معین اخترکی زندگی کے چند گوشے
زندگی کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے میں نے دوسروں کی زندگیوں کو پڑھا،یہی وجہ تھی
زندگی کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے میں نے دوسروں کی زندگیوں کو پڑھا،یہی وجہ تھی، مجھے مشہور شخصیات کی سوانح عمریوں نے اپنی طرف راغب کیا۔ اسی چاہ میں خود بھی سوانح نگاری کی طرف آگیا۔یہ بھی حسین اتفاق ہے، ریڈیو اوراخبار کے شعبوں میں کیرئیر کاآغازمیں نے انٹرویوز کرنے سے کیا۔آج معین اخترکی برسی ہے اور مجھے وہ بے حد یاد آرہے ہیں۔2010کو جنوری کے مہینے میں جب معین صاحب سے پہلی مرتبہ بات ہوئی، میں نے ان سے انٹرویو کے لیے وقت مانگا ،توکہنے لگے۔''میں اب انٹرویوز نہیں دیتا۔''میں جانتا تھا کہ انھیں کتب بینی کا بے حد شوق ہے،میں نے کہا''ابھی حال ہی میں میری کتاب شایع ہوئی ہے،جس میں میرے کیے ہوئے انٹرویوزہیں۔میں آپ کو وہ کتاب دوں گا،اگر پسند آجائے، توانٹرویو دے دیجیے گا۔''یہ میری پہلی کتاب''باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے'' تھی،جو اردو ادب، شوبز اور بین الاقوامی شخصیات کے انٹرویوز کا مجموعہ تھا۔
آخرکار اس شرط پر معین صاحب سے وقت طے ہو گیا۔ انھوں نے میری کتاب پڑھی اورپھرانٹرویو دے دیا۔یہ میری خوش قسمتی تھی اوران کا بڑا پن،جس کی وجہ سے مجھے ایک یادگار انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ان سے جب پہلی ملاقات ہوئی، توان کے کمرے میں دنیا بھر کے موضوعات کے متعلق کتابیں رکھی دیکھیں ۔وہ خود کو مطالعہ کے بنا ادھورا سمجھتے تھے اورکسی کتاب کوادھورا نہیں چھوڑتے تھے۔میرے اوران کے درمیان کتاب کا رشتہ استوار ہوا اورہم دونوں دوست بن گئے۔ میرے اسی انٹرویو میں پہلی مرتبہ انھوں نے انکشاف کیا۔ ''میں اپنی سوانح عمری لکھ رہاہوں،جوتقریباً مکمل ہے۔'' انھوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے اپنے کیرئیر میں ایک ہزارسے زیادہ کردار نبھائے۔معین اختر اپنے وقت کے معروف مزاحیہ اداکار ''لہری''کی حالت زار پر بہت دل گرفتہ تھے ،ان کی ہرممکن مددکرتے اورصرف لہری ہی نہیں بلکہ کئی گھروں کا چولہا معین اختر کی وجہ سے روشن تھا۔مجھے ایک دن میرے ناشر آصف حسن کا فون موصول ہوا،انھوں نے بتایا۔'' معین اختر نے تمہاری کتاب سے میرا نمبر تلاش کرکے رابطہ کیاہے،وہ تم سے بات کرنا چاہ رہے ہیں ،ان سے تمہارا نمبر گم ہوگیا ہے۔''میں نے فوراً معین صاحب سے رابطہ کیا۔انھوں نے مجھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ، جتنی جلدی ممکن ہوسکا،میں ان سے ملنے ان کے گھر چلا گیا۔
ملاقات ہوئی ،تو مجھے کہنے لگے ،''یار،میں لہری کی حالت زار دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوں،ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ میرے ذہن میں ایک بڑا اچھا آئیڈیا یہ ہے کہ لہری کی یادداشت بہت غضب کی ہے ،ان کو پاکستانی فلمی صنعت کے بے شمار قصے یاد ہیں،تم ان سے طویل نشستیں رکھو،گفتگو کرو اور پھر ان کی سوانح حیات لکھو، جس میں ان کی پیشہ ورانہ زندگی اور پاکستانی فلمی صنعت کا احوال کا ذکر آجائے۔کتاب کو میں اپنے خرچے پر چھپواؤں گا اور اس کی فروخت سے جو آمدن ہوگی ،وہ ہم لہری صاحب کو نذر کردیں گے۔ہم دونوں کا اس بات پر اتفاق ہوگیا۔''میں نے لہری سے متعدد مرتبہ بات کی،مگر وہ گفتگو کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ میں نے معین اختر کو صورت احوال سے آگاہ کیا، انھوں نے کہا ''میں خود بات کرتا ہوں۔''اس واقعے سے چند دن بعد مجھے خبر ملی کہ معین اختر اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ خبر مجھ پر بجلی بن کرگری ۔میرے لیے کتنا تکلیف دہ منظر تھا کہ لہری کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں۔کہنے لگے۔ معین کے چلے جانے پر لہری نے کہا''میرا بیٹا مجھ سے جدا ہوگیا،اس کی وجہ سے مجھے کئی سکھ تھے۔''
مجھے شوبز کے بہت سے جھگڑے اور اسکینڈلز دیکھنے، سننے اور پڑھنے کا موقع ملا،مگر دوفنکاروں کی ایک دوسرے سے ایسی محبت میری آنکھوں نے پہلی مرتبہ دیکھی ،پھر لہری بھی جلد ہی اس دنیا سے چلے گئے،لیکن ان کی یہ محبت کبھی نہ بھولنے والا احساس ہے۔دونوں بڑے فنکار تھے اورعظیم انسان بھی تھے۔معین اختر کی یادیں یہیں پہ ختم نہیں ہوتیں۔ایک دن مستنصر حسین تارڑ سے میری بات ہوئی،وہ خود ایک بڑی ادبی شخصیت ہیں۔ میری اس کتاب میں ان کاانٹرویو بھی شامل تھا۔انھوںنے مجھے بتایا''میں تمہیں بتانا چاہتاتھا،تم نے جو میرا انٹرویو کیا تھا،معین نے جب تمہاری کتاب میں میرا وہ انٹرویو پڑھا،تو مجھے فون کیااورکہنے لگا،آپ نے اس انٹرویو میں یہ کیوں کہا کہ اب میں طویل ناول نہیں لکھوں گا،ابھی آپ کو بہت لکھنا ہے،اپنے آپ کو بوڑھا مت تصورکرو،ابھی تمہیں جینا ہے۔تارڑ کہنے لگے،مگر معین خود کچھ عرصے میں ہم سے بچھڑ گیا۔''
یہ یادگارانٹرویو معین اختر کی زندگی کاآخری انٹرویو ثابت ہوا،کیونکہ اس عرصے میں ان کا اورکوئی انٹرویو شایع یا نشر نہیں ہوا۔میں نے ان سے ایک سوال پوچھا، معاشرے میں جو ڈراما ہورہا ہے ، اس پر کبھی دکھ نہیں ہوا کیونکہ آپ تو اسی معاشرے کے کرداروں کی نمایندگی اپنے پروگرامز میں کرتے ہیں ؟اس کاجواب انھوں نے کچھ یوں دیا۔''بات یہ ہے ،ہم اب ایک قوم نہیں رہے ، گروہوں میں بٹ چکے ہیں ،صوبائیت میں تقسیم ہوگئے ہیں ،ہر آدمی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے ،پاکستان کہاں ہے ؟ آنے والا وقت بہت اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔جس سڑک سے آنا چاہیے ،وہاں سے ہم جا رہے ہوتے ہیں اور جس سڑک سے جانا ہوتا ہے ،اس کی طرف سے آرہے ہوتے ہیں۔بے ایمانی ،رشوت،جھوٹ ،دھوکہ ،ڈکیتی ،اغوا ،قتل ہورہے ہیں ،ہم کدھر جارہے ہیں ؟سیاست پر تو چینلز پروگرام کرلیتے ہیں، مگر عوام کی ضرورتوں اور تکالیف پر کوئی مذاکرہ یا پروگرام ہوا؟بات صرف اتنی ہے ،ہر آدمی اپنے اپنے ایجنڈے پر کام کررہا ہے ،جب تک ہم سادگی اختیار نہیں کریں گے اور ایماندار نہیں ہونگے، کچھ نہیں ہو سکتا '' معین اختر نے ''روزی'' کا کردار کر کے بہت شہرت حاصل کی۔اس حوالے سے میں اس ڈرامے کی ہدایت کارہ ساحرہ کاظمی سے جب کبھی بات کرتاہوں،تو وہ بھی اس وقت کو بہت یاد کرتی ہیں۔
معین اختر سے اس ڈرامے کے حوالے سے ایک سوال پوچھا ،تو انھوں نے زوردار قہقہہ لگایا اور پھر جواب دیا ''ساحرہ کاظمی سے بات چیت میں یہ خیال ذہن میں آیا ،میں نے اُن کو بتایا ،انھوں نے اس کو عمران اسلم سے لکھوا بھی لیا۔جب ہم اس کھیل کی شوٹنگ کرتے تھے ،تو روزی کے میک اپ میں دوگھنٹے لگتے تھے۔ مجھے ان دنوں پیٹ کے درد کی شکایت تھی ،اس لیے میری کوشش ہوتی تھی کہ اگر میں گھر کے قریب ہوں ،تو کھانا گھر جاکر کھاؤں ،اس لیے ایک دن جب شوٹنگ کے دوران لنچ بریک ہوا،تو میں دوپہر کا کھانا کھانے گھر آگیا۔ لنچ بریک کے بعد بھی روزی کے سین تھے اس لیے میں اسی گیٹ اپ میں گھر آیا ،میں نے ٹی وی سے گھر تک جن نظروں کا سامنا کیا ،اس سے مجھے اتنی شرم آئی اور یہ احساس ہوا، خواتین کو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے کسی نے بھی نہیں پہچانا ہوگا ،میں میک اپ میں ہی تھا اور لوگ مجھے صرف ایک عورت ہونے کے ناتے اس طرح دیکھ رہے تھے ۔یہ قابل ِ شرم بات تھی ۔اس کردار کو کرکے مجھے احساس ہوا کہ عورت ہونا کتنا مشکل کام ہے۔''
معین اختر اور سفیراللہ صدیقی(لہری )چلے گئے، ہمیں اداس کرگئے۔ہم اورآپ انھیں یاد کرتے رہیں گے، کیونکہ بڑے لوگ اپنے فن کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں۔ پاکستانی اداکاری کی تاریخ میں معین اختر کانام بلاشبہ سنہری حروف میں لکھاجائے گا،کیونکہ ان کے نبھائے ہوئے کرداروں سے ہی ہمارامعاشرہ بناہے۔معین اختر کے اہل خانہ کو چاہیے کہ ان کی سوانح عمری کو جتنی جلد ممکن ہو، چھپوادیں تاکہ معین اختر کے چاہنے والے ان کی دیگر جہتوں اور زندگی کی جدوجہد سے واقف ہوسکیں۔