سرکار کی راہگزر اور ہمارااجتماعی ڈیفالٹ
کتاب کے ابواب اس قدر نوع بہ نوع ہیں کہ ریویو اِن کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے
ہمارے ہاں کئی سابق جرنیل اور بیوروکریٹ انگریزی اور اُردو اخبارات میں تجزیے اور کالم لکھتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا میں بھی ایسے کئی ناموں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
ان سابقہ سینئر سرکاری افسروں کی تحریر و تقریر میں اُن کے تجربات کی جھلک مشعلِ راہ بھی بنتی ہے ۔ جناب ظفر محمودکا شمار بھی اُن سینئر ترین سابقہ بیوروکریٹوں میںہوتا ہے جو کلیدی عہدوں پر فائز رہے اور سنجیدگی، متانت اور دیانت کے ساتھ اپنے متعینہ سرکاری فرائض ادا کرتے رہے ۔ ظفر محمود صاحب نے اپنی پوری سرکاری نوکری میں اپنے دامن کو کسی داغ دھبے سے آلودہ نہیں ہونے دیا ۔
وہ ممتاز ترین سرکاری عہدوں سے سبکدوش ہُوئے تو اپنے خدا اور ضمیر کے سامنے سرخرو تھے ۔ وفاقی سیکریٹری بھی رہے، پنجاب پبلک سروس کمیشن کے سربراہ بھی بنے اور واپڈا کے طاقتور چیئر مین بھی ہُوئے، لیکن آج تک کوئی اُن پر انگشت نمائی نہیں کر سکا ۔
جناب ظفر محمود جبلی طور پر لکھاری ہیں ۔ دورانِ ملازمت حکمِ حاکم کے تحت کچھ عرصہ کے لیے او ایس ڈی بنا ڈالے گئے تو ایک دلکشا اور منفرد ناول (23دن) لکھا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچادی ۔
ملازمت کے آخری ایام میں معرکہ آرا اور منفرد موضوعات پر محیط افسانوں کا مجموعہ( دائروں کے درمیاں) شائع کیا اور ادبی نقادوں کی تحسین پائی ۔ ریٹائرمنٹ اور پنشن پائی تو ایک اُردو معاصر میں کالم نگاری کا آغاز کیا ۔ اُن کے کالموں میں اُن کی سرکاری ملازمت کے متنوع تجربات کا آہنگ سنائی اور گہرے مشاہدات دکھائی دیتے ہیں ۔یہ مشاہدات، حوادث بن کر زیادہ تر تلخ اور شیریں کم کم ہیں۔
اب پونے چار سو صفحات پر مشتمل اُن کی تازہ ترین کتاب ( سرکار کی رہ گزر سے ) چھپ کر ہمارے ہاتھوں تک پہنچی ہے تو یہی تجربات و مشاہدات اوررنگا رنگ حوادث کی عجب دُنیا کتاب کے صفحات پر اپنے رنگ بکھیر رہی ہے۔آٹھ صفحات کو محیط مصنف کا پیش لفظ ( گزارش) کتاب کا جوہر ہے ۔
کتاب کے ابواب اس قدر نوع بہ نوع ہیں کہ ریویو اِن کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ مصنف نے کتاب کے ایک باب میں بیوروکریٹ کھوسہ برادران کی خاصی تعریف کی ہے ، لیکن محترمہ مریم نواز شریف نے آجکل کھوسہ بھائیوں میں سے ایک کو جس طرح مشقِ ستم بنا رکھا ہے ، اِس نے یہ چہرہ گہنا دیا ہے۔
پندرہ سو روپے قیمت کی حامل ز یر نظر کتاب کا پورا عنوان یوں ہے: '' سرکار کی رہ گزر سے ...ایک بیوروکریٹ کے توشہ خانے سے چند یادیں اور تجربے۔'' عجب '' حسین '' اتفاق ہے کہ جس وقت مجھے یہ کتاب موصول ہُوئی ، پاکستان کی ساری فضائیں توشہ خانہ اسکینڈل کے انکشافات اور تفصیلات سے گونج رہی تھیں۔
اساطیری شہرت کے حامل ڈائجسٹ ( سب رنگ) کے اساطیری مدیر جناب شکیل عادل زادہ اپنے جریدے میں افسانوں کی تعارفی سطور یا انٹروز میں یہ اصطلاح ( توشہ خانہ) بکثرت استعمال کیا کرتے تھے۔
مصنف ظفر محمود صاحب نے اپنی کتاب ( سرکار کی رہ گزر سے) کا انتساب یوں لکھا ہے '' پاکستان کے بے بس عوام کے نام ، جو دعا گو ہیں کہ ہمارے آئینی اداروں کے سربراہ دستور میں متعین حدود کا احترام کریں۔''انتساب کے اِنہی الفاظ سے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مصنف کا قلم اور ذہن کن آدرشوں کے حصار میں ہے ۔ سعادت حسن منٹو کے تتبع میں ظفر محمود کے پانچ خط ( چچا سام کے نام )ایک دل جلے مگر صابر الذہن پاکستانی کی آرزُوہے۔
ظفر محمود چونکہ خود بھی کرکٹ کے بے حد شوقین ہیں، اس لیے کتاب کے چند ابواب میں ہمیں اُن کی کرکٹ اور کرکٹروں سے دلچسپیوں کا احوال بھی ملتا ہے۔ مصنف نے پی ٹی آئی کے ایک لیڈر اور سابق وفاقی وزیر، شفقت محمود، کی قابلیتوں کی تحسین کرتے ہُوئے اُمید باندھی ہے کہ شفقت صاحب اپنے لیڈر، جناب عمران خان کو معیشت سنبھالنے کی طرف مائل اور قائل کریں گے لیکن مصنف کی اپنے دوست سے وابستہ جملہ اُمیدیں پوری نہیں ہو سکیں۔ شفقت محمود نمک کی کان میں پہنچ کر خود بھی نمک بن چکے ہیں۔
مصنف نے بعض مقامات پر ہماری سابقہ عسکری قیادت کے سیاست میں دخیل ہونے پر محتاط الفاظ میں مہذبانہ تنقید بھی کی ہے جو دراصل ظفر محمود کی شخصیت کا خاصہ بھی ہے۔کتاب لیجنڈ اداکار ، قوی خان، کے ایک کردار پر ختم ہوتی ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ اِنہی ایام میں قوی خان کی زندگی کا بھی آخری باب رقم ہُوا ہے۔ عجب اتفاق ہے !
وطنِ عزیز کے موجودہ بیزار کن ماحول میں چند روز قبل مجھے لاہور(ٹمپل روڈ)کے ایک معروف پبلشر ( نگارشات) کی جانب سے نئی کتا ب '' دیوالیہ پاکستان؟...ریاست ، سیاست اور سماج کے دیوالیہ پن کی داستان'' بذریعہ ڈاک ملی ہے ۔
یہ کتاب برادرم جناب مجاہد حسین نے لکھی ہے۔ اب جو اِس کی ورق گردانی کی تو یہ مقناطیس کی مانند میرے قلب و ذہن سے چپک گئی۔ ڈھائی سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب دو دن میں ختم کر ڈالی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ''دیوالیہ پاکستان؟''نامی یہ تصنیف پاکستان کو لاحق تازہ ترین سنگین اور مہلک سیاسی، سماجی اور معاشی عوارض کی دستاویزی نشاندہی ہے تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا۔
مجاہد حسین چونکہ خود بھی ایک عامل ، تحقیق مزاج اور ''آوارہ گرد'' صحافی ہیں ، اس لیے اُن کی زیر نظر کتاب میں ، فطری طور پر، ایک کمٹڈ رپورٹر کے اوصاف شامل ہیں۔
کہا جاسکتا ہے کہ ''دیوالیہ پاکستان؟'' نامی زیر تبصرہ کتاب پاکستان کے جملہ کرنٹ پولیٹیکل افیئرزکا احاطہ کرتی ہے۔ذرا اِس کتاب کے ابواب کے عنوانات پر نظر ڈالیے: ابلاغیاتی دیوالیہ پن، سابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ پر الزامات کی کہانی، جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خاندان پر الزامات کی کہانی، نواز شریف خاندان پر الزامات کی کہانی، فوجی ڈکٹیٹروںاور سویلین حکمرانوں کا تاریخی دیوالیہ پن، سیاسی و اخلاقی دیوالیہ پن کا اگلا مرحلہ ، احتسابی دیوالیہ پن کی ایک مثال ۔ وغیرہ ۔
مجاہد حسین نے یہ کتاب دس برس کے طویل وقفے کے بعد لکھی ہے اور خوب دھماکہ دار لکھی ہے ۔ نشترِ تحقیق سے لَیس ہو کر ۔ دیانت ، غیر جانبداری اور جرأت و استقامت کے ساتھ۔ اِس سے قبل مجاہد حسین کئی دلچسپ اور سیاسی موضوعات پر درجن بھر کتابوں کے ساتھ ''پنجابی طالبان'' نامی تہلکہ خیز اور منفرد( اور پُر خطر) موضوع پر کتاب بھی لکھ کر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
زیر نظر کتاب کا انتساب وطنِ عزیز کے معروف و عالمی شہرت یافتہ اخبار نویس اور کئی کتابوں کے مصنف جناب خالد احمد کے نام لکھا گیا ہے۔
یوں مجاہد حسین نے اپنے سابقہ مدیر، محسن اور اُستاد گرامی سے اپنی بے لاگ اور بے اَنت محبت کا حق بھی ادا کر دیا ہے۔ مَیں نے یہ کتاب محنت اور محبت سے پڑھی ہے اور کہہ سکتا ہُوں کہ '' دیوالیہ پاکستان؟'' نامی یہ کتاب دراصل ہمارے اجتماعی ڈیفالٹ کی ایک ایسی المناک کتھا ہے جس کے لفظ لفظ سے احساسِ زیاں کا خون ٹپک رہا ہے ۔
آٹھ سو روپے قیمت کی حامل اِس کتاب کا 10صفحاتی دیباچہ در حقیقت ایک نوحہ ہے۔ مجاہد حسین دیباچے میں لکھتے ہیں : '' پاکستانی ریاست مہم جُو طاقتور افراد کے ہاتھوں اُدھڑ رہی ہے۔'' درست تجزیہ کیا ہے۔ ریاست اُدھڑ ہی نہیں ، اُجڑ بھی رہی ہے ۔