آسان الفاظ میں لکھی گئی کتاب ’’بچوں کے اقبال‘‘

اقبال نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ تم ان حالات میں ہمیشہ انگریزوں کے غلام رہو گے


Naseem Anjum April 30, 2023
[email protected]

21 اپریل پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کی وفات کا دن ہے، علامہ اقبال پر اب تک بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں جس کتاب پر میں خامہ فرسائی کرنے جا رہی ہوں وہ بھی علامہ اقبال کے حالات زندگی، شاعری، تعلیم اور پاکستان کا خواب دیکھنے کے حوالے سے ہے انفرادیت یہ ہے کہ یہ بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، نام ہے ''بچوں کے اقبال''۔

بہت سادہ اور سلیس زبان میں، اس کے مصنف پروفیسر خیال آفاقی ہیں، خیال آفاقی کی 27 کتب منصہ شہود پر جلوہ گر ہو چکی ہیں جن میں 5 کتابیں علامہ اقبال پر شامل ہیں۔

''بچوں کے اقبال'' راحیل پبلی کیشن سے شایع ہوئی ہے، دلکش سرورق کے ساتھ۔ 104 صفحات پر مشتمل کتاب پر علامہ اقبال کے بارے میں بہت سی معلومات درج ہیں۔ مصنف کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے بچوں کی نفسیات اور ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے قلم بند کی ہے اور یہ ناول کے انداز میں لکھی گئی ہے۔

مکالمہ نگاری کے ذریعے تحریر اپنے انجام کو پہنچتی ہے، انھوں نے بچوں کو بتایا ہے کہ اقبال کے بزرگ یعنی آبا و اجداد کشمیر میں آباد تھے، یہ کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب کے مختلف علاقوں میں آ کر بس گئے، ان میں اقبال کے دادا بھی تھے انھوں نے سیالکوٹ کا انتخاب کیا۔

علامہ اقبال کی پیدائش کے حوالے سے مصنف نے ایک بے حد خوبصورت واقعہ بھی لکھا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے والد شیخ نور محمد کے ہاں پیدا ہونے والا دوسرا بچہ اپنی صلاحیتوں کی بدولت نام روشن کرے گا، انھوں نے خواب میں دیکھا کہ'' ایک بڑا سا میدان ہے جس میں بہت سے لوگ جمع ہیں، انھی میں وہ خود بھی ہیں کہ ایک حسین پرندہ اڑتا منڈلاتا پھر رہا ہے سب لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہیں آتا، اتنے میں وہ یکایک ان کی گود میں آن کر بیٹھ جاتا ہے۔''

شیخ نور محمد نے دوسرے بیٹے کی پیدائش کو اس خواب کی تعبیر جانا، اس سے قبل ایک بیٹا اللہ نے دیا تھا جس کا نام عطا محمد رکھا گیا تھا۔ دوسرے کا نام اقبال رکھا، پھر ذرا ہوش سنبھالا تو مدرسے میں قرآن پڑھنے بٹھا دیا، اسی دوران مدرسے میں اس وقت کے ایک بہت بڑے عالم فاضل مولوی میر حسن کا آنا ہوا، مولوی میر حسن عربی اور فارسی زبان کے ماہر تھے، انھوں نے اقبال کو قرآن اور دین و ایمان کی تعلیم کے ساتھ عربی اور فارسی زبان بھی سکھانی شروع کردی، اس طرح شروع ہی سے دین و ایمان سے محبت پیدا ہوگئی۔

جب اقبال نے نوجوانی میں قدم رکھا تو اقبال میں شرم و حیا اور دین اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ میر حسن صاحب کو اردو، فارسی اور عربی کے سیکڑوں شعر یاد تھے، وہ اپنے شاگردوں خصوصاً اقبال کے سامنے پڑھتے اور ان اشعار کا مطلب بھی سمجھاتے۔ اس طرح اقبال کو بھی شاعری سے لگاؤ پیدا ہو گیا۔اقبال نے جب مدرسے کی تعلیم مکمل کرلی تب ان کے والد نے مولوی میر حسن کی خواہش اور اصرار پر سیالکوٹ کے اسکاچ مشن اسکول میں داخل کروا دیا، جہاں میر حسن خود پڑھاتے تھے۔

مولوی میر حسن اقبال کی بہتر سے بہتر تربیت کر رہے تھے، اقبال نے میٹرک بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا۔مصنف نے بچوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف واقعات کو بھی بیان کیا ہے۔ یہ بات بھی بچوں کے لیے حیران کن تھی کہ اقبال جب دولہا بنے گھوڑے پر سوار تھے اس وقت میٹرک میں کامیابی کی خبر ملی کہ وہ شان دار نمبروں سے پاس ہو چکے ہیں۔آج کل تو کم عمری کی شادی کا رواج ہی ختم ہو گیا ہے، اب تو والدین اپنے بچوں کی خصوصاً بیٹوں کی شادیاں اس وقت کرتے ہیں جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے برسر روزگار ہو جائیں۔

اقبال چونکہ نہایت فرماں بردار اور نیک تھے اپنے والدین کا ہر کہنا بے چوں و چرا مانتے تھے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بہت بڑا مرتبہ پایا اور ان کا نام تا قیامت زندہ رہے گا انشا اللہ۔ میٹرک کے بعد اقبال نے سیالکوٹ کے ہی مشن کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے شاعری پر بھی بھرپور توجہ دی۔ اقبال نے اپنا کلام اس وقت کے دو بڑے شاعروں کو دکھایا تھا، ان میں سے ایک مشہور شاعر داغ دہلوی تھے۔ انھوں نے کہا یہ نوجوان بہت ذہین اور سمجھ دار ہے، اسے شاعری میں اصلاح کی خاص ضرورت نہیں ہے۔اقبال کا تعلیمی سلسلہ جاری تھا۔

انھوں نے بی ۔اے پاس کرنے کے بعد انگریزی اور عربی کے امتحان میں امتیازی پوزیشن حاصل کی۔ دونوں مضامین میں سب سے زیادہ نمبر لیے اور اول آنے پر انھیں گولڈ میڈل یعنی سونے کے تمغے اور وظیفے سے نوازا گیا۔ جن دنوں وہ ایم۔اے کر رہے تھے وہ اپنے اساتذہ میں بے حد مقبول ہوگئے، ان کے استاد سر آرنلڈ تو اقبال کو مولوی میر حسن کی ہی طرح چاہتے اور ان کی ذہانت اور قابلیت کی بہت زیادہ تعریف کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اقبال کو ایم۔اے کرنے کے بعد ہی اورینٹل کالج لاہور میں ملازمت دلوا دی۔

اقبال کے پاس عربی زبان کی ڈگری تو نہیں تھی البتہ وہ عربی زبان پر مکمل مہارت رکھتے تھے۔ اقبال کے اپنے دوسرے اساتذہ اور آرنلڈ صاحب کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے۔ مرتے دم تک وہ اقبال کے شیدائی اور دوست رہے۔ انھی کی خواہش پر اقبال نے اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی جانے کا ارادہ کیا، چونکہ ان کے مالی حالات بہت کمزور تھے، لیکن یہ مسئلہ ان کے بڑے بھائی نے حل کردیا جوکہ فوج میں تھے۔ مصنف نے علامہ اقبال کی نظم ''نالۂ یتیم'' کی توضیح و تشریح اس طرح بیان کی ہے کہ جس کے ذریعے مسلمانوں کی زبوں حالی سامنے آجاتی ہے۔

اقبال نے اپنی یہ نظم انجمن حمایت الاسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی تو ایک طرف نظم درد میں ڈوبی ہوئی تھی تو دوسری طرف اقبال کا ترنم دل میں اتر جانے والا تھا کہ سننے والوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ اقبال نے اس نظم میں مسلمانوں کو یتیم کے روپ میں پیش کیا تھا کہ مسلمانوں کی حالت یتیموں جیسی ہے، کوئی ان کا والی وارث نہیں۔ دوسری قوموں نے انھیں غلام بنا رکھا ہے۔ اقبال مسلمانوں کو جگانا چاہتے تھے کہ وہ اپنی تاریخ کو یاد کریں کہ جس طرح ساری دنیا پر ان کی حکومت تھی۔

اقبال نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ تم ان حالات میں ہمیشہ انگریزوں کے غلام رہو گے، لہٰذا آزادی حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔ ایک علیحدہ ملک بنانے کی تجویز علامہ اقبال نے دی تھی، ہندو علامہ اقبال کی یہ بات سن کر غصے میں آگئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو اقبال کی اس تجویز نے چونکا دیا تھا۔ انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ اور ہندو ایک ساتھ رہ کر زندگی نہیں گزار سکتے ہیں اور اب ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ، وہ ہے جو علامہ اقبال نے بتایا ہے۔

لہٰذا 23 مارچ 1940 کو لاہور میں قائد اعظم کی صدارت میں ہونیوالے مسلم لیگ کے اجلاس میں کھل کر اعلان کردیا کہ مسلمان اپنے لیے ایک الگ وطن بنانا چاہتے ہیں اور اس کا نام پاکستان ہوگا۔ 14 اگست 1947 کو علامہ اقبال کا یہ خواب پورا ہوگیا۔ اقبال کے خواب کو قائد اعظم محمد علی جناح نے بے شمار قربانیاں دے کر تعبیر عطا کی، یہ اللہ کا کرم تھا۔ پروفیسر خیال آفاقی نے بچوں کو یہ بھی بتایا ہے کہ آخر علامہ اقبال کو ''قومی شاعر'' کیوں کہا جاتا ہے۔

انھوں نے مثالیں دے کر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جیسے ہمارا ایک قومی پرچم ہے اور ایک قومی ترانہ، قومی کھیل اور قومی پھول، قومی مشروب وغیرہ ہے بالکل اسی طرح علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں۔ وہ شاعر مشرق ہی نہیں بلکہ شاعر اسلام بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے روحانی استاد حضرت مولانا رومی کے لیے کہا تھا:

نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے

وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی

کتاب کے صفحہ 43 سے 104 تک علامہ اقبال کی بچوں پر لکھی گئی نظموں کی تشریح اور مرکزی خیال کی وضاحت کی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں