پاکستان چین اور امریکا
تیسرے سوال کے جواب میں امریکا کی مرضی و منشا کے مطابق حکومت نہ چلانے کی سزا پاکستان کو دینا ہے
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں 29 اپریل کو امریکی صحافی مسی ریان نے امریکا کی خفیہ دستاویزات کی آن لائن خبر کا حوالہ دیا اور کہا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی عالمی پالیسیاں، امریکا کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو متاثر کر رہی ہیں جس سے امریکی انتظامیہ کی گرفت دنیا پرکمزور پڑ رہی ہے۔
ان خفیہ دستاویزات کے افشا ہونے میں پاکستان اور ایشیا کے متعلقہ ریجن اور مشرق وسطیٰ میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر کا حوالہ دیتے ہوئے، مسی ریان نے پاکستان کی خارجہ امور کی مملکتی وزیر حنا ربانی کھر کی مارچ میں پاکستان کے اعلیٰ عہدیداران کی ایک گفتگو افشا کی اور لکھا کہ '' حنا ربانی کھر نے پاکستان کی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خطے کی سیاسی اور معاشی صورتحال کے پیش نظر مغرب اور امریکا سے تعلقات میں توازن پیدا کرے تاکہ ہمارے خطے کے پڑوسی ممالک بطور خاص چین اور روس سے تعلقات میں سرد مہری پیدا نہ ہو اور پاکستان خطے کی صورتحال میں ایک متوازن فریق کے طور پر دنیا میں اپنا مقام بنائے۔''
اس جائزے میں امریکی صحافی کا خیال ہے کہ ''صدرجوبائیڈن اس معاملے میں امریکن مفادات کو نقصان پہنچانے کی سنگینی کو سنجیدہ نہیں لے رہے ، جس کی وجہ سے چین ایک بڑی معاشی قوت کے طور پر پاکستان سمیت دیگر ممالک میں اپنا اثر و رسوخ مسلسل بڑھا رہا ہے، جوکسی طور بھی امریکن مفادات کے لیے سود مند نہیں۔''
اس خبر نے پاکستانی حلقوں میں مختلف سوالات ابھارے، جن میں اہم سوال یہ تھا کہ حنا ربانی کھرکی یہ گفتگو یا رائے امریکی حکام تک کیسے اورکس نے پہنچائی؟ دوسرا کہ پاکستان اپنے مفادات کی بہتری کے لیے اپنے پڑوسیوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ کر مسلسل امریکی مفادات کے لیے کام کیوں کرتا رہے؟ تیسرا یہ ہے کہ امریکا کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈہ کرنیوالے عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنما آخر مغرب اور امریکا سے اتنے قریب کیسے اور کیونکر ہوتے جا رہے ہیں۔
پہلے سوال کے حوالے سے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ عناصر جو حکومت کے رپبلیکن امریکی پیرا ڈائم کے حامی ہیں، وہ آج کل کافی سرگرم ہیں اور تاحال انھیں امریکی مفادات کے فوجی جنرل سمیت پی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہے، جس کا عندیہ عمران خان کے Absolutely Not کے بجائے ہر قیمت پر Absolutely Yes کے بیانیے اور امریکی فرمز کے توسط سے مختلف ملاقاتوں سے لگائی جاسکتی ہے۔ دوسرے کا مختصر جواب یہ ہے کہ پچھتر سال میں آمروں کی مکمل آشیرباد سے عمران خان کی صورت غیر جمہوری سوچ کے افراد کو دوبارہ اقتدار دے کر افغان جہاد مانند دہشت گرد طالبان طرز کی حکومت قائم کرنا ہے۔
تیسرے سوال کے جواب میں امریکا کی مرضی و منشا کے مطابق حکومت نہ چلانے کی سزا پاکستان کو دینا ہے، جس کی ٹھوس وجہ تمامتر شرائط ماننے کے باوجود آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کا بحال نہ کیا جانا اور دباؤ بڑھانا کہ ریبپلیکن مائنڈ سیٹ کے کشمیر فروخت عمران خان کو اقتدار مل جائے تاکہ خطے کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار چین اور روس کے بجائے امریکی سامراج پر ہی رہے۔
اس رپورٹ کے افشا ہونے کے بعد تجزیاتی بنیاد پرکہا جاسکتا ہے کہ بدلے ہوئے بیانیے کے بعد ساٹھ دہائیوں سے امریکی مفادات کا ساتھ دینے والی قوت کو آخری سہارے کے طور پر عمران خان کی سہولت کاری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ موجودہ قوت کی نگرانی میں ہی ستمبر سے پہلے الیکشن کروا کر عمران خان کی صورت میں عالمی مغربی طاقتیں پاکستان پر ازسر نو تسلط کا خواب پورا کر سکیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کو سیاست اور معیشت کے فیبرکس تہس نہس کرنے کے باوجود ، امریکا یا مغرب اسے لاڈلا بنائے ہوئے ہیں، اس پورے معاملے کو تاریخی تناظر میں چھان بین کے بعد دیکھنے کی ضرورت ہے،جیسا کہ
1۔ عمران خان ہی کیوں؟سوشل میڈیا ٹیکنالوجی میں رنگین مزاج کرکٹر عمران خان کو ہیرو بنانے کے قرائن اور واقفان حال کے مطابق ورلڈ کپ جتوانے کے محرکات میں عمران خان کی جمائمہ سے شادی سے لے کر مستقبل کے لیے امریکی Paradigm یعنی غیر جمہوری طرز فکر '' نمونہ '' اپنانے کے لیے جنرل ضیا دور میں عمران خان کو چن کر شہرت اور ہیرو شپ کو بہترین طریقے سے ایڈور ٹائز کرکے سوشل میڈیا کے ٹول ذریعے گھر گھر پہنچایا گیا، اور جنرل ضیا کی طلبہ سیاست کی نس بندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر سیاسی نئی نسل کو '' ہیرو ور شپ'' میں مبتلا رکھنے کی منصوبہ بندی کر کے ایک جعلی مینڈیٹ کے ذریعے عمران خان کو پلانٹ کیا گیا اور منصوبہ بندی کے تحت جھوٹ بولنا اور عوام کے تبصروں میں رہنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے ، جو جھوٹ اور غلط تاریخی حوالوں سے عبارت ہے، مگر یہ عالمی منصوبہ بندی کے تحت پروپیگنڈہ مارکیٹ کی اصطلاح میں عوام کے اندر مسلسل رہنے اور شہرت حاصل کرنے کا منفی مارکیٹنگ طریقہ ہے، جسے ، نظریاتی سوشلسٹ اور سنجیدہ جمہوری و سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کو سمجھنا ہے اور اس منفی مارکیٹنگ سے نجات حاصل کرنی ہے۔
2۔ حاکمیت کا تضاد اور پیراڈائم کی تبدیلی کا سوال؟اس سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ہماریادارتی بنیادی تربیت کا ادارہ برطانوی طرز یعنی Paradigm '' نمونے'' پر رہا اور ادارے کی بنیادی تربیت اور ذہن سازی برطانوی طرز عسکریت پر رہی ، جس میں تاریخی طور پر دو ابتدائی برطانوی آرمی چیف رہے، اس پیرا ڈائم یا طرز کو تبدیل کرنے کی کوششیں برطانوی آرمی چیف کے بعد شروع ہو چکی تھیں جن میں اس وقت کے متحرک میجر اور بعد کے جنرل ایوب تھے۔
جنہوں نے لیاقت علی خان کے ذریعے اپنی پوزیشن مستحکم کی اور جنرل اسکندر مرزا کو فارغ کر کے ملک میں پہلا مارشل لا لگایا اور خطے کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر سیٹو، سینٹو میں روس کے مقابلے میں ریاست کے جھکاؤ کا پلڑا '' امریکی سامراج'' کی جانب کیا۔ اس وقت خطے کی صورتحال کے پیش نظر امریکا کو ایک آمرانہ سوچ کا فرد چاہیے تھا جو خطے میں ان کے مقاصد اور مفادات کا تحفظ کرسکے، لہذا امریکی سامراج نے جنرل ایوب کو نہ صرف قبول کیا بلکہ جنرل ایوب کے غیر جمہوری اقتدار کو عالمی طور سے تحفظ بھی دیا۔
تاریخی طور پر برطانوی سامراج اس عمل سے نہ بے خبر تھا اور نہ لا تعلق ، بلکہ اس وقت برطانوی سامراج اپنے اوپر عالمی طور سے اقتدارکی در اندازی پر تنقید کے نشانہ پر تھا۔ سو اس نے خاموشی اختیار کی اور خود کو نہ صرف بدنامی سے بچایا بلکہ گرتی ہوئی ساکھ بھی بچائی ،گو امریکا اور برطانیہ کے سفارتی و مشترکہ مفادات کبھی نہ ٹکرائے،جس کا عکس ٹونی بلیئر کی عراق کے خلاف مشترکہ چڑھائی تھی۔
امریکی پیراڈائم '' نمونے'' کا یہ سلسلہ جنرل مشرف تک بہت منصوبہ بندی کے تحت چلایا گیا، جب کہ برٹش رائل اکیڈمی خاموشی سے بنا تضاد ان سارے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھی ، مگر جنرل ضیا اور سرد جنگ کے اختتام بعد امریکی طالبان نے خطے میں متوازی پیرا ڈائم میں تھرڈ فورس کے طور پر جب من مانیاں کیں اور امریکی اتحادی کے ناتے طالبان کے سہولت کار بنے، سرد جنگ کے خاتمے بعد پہلی مرتبہ برطانوی پیرا ڈائم نے امریکی پیراڈائم کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیا ۔
جمہوری قوتوں نے آئین کو اپنی اصل صورت میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے بحال کردیا۔ اس جمہوری اور فرد واحد کی حکومت کے تضاد کو امریکی اور برطانوی پیرا ڈائم کے ساتھ اثر انداز ہوتی چین کی معاشی مضبوطی میں دیکھنے کی ضرورت ہے،جو تاریخ کے اہم موڑ پر شفٹنگ کا خاموش مگر معنی خیز تضاد ہے۔
امریکا اور خاص طور پر '' ریبپلیکن'' کے آمرانہ طرز کے پیرا ڈائم کو جوں کا توں رکھنے میں عمران خان،گولڈ اسمتھ سمیت امریکی لابی کے ریپبلیکن خدشے کو خارج از امکان نہیں کیا جا سکتا جس کی گرفت امریکی معاشی نظام پر بہت مضبوط ہے۔پاکستان کے سیاسی ماحول کی گاڑی کو چلانے والی اٹھارویں ترمیم میں جمہوری آئین کی بحالی اور صوبائی خود مختاری کے بعد ایک مرتبہ پھر عمران خان کی سہولت کاری کرکے جنرل ایوب کی طرح طاقت اور اقتدار کا کھیل جاری ہے ، جس میں طاقت کا نظام لانے کے لیے عمران خان کو لایا گیا جو عالمی مارکیٹنگ میں جمائمہ کے متحرک شواہد لیے ہوئے ہے۔
قرائن بتاتے ہیں کہ عمران خان کو اقتدار میں لاکر آئین کی اٹھارویں ترمیم ختم کی جائے یا جنرل ضیا کی طرح آئین و پارلیمان کو بے وقعت کیا جائے جب کہ دوسری جانب پارلیمان کی مضبوطی اور آئین کی سلامتی کی مثبت اتحادی سوچ رکاوٹ کے طور پر کھڑی ہے۔ اصل جنگ اور تضاد جمہوری سوچ کی سیاسی جماعتوں اور فاشسٹ یا آمرانہ سوچ کے عمران خان کے بیرونی ایجنڈے کا ہے، جسے جتنی جلد ہو سمجھ لیا جائے۔