تاریخ سے کچھ سیکھیے
انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش سے ابھرتی ایک خبر نے لوگوں کو چونکا دیا
تاریخ میں واضح درج ہے کہ بغداد دنیائے اسلام کا مرکز تھا۔ تاتاریوں نے جہاں اسلامی تاریخ میں اپنے خون آشام پنجے گاڑے ہیں، وہیں تاریخ نے عجب انداز سے کروٹ لی۔ یہ 654 ہجری کا واقعہ ہے جب تولی خان کی وفات ہوئی اور اس کا بیٹا تخت پر بیٹھا، اس نے اپنے بھائی ہلاکو خان کو اسلامی دنیا کی تسخیر پر مامور کیا۔
اس دور میں بغداد کے کچھ وطن دشمن امراء نے بھی اسے اپنے ملک پر حملے کی دعوت دی تھی، اندرونی جھگڑے انھیں دنیا بھر کی دہکتی آگ سے زیادہ محسوس ہوئے اور شاید انھوں نے اپنے ملک کو اسی آگ میں بھسم کرنے کا سوچ لیا تھا اور پھر ہوا بھی یوں۔ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ ہم بار بار غلطیاں کرتے ہیں۔ آج کل ایک موضوع عام لوگوں کے درمیان ابھر رہا ہے کہ ہم اپنی اسلامی تاریخ کو کیوں نہیں پڑھتے؟ کیوں اس سے کچھ نہیں سیکھتے؟
ہم مسلمان، پاکستانی ابھی تک اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ ہمارے پاس مذہب اسلام ہے ابھی نعرہ تکبیر لگائیں گے اور بس سب کچھ ہمارا۔ بہت معذرت کے ساتھ رب العزت ہمارے اندر ابھرنے والے سارے سازشی پلانوں سے واقف ہے، ہم دل میں ایک چور دروازہ رکھتے ہیں کہ اس دروازے کے اس پار ساری عداوتیں، حسد، مکر فریب، جھوٹ کی فائلیں درج ہیں جنھیں وقتاً فوقتاً ضرورت کے تحت نکالتے رہیں گے صرف یہی نہیں ہمیں اس بات پر بھی افسوس ہوتا رہتا ہے کہ ہم پاکستان میں کیوں بس رہے ہیں۔ ہائے! انڈیا کس قدر ترقی کر رہا ہے اور ہم ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں رہ رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی ڈھیروں حسرتیں، آہیں اور سنہرے خواب۔
ہم ناشکرے ہیں، مانتے ہیں کہ ہمارے ہاں طبقات کا فرق، طاقتوں کا زور، اداروں کی تلخیاں بھی ہیں لیکن کیا ہم کبھی انڈیا میں بستے ان کروڑوں مسلمانوں کے حقائق سے بھی واقف ہوئے، جن کی تکلیف دہ داستانیں سن کر، دیکھ کر ہم ایک آزاد ریاست میں رہنے کا شکر ادا کرتے ہیں؟
انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش سے ابھرتی ایک خبر نے لوگوں کو چونکا دیا جب سابق رکن اسمبلی عتیق احمد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بظاہر یہ ایک سنسنی خیز خبر تو نہ تھی لیکن تمام چینلز اور اخباری رپورٹرز کے درمیان عتیق احمد اس بات کا شک ظاہر کر رہا تھا کہ اسے شک ہے کہ وہ پولیس انکاؤنٹر میں مارا جائے گا، اس کے اس خوف کا وہاں خوب مذاق اڑایا جا رہا تھا، ان تمام ٹی وی چینلز کے اینکرز کو سلام ہے کہ جنھوں نے عتیق احمد کا مذاق یوں بھی اڑایا کہ اسے مخالف جماعت سے نامزد کیا گیا تھا اور وہ کامیاب بھی ہوا تھا۔
اس بات کے پیچھے کتنی حقیقت ہے کہ بی جے پی کی مخالف جماعت کا عتیق احمد کیا کچھ کام (کالے کرتوت) کرتا تھا کہ الزامات کا دھارا تو بہتا ہی رہتا ہے لیکن عتیق احمد کو بہت پہلے ہی علم ہو گیا تھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ گرفتار ہونے کے وقت اس کے پیچھے اس کا بیٹا بھی دیکھا جاسکتا تھا۔ بہرحال دونوں بھائیوں عتیق احمد اور اشرف کو گرفتار کرلیا گیا۔
عتیق احمد کو اپنی جان کے لالے تو تھے ہی کہ اسے اپنے جوان بیٹے کی ہلاکت کی خبر سننے کو ملی جسے پولیس نے انکاؤنٹر میں مار ڈالا، اس کے ساتھ ایک نوجوان غلام محمد بھی تھا۔ اس واقعے کے دو دن بعد ہی جب اشرف اور عتیق کو پولیس میڈیکل چیک اپ کے لیے لے جا رہی تھی تب ہی دونوں بھائیوں کو پولیس کی کسٹڈی میں ڈھیروں کیمروں کے سامنے لائیو شوٹ کردیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ حملہ اچانک تھا لیکن پولیس کی کسٹڈی میں متعین اہل کاروں کو کیا اطلاعاتی نوٹس ملنا چاہیے تھا کہ عتیق اور اشرف کو مارنے ہم لوگ آ رہے ہیں؟ یہ ایک ایسی مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ جس کے چرچے انڈیا کی سیاست میں کالے صفحات کی صورت میں درج ہونے چاہئیں۔ واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ حملہ آور نے ایک کے بعد فوری دوسرا فائر کیا اور اس کے عقب میں پولیس اہل کار باآسانی اس کی پستول والے ہاتھ کا نشانہ خطا کرسکتا تھا لیکن اس نے اس حملہ آور کو پورا موقعہ دیا اور اس نے اپنی پوری کارروائی انجام دی۔
انڈین چینلز کے ان اینکر پرسنز کی ہنسی، مسکراہٹ، تحقیر اب تک برقرار ہوگی یا نہیں، لیکن ایک کے بعد ایک عتیق احمد کے خاندان کے افراد کی گرفتاری اور پکڑ دھکڑ کے لیے چھاپے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ صفحہ ہستی سے اس پورے خاندان کے نام کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی نہ بخشا گیا ورنہ پولیس تھانے سے ان معصوموں کا کیا سروکار؟
اس تمام معاملے میں عتیق احمد کی بیوی شائستہ اب ایک اہم کردار بن کر انڈین پولیس اور درپردہ مودی سرکار کے حواسوں پر سوار ہو گئی ہے جسے وہ اب ایک لیڈی ڈان کا روپ دے رہے ہیں۔شائستہ کہاں ہیں، وہ ان مخالفتوں میں کہاں تک چل سکتی ہیں، اور کیا کچھ کر سکتی ہیں اس سوال کا جواب دینا مشکل تو نہیں ہے لیکن جس طرح ان کا میڈیا اس کو رپورٹ کر رہا ہے اس سے وہ ایک ظالم، جابر، کرپٹ اور بدمعاش قسم کی مافیا چلانے والی خاتون کا پتا دے رہے ہیں۔
ہم کیا بہت سے ان کے اپنے ملک کے باسی اور اہل قلم اور صحافتی کردار اس پوری کہانی سے خوش نہیں ہیں۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا بی جے پی اپنا ایک اور دور عبور کرنے کی کوشش میں مسلم آبادی کا بہت کچھ نگلنے کی تیاری کر چکی ہے۔
پہلے ہی وہ عتیق احمد کی تعمیرات کو بلڈوزر کی زد میں تو لا ہی چکی ہے اس کے ساتھ ہی اور بھی بہت کچھ مسمار ہوا ہے، جس میں مسلمان تو کیا غریب اور نچلی ذات کے ہندو بھی نشانے پر ہیں۔ کانگریس ہو یا عام آدمی پارٹی، بی جے پی اپنے اقتدار اور اپنے طے کردہ تعصبی پلان کے تحت سب کچھ تہس نہس کرنے میں جت گئی ہے بظاہر ہم سب کو اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ وہاں ترقی کی شرح بہت اونچی جا رہی ہے لیکن اصل حقیقت ابھی بھی تاریک ہے۔
چند فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ پر اپنی سنہری مہر لگا دیتے ہیں، کلکتہ میں قائم آئی ٹی انڈسٹری انھی چند فیصلوں میں سے ایک ہے، کون آگے بڑھتا ہے اور مواقع کو تھام لیتا ہے اور کون اپنے دلوں کے چور دروازوں کی فائلوں کو الٹ پلٹ کر ان مواقعوں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔
بہرحال فیصلہ تو ہو چکا تھا اور اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری آگے بڑھ رہی، بھارتی دنیا بھر میں کمانے جا رہے ہیں اور اپنے ملک کے لیے زرمبادلہ لا رہے ہیں۔
کرپٹ سیاست دان اور ادارے وہاں بھی ہیں لیکن ان کی آبادی کا تناسب اور ترقی کے تناسب کے باعث وہ ہم سے بہت آگے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے اداروں کو کبھی ایک حد سے بڑھنے نہیں دیا، وہاں ہمیشہ سے سیاست دان ہی تمام اداروں پر حاوی رہے ہیں۔
عتیق احمد اور اس کی فیملی کے ساتھ ہونے والے مظالم ایک عام ہندوستانی کی کہانی نہیں، وہ ایک سابق رکن اسمبلی تھا، ایک بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اسے اور اس کے خاندان کو بتا دیا گیا کہ تم کس ملک میں بستے ہو، بھول کیوں جاتے ہو؟ بہرحال ہم سب کو رب العزت نیک ہدایت دے۔( آمین)