ریاستی ڈھانچہ مختصر کیا جائے
معیشت کے بحران کے حل کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ فوری طور پر حل کیا جائے
اقتصادی شعبے میں ابتری کی صورتحال میں تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ حکومت کے بار بار کے دعوؤں کے باوجود بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ملنے والی امداد کے امکانات کم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اخبار کی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں مزید تاخیر ہوگی۔
ان رپورٹوں کے مطابق آئی ایم ایف کا نواں جائزہ تاحال نامکمل ہے اور اب گیارہواں جائزہ لاگو ہوگیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس مالیاتی سال میں 30 جون 2023 تک پروگرام کی مقررہ لائن گزرنے سے قبل اس کا احیاء ہونا چاہیے۔ ان رپورٹوں کے مطابق دسواں جائزہ گزشتہ فروری میں واجب ہوگیا تھا جو پورا نہ ہوا۔
آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ اسے بیرونی فنانسنگ ضروریات کی تصدیق کا انتظار ہے۔ اگرچہ پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے 3 ارب ڈالرز بیرونی سرمایہ کاری کی ضمانت دے دی ہے مگر آئی ایم ایف ورلڈ بینک کی جانب سے 2 ارب ڈالر اور ایشین انفرا اسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک ( اے آئی آئی بی) کی جانب سے 90 کروڑ ڈالر فراہمی کی توثیق چاہتا ہے۔
یوں یہ حقیقت واضح ہورہی ہے کہ آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر اضافی فنانسنگ کے بغیر آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدہ کرنا نہیں تھا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 4 ارب ڈالر تک محدود ہوگئے ہیں۔
دوسری طرف ڈالر کی قیمت بڑھانے اور آئی ایم ایف کے مطالبہ پر مختلف مدوں میں سبسڈی کم کرنے سے مہنگائی تیزی سے بڑھ گئی ہے۔ امریکی جریدہ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح 36.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے، یوں پاکستان جنوبی ایشیا کا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے۔
اس صورتحال میں عام آدمی کی قوت خرید شدید متاثر ہو رہی ہے۔ عید کا تہوار ویسے تو مذہبی تہوار ہے مگر یہ خوشیوں کا تہوار بھی ہے، یوں عیدالفطر کے موقع پر روایتی طور پر بہت زیادہ خریداری ہوتی ہے۔ امراء کے طبقہ کے لیے تو ہر دن شاپنگ ڈے ہوتا ہے مگر متوسط اور نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے کروڑوں خاندان اس تہوار کے موقع پر پورے سال کی خریداری کرتے ہیں، مگر اس سال صارفین کی قوت خرید کم ہونے سے خریداری کا تناسب انتہائی کم رہا ہے۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد ، فیصل آباد ، ملتان ، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں بازاروں میں روایتی گہما گہمی نظر نہیں آئی۔ تاجروں کی مختلف انجمنوں کے عہدیداروں کا تخمینہ ہے کہ اس سال ماضی کے برسوں کے مقابلہ میں صرف 30 فیصد خریداری ہوئی۔ کئی صحافیوں کا کہنا تھا کہ اس دفعہ رمضان کے آخری ہفتہ میں رات کو کراچی کے مرکزی بازاروں میں رش نہ ہونے کی بناء پر ٹریفک میں خلل نہیں پڑا۔
خود وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے یومِ مئی کے موقع پر اپنے پیغام میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ مہنگائی کے باعث محنت کش طبقہ معاشی طور پر شدید دباؤ میں ہے۔ محنت کی بنیاد پر عمارت کھڑی کرنے والوں کو ثمرات سے محروم رکھا گیا تو یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ اگرچہ وزیر اعظم نے اپنے اس پیغام میں اس عزم کا اظہار کیا کہ مزدوروں کو عالمی معیشت میں حصہ دار بنانا ہمارے لیے بنیادی چیلنج ہے مگر وزیر اعظم کے پاس محنت کشوں کے حالات کار کو بہتر بنانے اور مہنگائی کو قابو کرنے کا کوئی نسخہ نہیں ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کی پاکستان کو تھکا دینے والی پالیسی کی ایک بنیادی وجہ پاکستان کی روس اور یوکرین کی جنگ میں امریکی مؤقف کی حمایت نہ کرنا اور چین کے ساتھ اپنی معیشت کو مسلسل منسلک رکھنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتہ امریکی اخبارات میں ایک خفیہ دستاویز شایع کی گئیں۔ اس دستاویز کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور دیگر چند ممالک نے روس اور یوکرین کی جنگ میں امریکی پالیسی سے بہت زیادہ دوری اختیار کر رکھی ہے۔
واشنگٹن میں ظاہر ہونے والی آڈیو گفتگو میں وزیر مملکت حنا ربانی کھر وزیر اعظم سے گفتگو کے دوران چین کو حقیقی اسٹرٹیجک شرکت دار قرار دیتے ہوئے یہ کہہ رہی ہیں کہ اب امریکا چین تعلقات میں درمیانی راہ چلنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک اور میمو میں ایک معاون وزیر اعظم سے کہتے ہیں کہ روس سے تجارت اور توانائی پر بات چیت جاری ہے۔ یوکرین کے مسئلہ پر مغربی ممالک کی قرارداد کی حمایت سے تعلقات خطرہ میں پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان سمیت 31 ممالک نے اس موقع پر ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا تھا۔
گزشتہ ہفتہ پاکستان نے روس سے تیل کی فراہمی کا معاہدہ کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ واشنگٹن سے یہ خبریں شایع ہوئی ہیں کہ پاکستان نے بائیڈن انتظامیہ سے استدعا کی ہے کہ سابقہ ٹرمپ حکومت کی پاکستان کو فوجی امداد پر عائد پابندی ختم کی جائے مگر امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے پاکستان کی اس استدعا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کی معیشت کی بحالی کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر اپنی معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس پورے منظر نامہ میں ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے بھی یوکرین روس تنازعہ میں امریکا کی قرارداد کی حمایت نہیں کی اور بھارت روس سے مسلسل تیل خرید رہا ہے مگر اس پر کسی قسم کا امریکی دباؤ اثرانداز نہیں ہورہا۔
اس صورتحال کو پاکستان کو مسلمان ملک کی حیثیت سے سازش کا شکار ہونے کی سازشی تھیوری کو نظرانداز کرتے ہوئے دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کے نظریہ کے تحت پاکستان امریکا کا اتحادی بنا۔
50ء کی دہائی میں کوریا میں جنگ کی بناء پر پاکستان میں صنعتی ترقی ہوئی۔ ایوب خان کے دور میں تھنک یو امریکا Thank you America کے عنوان سے خشک دودھ کے ڈبے تقسیم ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں افغان وار میں امریکا اور یورپی ممالک نے اربوں ڈالر کی امداد دی۔ کچھ جنگجو مذہبی گروہ بن گئے ان مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے کروڑوں ڈالر کمائے۔
نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد جنرل پرویز مشرف حکومت دوسری افغان وار کا حصہ بنی۔ پھر ڈالروں کی برسات ہوئی مگر معیشت کو حقیقی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کچھ نہ ہوا ، مگر گزشتہ 10برسوں میں اس خطہ میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بھارت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں حیرت انگیز ترقی کی۔ بھارت کا متوسط طبقہ اب غربت کے دور سے نکل آیا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تیل کے ذخائر کم ہونے لگے، یوں اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھارت کے تجارتی پارٹنر بن گئے۔ امریکا میں سابق صدر ٹرمپ نے یہ سوال اٹھایا کہ امریکی شہریوں کے ٹیکس کی رقم غریب ممالک پر خرچ کی جائے۔ پاکستان نے چین سے سی پیک کا معاہدہ کیا، یوں پاکستان کی معیشت پر چین کا انحصار بڑھ گیا۔ امریکی پالیسی ساز ادارے اس صورتحال کو خطرناک جاننے لگے ہیں۔
ایک طرف سیاسی بحران بڑھتا جا رہا ہے، اب سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے آگئے ہیں اور تحریک انصاف پھر سڑکوں پر احتجاج کی تیاریاں کر رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت ریاستی ڈھانچہ کو کم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اب بھی بجٹ کا بیشتر حصہ غیر پیداواری اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ صرف صدر اور وزیر اعظم کا ہی پروٹوکول اہمیت اختیار نہیں کرتا بلکہ وزراء اعلیٰ، سول و غیر سول افسروں کا پروٹوکول، برطانیہ اور امریکا کے پروٹوکول کو شکست دینے لگا۔ عالمی اقتصادی ماہرین کے مشوروں کے باوجود کوئی بھی حکومت بنیادی اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔ ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان کو بھارت اور ایران سے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں۔
پاکستان پڑوسی ممالک سے تعلقات کو بہتر بنا کر معیشت کو بہتر کرسکتا ہے، مگر 2016 کے بعد اب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری گوا گئے تو پہلے ہی ان کے دورے کو محدود کرنے کے لیے پیش بندی کردی گئی۔ملک کے رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ ساحلی شہر گوادرکے ماہی گیر اپنے روزگار کے تحفظ کے لیے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں ، یوں اتنے بڑے صنعتی منصوبہ سی پیک کے مثبت نتائج سامنے نہیں آرہے۔
معیشت کے بحران کے حل کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ فوری طور پر حل کیا جائے ،آیندہ بجٹ میں 60 فیصد حصہ تعلیم، صحت اور وسائل کی ترقی پر خرچ کیا جائے اور ریاستی ڈھانچہ کو مختصر کیا جائے، یوں ملک بین الاقوامی اداروں کی بلیک میلنگ سے بچ سکتا ہے۔