے پیٹوں کو ایسے بھرا کہ انھیں ڈکار بھی نہیں آیا۔
آج کا پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، معیشت ڈوب رہی ہے، پارلیمنٹ اور عدلیہ مدمقابل ہیں، آئین پنڈولم بنا ہوا ہے، حکومت اپوزیشن محاذ آرائی جمہوریت خطرے میں ہے، صحافت بھی داغ دار ہو چکی، طاقتور حلقے بظاہر خاموش ہیں اور عوام حیران و پریشان کہ کیا ہونے والا ہے، کچھ خبر نہیں اے کاش! وطن عزیز کو ''مرغ مسلم'' سمجھنے والے بصارت، سماعت اور قوت گویائی رکھنے والے اندھوں، بہروں اور ننگوں کو اللہ تعالیٰ راہ راست پر ڈال دے۔