آرٹیکل 1843
مفادعامہ کے حوالے سے سنگین خلاف ورزیوں پربراہ راست کورٹ کاحرکت میں آناہوتاہے لیکن اس آرٹیکل کابے دریغ استعمال کیاگیا
مجھے نہیں لگتا کہ پنجاب میں چودہ مئی کو الیکشن ہونے جا رہے ہیں، سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے ہی پنجاب اسمبلی اور حکومت حمزہ شہباز سے چھین کر خان صاحب اور پرویز الٰہی کی جھولی میں ڈالی تھی، اب بھی عدلیہ نے ہی چودہ مئی کو پنجاب میں انتخابات کا حکم دے دیا۔
نہ صرف حکم دیا بلکہ الیکشن کا وہ شیڈول جو الیکشن کمیشن نے دینا تھا وہ بھی ترتیب دینے کے لیے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اصل میں یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے ، افتخار محمد چوہدری کے زمانے سے ، وکلاء تحریک نے ایک آمر کو ہٹانے اور معزول ججز کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پھر جس طرح پارلیمنٹ کے چنے ہوئے وزیر اعظم کو گھر بھیجا گیا اور میمو گیٹ پر کمیشن بناکر لگ بھگ سو سے زائد سوموٹو لیے، آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کی اوریجنل حدود بڑے نیک اور مفاد عامہ کے لیے تھے۔ مفاد عامہ کے حوالے سے سنگین خلاف ورزیوں پر براہ راست کورٹ کا حر کت میں آنا ہوتا ہے لیکن اس آرٹیکل کا بے دریغ استعمال کیاگیا۔ اس کے بتدریج استعمال سے جمہوری نظام بیٹھ گیا کیونکہ سول حکومت کو مفلوج کیا گیا۔
اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وکلاء تحریک پر بہت سے سوالیہ نشانات ہیں۔ جس طرح سے عمران خان کو لایا گیا، اسی طرح سے انھیں واپس بھیجا گیا۔ ایوب صاحب کو بھی لایا گیا تھااور پھر رخصت بھی کیا گیا، ضیاء الحق اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو ہوائی جہاز تباہ ہو گیا، جنرل مشرف کو بھی ہٹانا پڑا تھاکیونکہ انھیں دس سال ہو چکے تھے، طالبان کی انتہا پرستی عروج پکڑ رہی تھی۔ سول اور سیاسی ڈھانچہ بالکل تباہ ہو چکا تھا۔
جنرل مشرف کو ڈالر اب بھی مل رہے تھے اور پھر بے نظیر بھٹو کو اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑا، حالات ایسے تھے کہ بیت اللہ محسود یہاں بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کو فون کرتا اور تبادلے بھی کرواتا تھا۔ پھر زرداری صاحب کی قیادت آ ئی۔ آئین کی تشکیل کے بعد جو دوسرا بڑا کام ہوا، وہ تھا اٹھارھویں ترمیم کا پاس ہونا۔ مخصوص سوچ آج بھی اٹھارھویں ترمیم پر تحفظات ظاہر کرتی رہتی ہے۔
جنرل ضیاء الحق اور افغان جہاد کے بعد، مخصوص سوچ کی اسٹبلشمنٹ کا حصہ اور اس کے زیر سایہ مالی مفادات سمیٹنے والا طبقہ طاقت بن کر ابھرا۔
شرفاء کی thick layer جو بن چکی تھی، جن کے بڑوں نے افغان جہاد میں ڈالر کمائے، جہاد کے نام پر اور سوئس بینک میں جمع کرائے ۔ یہ راز بھی افشاء ہوچکا ہے۔ مگر یہاں میڈیا اور کورٹس نے اس بات کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ نوٹس لیا گیا پاناما کا لیکن جب پاناما سے بھی کچھ نہ ہوا تو بات جا پہنچی اقامہ پر، اور یہ آرٹیکل ہے 184(3) اور سو موٹو جس کے تحت سو زائد سو موٹو لیے گئے اور چیف جسٹس بنانے لگے ڈیم۔
پہلے تو ایسا ہوتا تھا کہ شب خون مارا جاتا تھا اور پھر عدلیہ کو نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دینے پڑتے تھے۔ جسٹس دراب پٹیل نے اپنی سوانح حیات میں اس حقیقت کوبہت خوبصورتی سے لکھا ہے، مگر اس بار انجینئر نگ کا سوچا گیا۔ وہ انجینئر نگ یا ہائبرڈ نظام شب خون مار ے بغیر بھی ہوسکتا تھا، افتخار محمد چوہدری نے انیسویں ترمیم پاس کروائی اور اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی بھرتی کے لیے پارلیمنٹ کے کردار کو ربڑ اسٹمپ تک محدود کردیا،اور پھر اس کے بعد ثاقب نثار نے یہ روایت توڑ دی کہ سپریم کورٹ کے لیے جج کا ہائی کورٹ میں سینئر ترین جج ہونا لازمی نہیں۔
نہ ثاقب نثار نے، نہ جسٹس گلزار نہ جسٹس کھوسہ نے اور نہ ہی موجودہ چیف جسٹس نے۔ اس سے یہ تاثر ملتا کہ سینئرجج کا کنڈکٹ جونیئر جج کے مقابلے دلیرانہ ہوتا ہے ، جونیئر جج اگر سپریم کورٹ جائیں وہ مانیں گے، اس کا مظاہرہ آج دیکھنے کو بھی مل رہا ہے۔
جس طرح کی آڈیو ز لیک ہوئی ہیں، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ سسلین مافیا کہیں اور نہیں بلکہ مالدار اورطاقتور وکیلوں کے چیمبرز میں بھی موجود ہے۔ ہم نے کبھی سوچا ہے جس وکلاء تحریک سے نظام انصاف نے طاقت لی تھی، اس طاقت نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا۔ پھر یہ تحریک عدلیہ کی آ زادی کی تو نہ ہوئی ،اس دفعہ پارلیمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی بہت کچھ آشکار کرگئی۔
اس بات کی بالکل ضرورت ہے کہ ہندوستان پاکستان میں دوستی ہونی چاہیے، کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہونا چاہیے۔ مگر یہ کام وہ لوگ نہیں کریں گے جن کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ جس طرح سے جنرل ایوب خان نے، جواہر لعل نہرو کو ہمارے دریا بیچ دیے تھے، یہ کام جنرل مشرف پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، جس طرح سے وہ کارگل کا ایڈونچر کرنے چلے گئے تھے، آمریتوں نے ہماری سرحدیں محدود کی ہیں۔
ان آمریتوں کی پسلیوں سے جو شرفاء کی نسل نکلی ہے وہ یہ نسل نہیں جو ہمیں انگریزوں نے دی تھی۔ یہ وہ شرفاء کی نسل ہے جو اس ملک میں جمہوریت نہیں چاہتی، وہ یہ چاہتی ہے کہ ملک میں یا تو عمران خان جیسے حکمراں ہوں یا پھر مارشل لاء ہو۔ بدنصیبی ہے یہ جو ہماری سپریم کورٹ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی کبھی پارلیمنٹ کے ساتھ بنی ہی نہیں ، ہمارا ماجرہ ہندوستان جیسا نہیں تھا۔
جہاں آمر اندرا گاندھی کے روپ میں پارلیمنٹ سے نکلتے تھے اور جس کو کشوندا کیس جیسی عظیم جج منٹ سے روکا گیا اور وہ جج منٹ تین ججوں نے نہیںبلکہ فل کورٹ نے دی تھی، مگر یہاں سول حکومت کو مارشل لاء سے خطرہ تھا، اس میں کورٹ، پارلیمنٹ کی مدد نہ کرسکی۔ اب اسٹبلشمنٹ خود پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے، اس بات نے سب کو حیران کر دیا۔ نومبر 2022 تک تو سب ٹھیک تھا مگر اب نہیں۔
ایک پورا پلاٹ پکڑا گیا ہے، کس طرح غیر فطری طور پر پنجاب اور خیبر پختونخواہکی اسمبلیاں توڑی گئیں جس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا، مگربھولنے والے پاورکی بنیادی حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ یہ کام تب ممکن ہے جب عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ ایک پیج پر ہوں، ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ یہ سب کچھ مخصوص زمانوں میں ہوا۔ جب دنیا میں نئے بلاک بن رہے ہیں۔ ہندوستان امریکا ،ا یک طرف ، چین ایران، سعودی عرب دوسری طرف، مگر ہمارے لیے کوئی راستہ ہی نہیں رہا۔
خان اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتے تھے وہ امریکا مخالف ہوئے، روس گئے اور کہا کہ جنرل قمرجاوید باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے جو انھوں نے روس کے ساتھ یو کرین کی جنگ میں کھڑا ہونے کا اعلان کیا،اور اب خان صاحب کے اس حالت زار پر سب سے بڑا دکھ زلمے خلیل زاد کو ہوا ہے۔ امریکا کو اب نظر آیا ہے کہ یہاں خان صاحب کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔
ہمارے بلاول بھٹو شنگھائی کانفرنس کے لیے جب ہندوستان جارہے ہیں تو یہ درخواست خود پاکستان نے رکھی کہ ہندوستان اور پاکستان کے وزراء خارجہ کی ملاقات اس حوالے سے ہوجائے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ ہندوستان میں ہوں گے جو وہاں کی مودی حکومت نے جیکٹ کر دی۔ ان کو یہ والا پاکستان نہیںچاہیے، ان کو ایک ایسا پاکستان چاہیے جو بحرانوں کا شکار ہو۔
پاکستان یقینا اپنی راہیں بنائے گا، ایک آزاد عدلیہ کے ساتھ، آزاد پارلیمنٹ کے ساتھ اور ہماری فوج اپنی حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
پاکستان کی مخصوص صورتحال میں عدالتوں کے اس گرتے معیار کے پس منظر پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئین سپریم نہیں بلکہ پارلیمنٹ سپریم ہے کیونکہ عدلیہ کو آئین لکھنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا، جس طرح آئین کی تشریح کرنے کے بہانے آرٹیکل 63A کے ساتھ کیا گیا ہے اور کورٹ آئین کو سپریم قرار دے کر اپنے تشریح کے پاور سے پارلیمنٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور کرسکتی ہے جب تک ادارے مضبوط نہیں ہوتے تب تک پارلیمنٹ سپریم ہے، جب ان کورٹوں میں جسٹس دراب پٹیل جیسے جج صاحبان ہوں گے ،اس وقت پارلیمنٹ نہیں، آئین سپریم ہو گا۔