ادارہ جاتی تصادم کے خطرات

پارلیمنٹ نے کھل کر عدلیہ کے خلاف یا مخصوص ججوں سمیت چیف جسٹس کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے


سلمان عابد May 06, 2023
[email protected]

پاکستان کا بنیادی مسئلہ سیاسی اور معاشی نہیں بلکہ ریاست کا ہے۔ جب ریاستی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ خود ہی محاذ آرائی، ٹکراو اور تناؤ کا شکار ہوں تو بحران سنگین ہوجاتا ہے۔

اس وقت ہماری صورتحال کچھ ایسی ہی ہے ۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری سیاسی جنگ ہے تو پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان بھی محاذ آرائی چل رہی ہے۔

ادھر پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ اور الیکشن کمیشن کے ساتھ محاذآرائی کی حالت میں ہے۔جو سیاسی تقرریں پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر عدلیہ مخالفت میں حکمران اتحاد کی جانب سے ہورہی ہیں ،وہ صورتحال کو مزید سنگینی اور ٹکراؤ کی طرف بڑھارہی ہے۔

پارلیمنٹ نے کھل کر عدلیہ کے خلاف یا مخصوص ججوں سمیت چیف جسٹس کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اورچیف جسٹس اوران کے ساتھی ججوں کا احتساب کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ منطق یہ دی جارہی ہے کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گی یا ہم عدلیہ کو پنچایت کا کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور عدلیہ کو اپنی حدود میں رہنا ہوگا۔

اسی طرح دوسری جانب چیف جسٹس کے بقول سیاسی لوگ انصاف نہیں چاہتے بلکہ مرضی کے فیصلوں کے لیے مرضی کے ججزاور بنچ چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ سمیت سب ادارے عدلیہ کو جوابدہ ہیں اورچیف جسٹس کے بقول قومی سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر کا چیف جسٹس کو خط اور اب رجسٹرار سپریم کورٹ کا عدلیہ مخالف تقریروں پر اسمبلی کی کاروائی کو طلب کرنا اور چیرمین پی اے سی کے بقول اگر عدالت پارلیمنٹ کا ریکارڈ مانگ سکتی ہے تو میں بھی رجسٹرار سپریم کورٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا، سنگینی کے کئی پہلووں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کہنا کہ عدلیہ پارلیمنٹ یا سیاسی معاملات میں مداخلت کررہی ہے یہ مکمل درست نہیں۔کیونکہ خود پارلیمنٹ بھی بہت سے امور پر عدالتی امور میں مداخلت کا سبب بن رہی ہے۔

سیاسی معاملات کی بنیادی خرابی یہ بن رہی ہے کہ اہل سیاست اپنے سیاسی معاملات سیاسی فورم پر حل کرنے میں مسلسل ناکام ہیں۔ اسی ناکامی کی بنیاد پر حکومت ہو یا اپوزیشن یہ اپنے سیاسی معاملا ت خود عدالتوں میں لے کر جاتے ہیں اور عدالت سے جس کو بھی ریلیف نہیں ملتا وہ عدالتوں پر نہ صرف تنقید کرتا ہے بلکہ اسے متنازعہ بنانے کا کھیل کھیلتا ہے۔

جب عدلیہ پر یہ تنقید ہوتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے تو اس نقطہ کو بھی نظرانداز نہ کیاجائے کہ مفاہمت کا راستہ نکالنے کی کوشش، صرف عدلیہ ہی نے نہیں کی تھی بلکہ حکومتی وکیل فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل مسلسل عدلیہ کو یہ ہی پیغام دیتے رہے کہ ہم مفاہمت کی پوری کوشش کررہے ہیں اور ہمیں مفاہمت کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ سیاسی راستہ اختیار کیا جائے۔

اس لیے سارا ملبہ عدالیہ پر ڈالنا درست نہیں ہے ، سیاست دانوں کو بھی اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا ہوگا۔ آئین میں ہر ادارے کے دائرہ کار اور اختیارات کا تعین موجود ہے۔

ہمیں اسٹیبلیشمنٹ اور عمران خان کے درمیان بھی لڑائی نظر آتی ہے۔عمران خان اب سارا ملبہ جنرل باجوہ پر ڈال رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر عمران خان کے حامی اسٹیبلیشمنٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگرچہ فوج کی موجود ہ قیادت خود کو سیاسی معاملات یا ان میں مداخلت سے دور رکھنے کا دعوی کرتی ہے مگر عمران خان اسے تسلیم نہیں کرتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ میں ایک تناو کا ماحول ہے۔

یہاں بھی ایک سیاسی تقسیم غالب ہے، حکمران اتحاد اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت اور عمران خان کی مخالفت میں پیش پیش ہے تو دوسری طرف عمران خان اینٹی اسٹیبلیشمنٹ سیاست میں نمایاں ہیں ۔ریاست کا ایک اور اہم ادارے الیکشن کمیشن کو لڑائی میں شامل کرلیا گیا ہے ۔

ہم بنیادی طو رپر سطحی قسم کے مسائل یا ذاتیات پر مبنی مفاداتی لڑائی کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔اس بحران سے بچنے کا واحد حل ایک طرف سیاسی جماعتوں یعنی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات او رمفاہمت ہے مگر اس کو بھی دونوں اطراف کے شدت پسند خرا ب کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔

دوسری طرف ریاستی اداروں کو بھی اپنی اپنی سیاسی، انتظامی اور قانونی حدود میں رہ کر وہی کچھ کرنا ہے جو آئین پاکستان ان کو کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔اس وقت ہم ریاست سے لے کر سیاست اور سیاست سے لے کر عدلیہ یا دیگر اداروں پر الزام تراشیوں , کردار کشی، آڈیوز وڈیوز کے کھیل کو بنیاد بنا کر جو کچھ کررہے ہیں وہ عملی طور پر قومی سیاست اور جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔

یہ ہی کھیل جہاں سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرے گا وہیں اداروں کی بالادستی ،خود مختاری اور ان کی شفافیت کو بھی کمزور کرے گا۔ اس لیے ہمیں ادارہ جاتی تصادم کو ہر صورت روکنا ہوگا او ریہ ذمے داری محض سیاست دانوں کی نہیں بلکہ تمام فیصلہ ساز اور طاقت ور طبقات کی ہونی چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں