خوف کو ختم کون کرے گا

ہمارے ہاں بہت کم لوگ سچ لکھنے اور ماننے کے لیے تیار ہیں۔ چلیے جانے دیجیے


[email protected]

معاشرے پر تنقیدی نظر ڈالیے، ہر شعبہ پر غور وفکر کیجیے۔ لوگوں کے عمومی اور ذاتی رویوں کی طرف دیکھیے، آپ کو ایک عنصر سب میں مشترک نظر آئے گا، ہم ڈرے ہوئے لوگ ہیں، کھل کر بات نہیں کر سکتے۔

یہ خوف پورے معاشرے کے اندر سرایت کر چکاہے۔ طالب علم ویسے اسے فوبیا کانام دیتا ہے مگر پڑھے لکھے لوگ اسے شدید عدم تحفظ کا نام بھی دیتے ہیں۔

اس ڈرکو ریاستی اور حکومتی سطح پر بڑھاوا دیا گیا ہے۔ عدم تحفظ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر شہری کو پتہ ہے کہ اگر کوئی ان ہونی ہو گئی تو اسے تحفظ یا انصاف دینے کے لیے کوئی ادارہ یا فورم موجود نہیں ہے۔ ریاستی نعروں اور حکومتی دعووں کی بات نہیں کررہا ، عرض کرنے کا مقصد صرف ایک ہے کہ ڈر' ناانصافی کی چھتر چھاؤں میں مزید گہرا ہوتا جاتا ہے۔

موجودہ حالات میں ہمارے پاس کوئی ایسا قائد یا ادارہ موجود نہیں جو عام آدمی کے حقوق کاتحفظ کر سکے ۔ ہاں! بلندبانگ نعرے اور جوشیلی تقاریر ہر دم موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قائداعظم کے بعد ہمارے پاس ایک بھی ایسا سیاسی قائد نہیں آیا جس پر عوام کا مکمل اعتماد ہو۔ یہ وہ المیہ ہے جو اب گہرے زخم میں تبدیل ہو گیا ہے۔

دنیامیں بہت کم اقوام کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ ان کے قائدین اپنی اقوام کو طاقتور اورمتمدن بنانے کے بجائے ایک منظم طریقے سے کمزور در کمزور کرتے رہے۔ پاکستان میں سلسلہ اب بھی' بلکہ آج بھی جاری ہے۔

سب سے نازک نکتہ کی طرف آتا ہوں۔ ہماری ہر سرکاری اور غیر سرکاری گفتگو ہمسایہ ملک کے متعلق ایک جملہ پر شروع ہوتی ہے اور کم و بیش اسی پر ختم ہو جاتی ہے۔

''ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے''۔ ہندو' مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ہمارے سیاست دان اور ''مہربان'' ہر بات بھارت دشمنی پر شروع کرتے ہیں اوران کی تمام کوشش یہی رہتی ہے ملک کے بائیس کروڑ شہری بھی ایسا ہی سوچیں اور کہیں۔اور ہم ہی وہ لوگ ہیں جو ریاست اور عوام کو بچا سکتے ہیں۔

یہ نکتہ نظر باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں پنپ رہا ہے اور اب توانادرخت بن چکاہے۔ اگر آپ برصغیر کی تاریخ کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو آپ کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کا الاؤ' 1857کے بعد سلگتا ہوا نظر آتا ہے۔ بہت کم لوگوںکو اس امر کاشعور ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف مسلمان اور ہندو' اکٹھے لڑے تھے۔

جہاں مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے جان کی بازی لگائی، وہاں ہندوؤں نے بھی سرفروشی کی داستانیں اپنے خون سے رقم کی تھیں، سکھ، جین اور اچھوت طبقے تک اس جہدوجہد آزادی کا حصہ تھے۔ اس نازک نکتہ کی تصدیق آپ تاریخ کی کسی بھی کتاب سے آسانی سے فرما سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو شاید پاکستان میں تسلیم کرنا مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

چلیئے۔ جنگ آزادی کو تھوڑی کے لیے رہنے دیجیے، مغل بادشاہوں کی فوج اور دربار میں ہندو اہم ترین منصب پر فائز تھے۔ آپ اکبر اعظم کوتھوڑی دیر کے لیے پس پشت ڈالدیجیے۔ اورنگ عالمگیر کے دربار اور فوج میں بے حساب ہندو موجود تھے بلکہ جن علاقوں پر آج پاکستان مشتمل ہے، یہاں کا گورنر راجہ جسونت سنگھ تھا، اس مقام پر ایک گزارش ضرور کروںگا، موجودہ انڈیا میں بی جے پی حکومت نے مسلمانوںکے خلاف حد درجہ ظلم ڈھائے ہیں اور آج بھی جاری ہیں۔

مگر کانگریس اور اس سے پہلے کی حکومتوں میں یہ شدت پسندی دیکھنے میں کافی کم ملتی ہے۔ موجودہ حالات دس پندرہ سال پرانی بات ہے۔ اس کے پہلے کے معاملات حد درجہ مختلف تھے۔

ہمارے ہاں بہت کم لوگ سچ لکھنے اور ماننے کے لیے تیار ہیں۔ چلیے جانے دیجیے۔ مگر ایک بات رقم کرنا چاہتا ہوں۔ نواز شریف واحد وزیراعظم تھا جس نے ہندوستان کی سخت ترین قیادت یعنی بی جے پی کو پاکستان کے حق میں نرم کیا۔ ہندوستان کا وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ایک وفد کے ساتھ' بس پر سوار ہو کر گرم جوشی سے پاکستان آیا۔ ذرا سوچیئے۔ کہ اس اہم ترین سفارتی کوشش کو ایک مذہبی سیاسی جماعت نے کس کے اشارے پر پرتشدد مظاہرے کرکے ناکام بنوایا، اس مذہبی سیاسی جماعت کی اس وقت کی قیادت کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا گیا۔

میاںنواز شریف کی اس بہترین سفارتی کوشش کونہ صرف خراب کیاگیا بلکہ اسے غدار قرار دینے کی کوشش کی گئی۔کارگل کا ایڈونچر کیوں کیا گیا اور کس نے کیا، آج ہم بالکل یہ سوال نہیں کر سکتے۔ وجہ صرف یہ اگر دونوں ہمسایہ ممالک کی دشمنی کم ہو گئی' تو اس بیانیہ کا کیا بنے گا جس سے اربوں ڈالر کی نظر نہ آنے والی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔

ہم سب محب وطن لوگ ہیں۔ لیکن قومی سلامتی کا خوف ہمارے ذہنوں میں اس طرح بٹھا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی دلیل پر بات کرے اور کہے کہ ہندوستان سے تعلقات میں بہتری آنی چاہیے تو اس کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے ۔ جس دن یہ ڈر کم ہو گا، پاکستان اور ہندوستان ' تلخیوں کے بغیر زندہ رہنا سیکھ لیں گے۔ ہم اقتصادی اور قومی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ کبھی نہیں ہو گا کیونکہ اس فوبیا کو بڑھانے میں کمائی در کمائی ہے، المیہ یہ ہے کہ اب دونوںطرف ایک جیسا حال ہے۔

اب ذرا ' اندرونی معاملات پر غور و فکر کیجیے۔ پاکستان' ایک زرعی ملک ہے لیکن پروپیگنڈا یہ کیاگیا کہ یہ تو غذائی بحران اور قحط کا شکار ہونے والا ہے۔ گندم درآمد کرنے پر بیان آنے لگے مگرزمینی حقائق یہ ہیں کہ گندم کی پیداوار اتنی بہتر ہوئی ہے کہ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ سرکار نے سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر عوام پر غذائی قلت کا خوف طاری کیا اور پھر پیسہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ دراصل عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے میں کچھ اہم لوگوں کی بھی کمائی ہے اور یہ آج نہیں ستر برس سے یہی سب کچھ جاری و ساری ہے۔ میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا۔ مگر یہ بہرحال کسی نہ کسی نے تو کرنی ہیں۔

موجودہ معاملات میں ذرا اداروں کی کارکردگی پر دلیل سے بات کیجیے۔ کیا سپریم کورٹ اور اس کے ماتحت عدالتیں' واقعی عا م لوگوں کوانصاف دینے میں کامیاب رہی ہیں۔ جواب مکمل نفی میں ہے۔ عدلیہ نہ لوگوں کو انصاف دے رہی ہے اور نہ ہی اپنی روش تبدیل کر نے کے لیے تیار ہے۔ سپریم کورٹ کے کسی بھی چیف جسٹس نے ایسے انقلابی اقدام نہیں اٹھائے جس سے لوگوں کو واقعی انصاف کی بروقت دستیابی ممکن ہو سکے۔ بالکل یہی معاملہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا بھی ہے۔

یہ حد درجہ طاقتور سیاسی ادارے ہیں۔ مگر انھوںنے کبھی اپنی طاقت' عام آدمی کی بھلائی کے لیے مختص نہیں کی۔ اسمبلی میں کون سی ایسی طاقتور قانون سازی ہوئی ہے جس سے ریاست کی بھی جوابدہی ممکن ہوسکے اورعوام کی قسمت بدل جائے۔ قومی اسمبلی جو تقریباً آدھی خالی پڑی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کے لیے قانون سازی کر دیتی ہے، اس میں عام آدمی کا کیا بھلا ہو گا۔ دونوں ادارے ہی ہمیشہ سے عوام کے مفادات کو تحفظ دینے میں ناکام رہے ہیں۔

اب ان کے مابین جنگ میں جو بھی نتیجہ آئے ، عوام کی سطح پر اس میں کسی قسم کی کوئی خیر کی خبر نہیں۔ لکھ چکا ہوں کہ یہ اقتدار کی سازشی جنگ ہے۔

جس سے کم از کم عام لوگوںکی بنیادی تکالیف میںکوئی کمی نہیںہو گی۔ عدلیہ' پارلیمنٹ کو بھی خیر باد فرمائیے۔ یہ پٹوار خانے اورتھانے عام لوگوں کے کام کر رہے ہیں؟ نوے فیصد لوگ' واردات کے بعد تھانے میں رپورٹ درج نہیں کراتے۔ کیا کسی بھی حکمران نے پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے کہ وہ واقعی لوگوں کی محافظ بن جائے۔ ریونیو کے مختلف اداروں کا بھی یہی حال ہے۔ بورڈ آف ریونیو میں 1947کے زمین کے کیس' آج بھی حل طلب پڑے ہیں۔ زمین کے جعلی کاغذات بنوا بنوا کر ہر آدمی کو جیتے جی برباد کیا گیا ہے ۔

ریونیو افسران تو دور کی بات کسی پٹواری سے کوئی باز پرس نہیں ہو سکتی ہے۔ سرکاری ادارے ہاوسنگ سیکٹر میں آ کر کاروبار کررہے ہیں لہٰذا تمام لوگ' سرکاری تحفظ کی وجہ اپنے گھر اور سرمایہ کاری ان پراجیکٹس میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وجہ صرف فراڈ کے خوف کا خاتمہ ہے۔

ہمارے ملک میں جب تک خوف کی سرکاری آبیاری ہوتی رہے گی ' یہ ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی پاتال میں مزید غرق ہوتا رہے گا۔ مشکل یہ ہے کہ ڈر کودورکرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں