نئی صورتحال نیا ماحول
پاکستان کو اس وقت سیاسی مفاہمت کی شدید ضرورت ہے، لیکن کیا عدلیہ کو یہ سیاسی مفاہمت کروانی چاہیے
پاکستان میں آج کل عدلیہ کا سیاسی کردار زیربحث ہے۔ عدلیہ سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کے لیے زور ڈال رہی ہے۔
پاکستان کو اس وقت سیاسی مفاہمت کی شدید ضرورت ہے، لیکن کیا عدلیہ کو یہ سیاسی مفاہمت کروانی چاہیے۔ اگر ہم ملٹری اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے خلاف ہیں تو پھر ہم جوڈیشل اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے بھی خلاف ہیں۔
اگر آرمی چیف کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ریفری کا کردار نہیں ادا کرنا چاہیے تو چیف جسٹس پاکستان کو سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی ریفری کا کردار بھی ادا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر فوج کا سیاسی کردار آئین کی خلاف ورزی ہے تو عدلیہ بھی ایسا کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی ہے۔
اگر جنرلز کی سیاسی مداخلت غلط ہے تو ججز کی سیاسی مداخلت بھی غلط ہوگی۔ اگر دو تین جنرلز کو ملک کا سیاسی ایجنڈا چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تو چند ججز کو بھی ملک کا سیاسی ایجنڈا چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جیسے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے ان کے نام سیاسی میدان میں آتے ہیں' ایسے ہی جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے ان کے نام بھی سیاسی جلسوں میں لیے جارہے ہیں۔
جیسے 2018کے بعد تین جنرلز کی بات عام تھی اب تین ججز کی بات عام ہو رہی ہے۔ یہ تقابلی جائزہ اب سب کر رہے ہیں۔ میں اس کے درست یا غلط ہونے پر بات نہیں کر رہا لیکن اس کا موجود ہونا ایک حقیقت ہے ۔
سیاسی مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام۔ لیکن یہ مذاکرات کسی بھی ادارے کے چند افراد کے ڈنڈے پر نہیں ہونے چاہیے۔ ڈنڈے کے زور پر ہونے والے مذاکرات سے نہ تو جمہوریت مضبوط ہوگی اور نہ ہی مسائل حل ہوں گے ۔ پھر ڈنڈے کے جھکاؤ کی بات ہوگی۔ ریفری کی بات ہوگی۔ ترازو کے پلڑے برابر ہونے کی بات ہوگی۔
کسی کے مظلوم بننے اور کسی کے ظالم بننے کی بات ہوگی۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان آزادانہ ماحول میں مذاکرات بنیادی شرط ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ آج جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ کتنے آزادانہ ماحول میں ہیں اور کتنے دباؤ میں ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ یہ دباؤ میں ہیں۔ ہتھوڑا سر پر رکھ کر کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات کیے جائیں۔ اگر مذاکرات نہ کیے تو یہ ہو جائے گا نہ کیے تو ایسے ہو جائے گا۔ اس لیے خوف کے سائے میں سیاسی مذاکرات کی بازگشت جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں۔
آج کل آڈیوز کا دور ہے، لیکن ریٹائرڈ ججز کے حوالے سے آڈیوز بھی ایک سوال ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سیاسی ہمدردیاں بطور دلیل استعمال ہو رہی ہیں۔ ججز کے خاندان کی آڈیوز بھی سیاسی کردار کی دلیل دے رہی ہیں۔ اس بحث کو دلیل مل رہی ہے۔
یہ آڈیوز سیاسی کردار کی بحث کو واضح کر رہی ہیں۔ میں آڈیوز کے لیک ہونے کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ لیکن یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہی ہیں۔ جب ماضی میں ان آڈیوز سے سیاسی فوائد حاصل کیے گئے ہیں تو آج ان سے سیاسی فوائد حاصل کرنا کیوں جائز نہیں اگر مریم نواز کی آڈیو جائز تھی تو ثاقب نثار اور ان کے اہل خانہ کی آڈیو جائز کیوں نہیں ہے، اگر جسٹس قیوم کی آڈیو پر انھیں استعفیٰ دینا پڑا تھا تو آج کے ججز پر یہ اصول کیوں نہیں۔
اگر سینیٹ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کی ووٹ کی خریدو فروخت جائز ہے تو ثاقب نثار کے بیٹے کی الیکشن ٹکٹ پر آڈیو جائز کیوں نہیں ہے۔ اگر عمران خان اس آڈیو پر یوسف رضا گیلانی کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں درخواست دیتے ہیں۔ مقدمہ چلتا ہے تو پھر ثاقب نثار کے بیٹے کے خلاف ایکشن کیوں نہیں ہو سکتا۔
اگر کل پاک فوج میں اختلافات کی باتیں کی جاتی تھیں تو آج عدلیہ میں اختلافات کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اگر فوجی قیادت میں اختلافات کی وجہ سے سیاسی ہیجان پیدا ہوتا ہے تو عدلیہ میں اختلافات کی وجہ سے بھی سیاسی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ اگر جنرل کی سیاسی پالیسی پر بات ہوتی ہے تو جج کی سیاسی پالیسی پر بھی بات ہو رہی ہے۔ اب یہ طے کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے۔ کس کی سیاسی طاقت زیادہ ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو اپنی بات منوانے اور ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے عدلیہ کا تعاون درکار رہتا ہے۔ اگر پیچھے سے بیٹھ کر چیزیں کنٹرول کرنی ہیں تو عدلیہ کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ اور دیکھا جائے تو ماضی میں عدلیہ نے یہ مدد آمریت کو دی ہے لیکن آج یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا جوڈیشل اسٹبلشمنٹ تنہا کسی مدد کے بغیر بھی اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتی ہے۔
کیا چیف جسٹس روایتی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ طاقتور بن گئے ہیں۔ بلاشبہ چیف جسٹس کے عہدے میں بے پناہ اختیارات ہیں۔ جب کہ روایتی اسٹیبلشمنٹ براہ راست کوئی حکم نہیں دے سکتی تاوقتیکہ وہ آئین معطل نہ کریں اور خود اقتدار نہ سنبھالیں' ان کے پاس کوئی براہ راست اختیار نہیں ہوتا۔ ہائبرڈ نظام کو چلانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو دیگر اداروں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ جب کہ عدلیہ اور بالخصوص چیف جسٹس کے ہر حکم کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔
عدلیہ کا سیاسی کردار کوئی نئی بات نہیں لیکن روایتی اسٹبلشمنٹ کا غیر سیاسی کردار نئی بات ہے' یہ نئی جدت ہے۔ اس کی پہلے مثال نہیں ہے۔ پوری قوم کے لیے یہ نئی صورتحال ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ نئی صورتحال ہے۔ شاید وہ فوجی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کرنے کا ہنر تو سیکھ گئے ہیں۔
لیکن جوڈیشل اسٹبلشمنٹ سے کیسے ڈیل کی جائے یہ ابھی طے نہیں ہے۔ آئین کے اندر رہتے ہوئے غیر آئینی احکامات کو کیسے مانا جائے۔ جب عدلیہ آئین لکھنا شروع کردے تو کیا کیا جائے۔ جب آئین موجود بھی ہو اور نہ بھی ہو تو کیا کیا جائے۔ کیا عدلیہ اور عوام کا آئین الگ الگ ہے۔ یہ نئی صورتحال نیا ماحول بنا رہی ہے۔ جو سب کے لیے پریشان کن ہے۔