پاک بھارت تعلقات کا نیا دور
بھوک،غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور دہشت گردی نہ ہوتو پاکستان خوشحال ہوتا
پاکستان کو دو مسئلوں نے تباہ کرکے رکھ دیا۔ پہلا کشمیر دوسرا افغانستان۔
ان دو مسئلوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کو پیس کر رکھ دیا۔ بھوک ہو یا غربت بے روزگاری ہو یا مہنگائی یا دہشت گردی ان سب کا براہ راست تعلق ان مسئلوں سے ہے۔ سوچیے اگر ہمیں ان مسئلوں کا سامنا نہ ہوتا تو پاکستان کتنا خوش حال اور ترقی یافتہ ہوتا۔ یقینی طور پر بین الاقوامی ترقی یافتہ برادری میں اس کا مقام صف اول میں ہوتا۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ افغانستان نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ پہلے مسئلے نے ملک دو ٹکڑے کردیا۔
دوسرے مسئلے نے ہمیں جہاد اور دہشت گردی کا ایسا تحفہ دیا کہ خاکم بدہن ملک ہی ریزہ ریزہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی تباہی اور بربادی کے باوجود ہمارے ہاتھ کیا آیا؟ یہ دشمنوں کی سازش ہی تھی کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی یہ دونوں ''تحائف'' اسے مل گئے۔ اب جاکر کچھ امید پیدا ہوئی ہے کہ پاک بھارت تعلقات جو دشمنی کی حدوں کو چھو رہے تھے آخر کار دوستی میں بدلیں گے۔ اس پس منظر میں چند دن پیشتر بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے پاکستان کا دورہ کیا ۔
مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانا چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ تاریخ کے ہاتھوں یرغمال بننے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات کو ''مکمل تبدیل شدہ سوچ'' کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ ہمیں ماضی کی طرح اب مسائل حل کرنے کا موقع نہیں کھونا ہے۔ راجیو گاندھی اور بے نظیر بھٹو نے سیاچن پر معاہدے کا موقعہ کھو دیا تھا۔ گیاری سیاچن میں 100 سے زائد پاکستانی سپاہیوں کی موسمی حالات کے ہاتھوں شہادت کے بعد ہمیں موقع ملا تھا کہ یہ معاملہ حل کرتے لیکن ہم نے یہ موقعہ بھی کھو دیا۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کن تشویشناک حالات میں گھرا ہوا ہے۔ اس انتہائی خطرناک صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات جلد از جلد دوستی میں بدل جائیں۔ لیکن اس کے لیے بھی اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ جس کی طرف پاکستانی وزیر خارجہ نے اشارہ کیا ہے۔ پاک بھارت دوستی ہی پاکستان کو ان سازشوں سے بچاسکتی ہے جو اس کے وجود کے درپے ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نئے مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے اور انھیں کھونا نہیں چاہتا۔
ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وقت حالات اور تاریخ نے ہمیں کہاں تک پہنچا دیا ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اس وقت پاکستان کو بھارت سے دوستی کی اشد ضرورت ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ پاکستان کے گرد سازشیوں نے مکمل طور پر گھیرا ڈال لیا ہے۔ دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ وقت انتہائی تیزی اور سرعت سے گزر رہا ہے اور اگر ہم نے یہ وقت ضایع کردیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارت بھی پاکستان کی دوستی کا ہاتھ جھٹک کر اسے اکیلا چھوڑتے ہوئے بین الاقوامی سازشوں کا حصہ بن جائے۔ ہماری عالمی تنہائی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔
روسی صدر پیوٹن کا پاکستان کی تاریخ کا پہلا دورہ اسی خطرے کی پیش بندی ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ''کوئی بھی چیز'' منفی نظر سے دیکھنے کے بجائے مثبت انداز میں دیکھ رہا ہے۔ اس موقعہ پر بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ملک تمام تصفیہ طلب معاملات حل کرنے پر متفق ہیں۔ معاملات کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ ایک دن میں حل نہیں ہوں گے۔ یہ بتدریج پیش رفت کی طرف بڑھیں گے۔ ماضی میں جو ہوا اس کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننا۔ انھوں نے کہا کہ منموہن سنگھ نے دورہ پاکستان کے لیے کوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی۔
وہ مناسب ماحول میں پاکستان آئیں گے۔ میں واپس دہلی جاکر انھیں صورت حال کے بارے میں اپنا تجزیہ بتائوں گا جس کو دیکھ کر وہ دورے کا فیصلہ کریں گے۔ اس پر حنا ربانی کھر نے کہا کہ امید ہے یہ تجزیہ مثبت ہوگا۔ اس سے پہلے پاکستان آمد کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان مستحکم اور خوشحال ریاست ہو۔ خوش حال پاکستان بھارت کے مفاد میں ہے۔ اس موقعہ پر پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اب بھارت کو مختلف انداز میں دیکھتا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بھارت کے معاملے میں پاکستان نے ''اپنے کئی روایتی موقف'' ترک کردیے ہیں۔ مذاکرات جاری رکھنے کی بہت اہمیت ہے۔ بات چیت جاری رہے تو ابتدائی اقدامات درمیانے درجے کی پیش رفت میں بدل سکتے ہیں۔ یہ پیش رفت ہو بھی رہی ہے۔ جس کے بعد باہمی تعلقات میں ایک لمبی چھلانگ بھی لگائی جاسکتی ہے۔
اگر ہم پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کا جائزہ لیں تو 65ء کی جنگ نے ان دونوں ملکوں کے تعلقات کو دشمنی میں بدل دیا۔ 65ء کی جنگ امریکا کی ضرورت تھی، اس کے صرف 5 سال بعد ہماری انڈیا سے پھر جنگ ہوگئی جس نے پاکستان کو دو ٹکڑے کردیا۔ پاک بھارت دشمنی اس وقت کی امریکا کی ضرورت تھی۔ کیونکہ امریکا نے اپنے دشمن سوویت یونین کے خلاف لڑائی لڑنا تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے لیے ایک عیارانہ حکمت عملی کے تحت ہی برصغیر کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پھر اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ برصغیر کی تقسیم پر امن نہ ہو بلکہ خونی ہو تاکہ یہ دونوں ملک مدتوںایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں اور ایسا ہی ہوا۔
خونی تقسیم سے ''فائدہ'' یہ ہوا کہ موجود پاکستانی پنجاب کو ہندوئوں اور سکھوں سے خالی کرالیا گیا کیونکہ ان کی موجودگی میں نہ یہاں پر مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کو پروان چڑھایا جاسکتا تھا اور نہ ہی امریکا سوویت یونین کے خلاف جہاد کرسکتا تھا۔ حالانکہ اسی شہر لاہور میں ہندو سکھ اور مسلمان سیکڑوں سالوں سے بھائی چارے اور برداشت سے رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مذہبی رسومات میں شرکت کرتے تھے۔ لاہور میں ہندو سکھ اور مسلمان آبادی کا تناسب 49 اور 51 فیصد تھا۔
بنگلہ دیش بنانے میں بھی یہی حکمت عملی کارفرما تھی کہ بنگالیوں کی موجودگی میں امریکی اس خطے کے حوالے سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے تھے۔جب کہ موجودہ پاکستان کے سادہ لوح پاکستانیوں کو مذہب کے نام پر دھوکا دینا امریکا اور اس کے ایجنٹ پاکستانی لیڈروں کے لیے بہت آسان تھا۔ آپ ذرا غور فرمائیں کہ امریکا نے اپنے دشمن سوویت یونین کے خاتمے کے لیے کتنا عرصہ پہلے سے منصوبہ بندی کررکھی تھی۔ اس ضمن میں سب سے پہلے برصغیر کی خونی تقسیم کی گئی۔ 65اور 71کی جنگیں کرائی گئیں اور آخر کار 79میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کا آغاز کردیا گیا۔ اسی سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ برصغیر کے عوام کو کتنا بڑا دھوکہ دیا گیا۔
پاک بھارت تعلقات میں ''لمبی چھلانگ ''کے حوالے سے وقت کا آغاز جنوری 'مارچ 'اپریل2013 سے ہوجائے گا۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے 2013 اور اس کے خاص مہینے انتہائی حساس بھی ہیں کیونکہ امن دشمن قوتیں موقعے کے انتظار میں ہیں۔
اوقات رابطہ: پیر تا جمعہ دوپہر 2 تا 6 بجے شام
سیل فون نمبر:0346-4527997