مذاکرات کی ناکامی کے بعد کیا ہوگا
تحریک انصا ف فوری انتخابات کے لیے بضد رہی جب کہ حکومت نے وقت پر انتخابات کے لیے زور لگایا
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ملک میں انتخابات کے لیے مذاکرات حسب توقع ناکام ہو گئے ہیں۔ فریقین انتخابات کی تاریخ پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔
تحریک انصا ف فوری انتخابات کے لیے بضد رہی جب کہ حکومت نے وقت پر انتخابات کے لیے زور لگایا، دونوں نے لچک نہیں دکھائی، دونوں ہی اپنے اپنے موقف پر قائم رہے، اس لیے کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ میں دونوں میں سے کسی کو بھی ذمے دار نہیں ٹھہر انا چاہتا۔ یہ کام قارئین اپنی اپنی سیاسی سوچ کے مطابق بہتر کر سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد کیا ہوگا؟ تحریک انصاف نے اعلان کیا ہے کہ وہ مذاکرات کی ناکامی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔
ان کے اس علان سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مذاکرات سپریم کورٹ کے دباؤ کی وجہ سے ہو رہے تھے، اسی لیے حکمران اتحاد سے ایسی آوازیں بھی سامنے آرہی تھیں کہ مذاکرات کے پیچھے عدلیہ کا ہتھوڑا ہے، ہتھوڑے کی موجودگی میں کوئی مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر سپریم کورٹ درمیان میں نہ ہوتی تو مذاکرات کے کامیاب ہونے کے زیادہ امکانات تھے۔
تحریک انصاف کے ذہن میں تھا کہ اگر ان کی بات نہیں مانی گئی تو سپریم کورٹ ان کی بات منوا لے گی، لہٰذا حکمران اتحا د کمزور پوزیشن میں ہے۔ اگر تحریک انصاف کے ذہن میں سپریم کورٹ کا آپشن نہ ہوتا تو اکتوبر میں انتخابات پر معاہدہ ممکن تھا۔
شاید اسی لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں کہا کہ پنچایت لگانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، ہم سپریم کورٹ کے پنچایتی کردار کو نہیں مانتے ۔ مولانا فضل الرحمٰن پہلے دن سے ان مذاکرات کے خلاف تھے کیونکہ ان کی رائے میں سپر یم کورٹ کے دباؤ میں ایسے مذاکرات ہونے ہی نہیں چاہیے۔ بہر حال دونوں فریقین اکٹھے بیٹھے لیکن بات بن نہ سکی۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ پنجاب میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کا 14مئی کا حکم برقرار ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس حکم نے ہی مذاکرات کی ناکامی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اگر سپریم کورٹ اس تاریخ کو ختم کر کے نئی تاریخ کے لیے مذاکرات کا کہتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ پھر تحریک انصاف لچک دکھا سکتی تھی۔ لیکن 14مئی کے حکم کو برقرار رکھنے سے انھیں ایک برتری حاصل تھی جو مذاکرات میں ناکامی کی بنیادی وجہ بن گئی۔
سوال یہ ہے کہ اب یہ برتری تحریک انصاف کو کیا دے سکتی ہے؟ یہ اب سپریم کورٹ اور تحریک انصاف دونوں کا امتحان ہے۔ 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کا انعقاد اب سپریم کورٹ کا امتحان بن گیا۔ تحریک انصاف نے لچک نہ دکھا کر میری رائے میں سپریم کورٹ کو انتہائی کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔
سیاست میں آپ کو اپنے دوستوں ، ہمدردوں یا اداروں سے بڑے امتحان نہیں لینے چاہیے۔ اس لیے سپریم کورٹ کو اتنے بڑے امتحان میں ڈال کر تحریک انصاف نے کوئی عدلیہ دوستی کا کردار ادا نہیں کیا۔ 8اکتوبر پر مان کر تحریک انصاف جہاں حکمران اتحاد سے انتخاب کی تاریخ لے سکتی تھی، وہاں عدلیہ کو بھی اس محاذ آرائی میں محفوظ راستہ مل سکتا تھا۔
اب جب مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں تو سپریم کورٹ کیا کر سکتی ہے؟ ایک راستہ تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ14مئی کے لیے بضد رہے اور اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے آگے بڑھے۔ سپریم کورٹ کا یہ تین رکنی بنچ کتنا آگے جا سکتا ہے، یہ بھی ایک سوال ہے۔ پیسے نہ دینے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے لیکن کس کے خلاف؟
ایک رائے یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف تنازعہ کا حل چاہتی ہی نہیں تھی۔ اسی لیے انھوں نے لچک نہیں دکھائی۔ وہ حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں۔ حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی تحریک انصاف کے سیاسی فائدے میں ہے، اسی لیے تحریک انصاف اس کو ختم نہیں کرنا چاہتی۔ تحریک انصاف کے لیے یہ بہترین سیاست ہوگی کہ وزیر اعظم شہباز شریف توہین عدالت میں نا اہل جائیں۔
اس سے بڑا سیاسی اسکوپ کیا ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف اپنی مخالف جماعت کے وزیر اعظم کی نا اہلی کے ساتھ انتخابات میں جائے۔ تحریک انصا ف کو 2018میں بھی نواز شریف کی نا اہلی کا بہت فائدہ ہوا تھا۔ اب بھی شہباز شریف کی نا اہلی ان کے لیے انتخابات کا بہترین تحفہ ہو سکتا ہے۔ اگر عدلیہ مقررہ تاریخ پر انتخابات نہیں کراسکتی تو کم از کم ان کے مخالف کو نا اہل ہی کردے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے۔
اس دفعہ حکومت بھی محفوظ کھیل کھیل رہی ہے۔ پیسے دینے سے انکار تو پارلیمان نے کیا ہے۔ پیسوں کے انکار کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف دوبارہ اعتماد کا ووٹ لے چکے ہیں۔پارلیمان چار دفعہ پیسے دینے سے انکار کر چکی ہے۔ جب جب سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے تب تب معاملہ پارلیمان میں لیجایا گیا ہے اور پارلیمان نے انکار کیا ہے۔ اس لیے حکومت کا موقف ہے کہ ہم تو سپریم کورٹ کے حکم پر پیسے دینے کے لیے تیار تھے، پارلیمان تیار نہیں ہے۔
اب یہاں سپریم کورٹ کے پاس کیا آپشن ہیں؟ کیا سپریم کورٹ یہ حکم کر سکتی ہے کہ پیسے پارلیمان کی منظوری کے بغیر دے دیے جائیں؟ یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ آئین کی ایک شق پر عمل کرنے کے لیے کیا آئین کی دوسری شق کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہے۔ اس لیے معاملہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ عدلیہ کے لیے حکومت کو دبانا ہمیشہ آسان رہا ہے۔ حکومت کو عدلیہ کے ہرقسم کے فیصلے ماننے پر بھی مجبور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پارلیمان کو ایسے اقدمات کو ماننے پر مجبور کیسے کیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ پارلیمان کو یہ حکم کیسے دے سکتی ہے کہ دو دن میں پیسے منظور کر کے سپریم کورٹ کو رپورٹ کرے، ایسا حکم حکومت کو تو دیا جا سکتا ہے لیکن پارلیمان کو نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اگر توہین عدالت حکومت پر نہیں لگ سکتی تو تحریک انصاف یہ کھیل ہار جائے گی۔ اگر عدلیہ 14مئی کے حکم پر عملدارآمد کرانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو بھی تحریک انصاف ہار جائے گی۔ جیت کا تمغہ حکمران اتحاد کو مل جائے گا۔
عمران خان ہار گیا۔ سیاست میں یہ بہت اہم ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ کو کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ مفاہمت بہترین راستہ تھا۔ جو ناکام ہوگیا۔ مزیدکتنی محاذ آرائی ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس اور ان کے ساتھی جج کتنا آگے جا سکتے ہیں۔ فل کورٹ وہ بنا نہیں سکتے۔ تین رکنی بنچ کتنا آگے جا سکتا ہے۔ کیا کوئی انتہائی اقدام ممکن ہے۔ مجھے مشکل نظر آتا ہے۔ اسی لیے عدالت مفاہمت کے لیے ٹائم دے رہی تھی۔
اب سپریم کورٹ نے طے کرنا ہے کہ اس نے آگے کیا کرنا ہے۔ اگر آج توہین عدالت کی کارروائی شروع کر بھی دی جائے تب بھی 14مئی کو انتخاب ممکن نہیں۔ شاید یہ تحریک انصاف کو پتہ ہے۔ وہ دوسرا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔
اگر محاذ آرائی بڑھ گئی تو انتخابات مزید آگے جا سکتے ہیں۔ انتخابات کا انعقاد لیول پلئینگ فیلڈ سے ہی ممکن ہے۔ ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہوںگے تو انتخاب ممکن ہوںگے۔ محاذ آرائی میں ممکن نہیں، اس کا شاید تحریک انصاف کو اندازہ نہیں۔