لکھنا منع ہے
عین ممکن ہے کہ یہ خاکے کسی ٹی وی چینل کے لیے منتخب کیے جاسکیں
محمد رفیق بلوچ 12جون 1958کو لیاری، کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم باغ ہالار سکینڈری اسکول، نشتر روڈ، کراچی سے حاصل کی۔ میٹرک فرسٹ ڈویژن اور انٹرمیڈیٹ سیکنڈ ڈویژن میں کراچی بورڈ سے اور بی۔ اے سیکنڈ ڈویژن کراچی یونیورسٹی سے پاس کیے۔
رفیق بلوچ نے21 سال کی عمر میں سرکاری محکمہ ٹیلیگراف اینڈ ٹیلیفون (موجودہ پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن کارپوریشن لیمٹڈ) میں ملازمت کی۔ آپ رات کو ڈیوٹی کرتے اور دن کو تعلیم حاصل کرتے۔ 1983 میں آپ بینک میں بھرتی ہوئے۔ دورانِ ملازمت آپ نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور 1990 میں بینکنگ سے متعلق ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انسٹیٹیوٹ آف بینکرز اِن پاکستان (ڈی۔اے۔آئی بی پی) کی ڈگری حاصل کی اور 2008 میں ایم بی اے کیا۔
منیجر آڈٹ کے عہدے سے 2017 میں ریٹائر ہوگئے۔ رفیق بلوچ علم دوست، روشن خیال سماجی کارکن ہیں، علاقے میں لڑکے اور لڑکیوں کی فروغ تعلیم اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ وہ ایک عرصے سے انجمن اصلاحِ نوجوانان، شیروک لین، کلاکوٹ لیاری کے صدر بھی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کتاب لکھنے کی طرف متوجہ ہوئے حال ہی میں طنز و مزاح پر مبنی ان کی پہلی کتاب '' لکھنا منع ہے'' منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں چھوٹے چھوٹے مزاحیہ مضامین کے ذریعے قارئین کو محظوظ کیا ہے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ '' ایک مرتبہ کونسلر کے الیکشن میں حصہ لیا ، ضمانت ضبط ہوگئی ، گھر والوں نے بھی ووٹ نہیں دیا ، محلے کی انجمن کے کرتا دھرتاؤں کو رشوت دے کر انجمن کا صدر تو بن گیا مگر انجمن کے 90فیصد اراکین نے اپنا نام انجمن سے خارج کروا دیا، جس سبب انجمن بند کرنا پڑی، مشہور ہونے کے شوق میں علاقے کے فٹبال کلب کا جنرل سیکریٹری بن گیا لیکن ٹیم بغیر کوئی میچ کھیلے تحلیل ہوگئی، ان تمام کوششوں کی ناکامی کے بعد دل میں خیال آیا کہ لکھنے سے بھی لوگ مشہور ہوجاتے ہیں، ان کی طرح مجھے بھی کوئی نہ کوئی ایوارڈ ملے گا تو میں بھی مشہور ہو جاؤں گا۔ مرزا غالب کی فاقہ مستی تو رنگ نہ لاسکی مگر آج انھی کی غزلیں گا گا کر لوگ کروڑ پتی بن گئے ہیں، مجھے بھی یہی گمان ہے کہ بعد میرے مرنے کے میری کتاب کی کمائی سے دوسرے لوگ عیش کریں گے، فی الحال تو اسے چھپوانے کے پیسے بھی مجھے اپنے پلے سے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ ''
قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں کتاب کے کچھ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔ '' کتا نامہ'' میں مصنف نے لکھا ہے کہ کچھ خواتین ان کتوں کو اپنے شوہروں پر بھی فوقیت دیتی ہیں، شوہر نامدار برآمدے میں اور کتا ان کے ساتھ بستر پر سوتا ہے، غریب ممالک کے انسان ان کتوں کی پرآسائش زندگی پر رشک کرتے ہیں اور آرزو کرتے ہیں کہ کاش ! وہ ایک کتا ہی ہوتے تو بہتر تھا۔ اس موقع پر ایک دل جلے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ :
کتے کو لے کر سیٹھ کی گاڑی چلی گئی
اور راہ پہ کھڑا معذور مرگیا
ایک قبیح عادت جو اکثر کتوں میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے جسم میں نہ جانے کیا سونگھتے پھرتے ہیں۔ شیخ چلی کے عنوان سے مضمون میں مصنف لکھتے ہیں کہ '' شاید چلی میاں پہلے بلوچوں کے محلے میں رہتے ہوں گے کیونکہ بلوچی زبان میں چلی ایک میلے کچیلے آدمی کو کہتے ہیں، ممکن ہے کہ چلی میاں بچپن میں گندگی سے نہایت شغف رکھتے ہوں جس کی وجہ سے اس کا نام چلی پڑگیا ہو۔''
سوشل انارکی نامی مضمون میں لکھا ہے کہ '' ویک اینڈ کی رات ہے اور ہے دھرنا تیرا ، بد دعا دے رہے ہیں لوگ ٹریفک جام کو ۔ جو جی میں آئے کرلو تمھیں آزادی ہے، بند کردو راستے آج میری شادی ہے۔''
لکھنا منع ہے، مضمون میں لکھا ہے کہ '' ایک شخص نے اپنے مکان پر خرچہ کر کے رنگ و روغن کروایا،کچھ دنوں بعد کسی لکھنے والے نے دیوار پر لکھا ، دیوار پر لکھنا منع ہے۔ اگلے دن کسی اور لکھاری نے کچھ اس طرح طبع آزمائی کی، اگر دیوار پر لکھنا منع ہے تو پھر آپ نے کیوں لکھا ؟ جب پہلے لکھنے والی کی نظر اس تحریر پر پڑی تو اس سے رہا نہ گیا اور انھوں نے اس بدتمیز انسان کو جواب دینا ضروری سمجھا وہ بھی اس طرح '' ارے نادان انسان ! میں نے تو لوگوں کو سمجھانے کے لیے دیوار پر لکھا تھا کہ دیوار پر لکھ کر اسے گندہ نہ کریں۔''
کچھ دنوں بعد ایک تیسرا شخص میدان عمل میں کود پڑا اور اس نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا، '' کیا مذاق ہے آپ لوگوں نے لکھ لکھ کر دیوارکا ستیاناس کردیا ہے'' اور واقعی اس وقت تک دیوار کا ستیا ناس ہوچکا تھا۔
مصنف گدھوں کی بڑھتی ہوئی آبادی، میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں گدھوں کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں یعنی ظاہری گدھے ( وہ گدھے جو شکل وصورت، جسمانی ساخت اور قد و قامت کے لحاظ سے گدھے کہلاتے ہیں، ان گدھوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ڈھینچو ڈھینچو کرتے ہیں ) یا باطنی گدھے ( یہ گدھوں کی وہ قسم ہے جو شکل و صورت سے تو گدھے نہیں لگتے، مگر اپنے عقل و فہم ، عادات و اطوار اور چال و چلن کی وجہ سے گدھے مانے جاتے ہیں۔ اس طرح کے گدھے بھی ڈھینچو ڈھینچو کرتے ہیں، لیکن لوگوں کو محسوس نہیں ہوتا۔ )
الغرض یہ کہ کتاب ، لکھنا منع ہے ، کے عنوان سے یہ مراد نہیں ہے کہ کسی بھی قسم کی تحریر یا عبارت لکھنے سے منع ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے درودیوار پر لکھ کر انھیں خراب کرنا منع ہے۔ کتاب میں بہ ظاہر چھوٹے چھوٹے مگر حقیقتا بڑے بڑے معاشرتی مسائل کو عمدہ انداز میں ضبط تحریر میں لانے کی بھر پورکوشش کی گئی ہے ۔ جس طرح ماضی میں پی ٹی وی کے ڈراموں الف نون ، ففٹی ففٹی اور انور مقصود بشمول معین اختر کے پروگراموں میں پیش کیے جاتے تھے۔
مصنف کے لیے میری تجویز ہے کہ وہ ان مضامین کو خاکوں کی صورت میں لکھیں تو عین ممکن ہے کہ یہ خاکے کسی ٹی وی چینل کے لیے منتخب کیے جاسکیں ۔ اس طرح مصنف راتوں رات مشہور رائٹر بن سکتے ہیں ورنہ دیگر اور مصنفین کی طرح ان کی کتاب بھی ریگل چوک کے فٹ پاتھ کی زینت بن سکتی ہے،کیونکہ کتاب بینی کی جگہ ڈیجیٹل میڈیا نے لے لی ہے جو بدقسمتی کی بات ہے۔ بہرکیف کتاب'' لکھنا منع ہے'' پرآشوب دور میں مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانے کی ایک اچھی کوشش ہے۔