حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات
آج وہ ماحول ہرگز دکھائی نہیں دیتا جیسا ہمیں 2017 میں دکھائی دے رہا تھا
حکومت اور PTI کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن ہمیں لگتا ہے قومی انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہونگے۔ اول تو اِن مذاکرات کا حتمی نتیجہ شاید ہی نکل پائے۔ آج وہ ماحول ہرگز دکھائی نہیں دیتا جیسا ہمیں2017 میں دکھائی دے رہا تھا۔
اُس وقت اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور حکومت مخالف ساری جماعتیں ایک طرف اور میاں نوازشریف دوسری طرف دکھائی دے رہے تھے۔ مگر اب ایسا کوئی منظر نامہ فی الحال موجود نہیں ہے۔ آج پارلیمنٹ نے بھی اپنی قراردادوں سے کسی ایسے فیصلے کو قبول کرنے سے صاف صاف انکارکردیا جس میں سے جانبداری اور کسی ایک فریق کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی جھلک نظر آرہی ہو۔
دوسری جانب PTI کو بھی معلوم ہوگیا ہے کہ آج اس کے وہ مزے نہیں رہے جو 2011ء سے 2022 تک اُسے ملتے رہے، وہ جو کچھ کرتی رہی اسے آج تک ملک کے مقتدر حلقوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ وہ126 دنوں تک اسلام آباد میں عین پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی رہی لیکن کوئی اسے ہٹانے والا بھی نہیں تھا۔
ہماری قومی سیاست میں خان صاحب کو جتنی مراعات حاصل رہیں اور ابھی تک حاصل ہیں وہ شاید ہی کسی اور سیاست دان کو حاصل رہی ہیں، وہ عدالتوں کے روبرو حاضر نہ ہوں لیکن اُن کی باقاعدہ حاضری تصور کر لی جائے۔
وہ دو تین ہزار کا مجمع لے کر جلوس کی شکل میں عدالت میں پہنچیں تو عدلیہ اُن کے انتظار میں کئی کئی گھنٹے بیٹھی رہے اور اُن کی اس حرکت پر سرزنش کے بجائے یہ توجیح پیش کرے کہ عوام اپنے لیڈر کی محبت میں وہاں جمع ہو جاتے ہیں اور کچھ توڑ پھوڑ کر دیتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ تو ایک معمول کا حصہ ہے۔ ضمانت پر ضمانت کا مل جانا بھی اور توشہ خانہ کیس میں ابھی تک فرد جرم کا عائد نہ کیے جانا بھی فراخدلانہ جذبہ کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسا جذبہ کسی اور ملزم کے حق میں شاید ہی ہمیں نظر آئے۔
ہاں تو بات ہورہی تھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی جس کی کامیابی کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنے ہمیں ہمارے معاشی طور پر ڈیفالٹ ہونے سے بچ جانے کے۔ حکومت اکتوبر یا کم ازکم ستمبر سے پہلے الیکشن کروانے پر ہرگز راضی نہ ہوگی اور یہ بات خان صاحب کی سیاست کے لیے زہر قاتل ہوگی، لہٰذا مذاکرات سے کوئی امید لگانے والے جان لیں کہ وہ صرف وقت ضایع کر رہے ہیں۔
اب خان صاحب چاہیں تو پھر سے سڑکوں پر نکل آئیں۔ ویسے بھی وہ ایک سال سے سڑکوں پر ہی ہیں۔ اپنا اصل گھر بنی گالہ چھوڑ کر زمان پارک لاہور میں قیام دراصل بے گھر ہوجانے کی نشاندہی کرتا ہے۔
بنی گالہ سے وہ اتنا مجمع اکٹھا نہیں کرسکتے تھے، شاید اسی لیے انھوں نے لاہور میں قیام کو ہی بہتر جانا۔ گزشتہ ایک سال سے انھوں نے ہر حربہ آزما لیا، جلسے جلوس، ریلیاں اور لانگ مارچ، جیل بھرو تحریک اور دو صوبائی اسمبلیوں سے چھٹکارا ، جب کہ قومی اسمبلی سے تو وہ پہلے ہی باہر ہوچکے تھے۔ اب اُن کے پاس سیاست کرنے کو صرف اور صرف سڑکیں ہی رہ گئی ہیں۔
ابتدا میں وہ کچھ غلط فہمی میں تھے کہ احتجاجی تحریک کے نتیجے میں وہ حکومت کو زیرکرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے، وہ خود کو ابھی تک 2018 والے دنوں میں محسوس کر رہے تھے۔
انھیں نومبر 2022 کے بعد پتا چلا کہ زمانہ بدل چکا ہے۔ پہلے پہل تو وہ مزاحمتی سیاست اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے حکومت کا تختہ گول کرنا چاہتے تھے ، مگر جب اس میں کامیاب نہ ہوسکے تو نئے آرمی چیف کی تعیناتی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششوں میں لگے رہے اور جب اس میں بھی ناکامی کا سامنا ہوا تو عدلیہ سے توقع لگا بیٹھے اور اب یہ اُمید بھی ختم ہوچکی تو مجبوراً مذاکرات ہی کو اپنی بچی کچی سیاست کا محور سمجھ لیا۔ دو چار دنوں کی بات ہے وہ اس سے بھی مایوس ہو کر ایک بار پھر جلسے جلوس کی سیاست کی طرف گامزن ہونگے۔ انھیں اگر فکر ہے تو اپنی عوامی مقبولیت کو قائم رکھنے کی فکر ہے۔
جتنی تاخیر ہوگی عوام اُن سے دور ہوتے جائیں گے۔ ویسے بھی ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاست میں سب سے زیادہ ذہین اور فطین شخص جب یہ کہہ رہا ہے کہ اگلا دور پاکستان پیپلز پارٹی کا ہو گا تو کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہوگی۔
آصف علی زرداری کی ذہانت کا قائل آج کون نہیں ہے۔ ووٹ آف نو کانفیڈنس کا کامیاب ہوجانا، ایک کرشمہ سے کم نہیں تھا اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے کس کی کوششیں تھیں جو بار آور ثابت ہوئیں۔ اب اگر وہ شخص یہ کہہ رہا ہے کہ اگلا وزیر اعظم بلاول بھٹو ہوگا تو ہمیں یقین کر لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر اس شخص کو زندگی اور ہمت دی تو وہ اپنے اس خیال کو حقیقت کا روپ دھار کے بھی دکھا دے گا۔
خان صاحب کی سیاست کسی کے مرہون منت تھی جو اب انھیں حاصل نہیں ہے۔ اس بات کو وہ اب کچھ کچھ سمجھ چکے ہیں اسی لیے شاید محتاط بھی ہوچکے ہیں۔ کرکٹ میں نیو ٹرل امپائر لانے کا کریڈٹ لینے والے کو سیاست میں پہلی بار کسی نیوٹرل امپائر کا سامنا ہے۔
اس سے پہلے وہ جانبدار امپائر کی مدد سے سیاست کرتے رہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ 1996 سے لے کر 2011 تک وہ سیاست میں خوب گھوڑے دوڑاتے رہے لیکن ایک دو سیٹ سے زیادہ کامیابی نصیب نہ ہوئی، وجہ صرف یہی تھی کہ امپائر ساتھ نہ تھے۔