بلاول بھٹو کا سفارتی کردار اور نقاد
بلاول بھٹو زرداری کے کندھوں پر پڑی بھاری سفارتی ذمے داریوں میں اہم ترین اور پُرآزمائش ذمے داری بھارت سے نمٹنا ہے
ہمارے نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیر خارجہ، جناب بلاول بھٹو زرداری، 4 اور 5 مئی 2023 کو بھارتی ریاست ، گوا، میں ہونے والی SCO (شنگھائی تعاون تنظیم) کانفرنس میں شریک ہو کر واپس آ چکے ہیں۔
پاکستان میں اُن کے بھارت جانے کی حمائت بھی کی گئی اور مخالفت بھی۔ بھارت میں بھی اُن کی آمد بارے مخالفت اور حمائت دیکھی گئی۔
عمران خان اور پی ٹی آئی نے کھل کر بلاول بھٹو کی بھارت یاترا کی مخالفت کی ہے۔ البتہ سابق وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما، جناب شاہ محمود قریشی، نے محتاط الفاظ میں بلاول بھٹو کی یہ کہہ کر حمائت کی ہے: ''پاکستان SCO کا رکن ہے؛ چنانچہ بلاول بھٹو زرداری کا بھارت جانا قابلِ اعتراض نہیں۔''
ایک تفریقی لائن یہ کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بھارت یاترا پر نہیں گئے بلکہ عالمی تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کرنے گئے۔ اور یوں اپنا متعینہ قومی ، ملکی اور عالمی سفارتی فریضہ ادا کیا ہے ۔
پچھلے ایک ہفتے کے دوران پاکستان اور بھارت کی سیاست، صحافت اورسفارت پر بلاول بھٹو زرداری کی بھارت یاترا چھائی ہُوئی ہے ۔
بحیثیتِ مجموعی بلاول بھٹو کے کردار (Performance)کی تحسین بھی کی گئی ہے اور اِسے سراہا بھی گیا ہے ۔ساتھ ہی امریکا و اقوامِ متحدہ میں متعین سابق پاکستانی سفیر، ڈاکٹر ملیحہ لودھی، ایسے عناصر یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ '' بلاول بھٹو زرداری کے دَورۂ بھارت میں کوئی حیران کن چیز نہیں ہُوئی ۔''اِس بیان پر بھی حیرت ہی ہے ۔ بلاول بھٹو توپ و تفنگ سے لَیس ہو کر جنگ کرنے''گوا'' (بھارت) نہیں گئے تھے ۔
ایک سفارتی فریضہ ادا کرنے گئے تھے ۔ اگرچہ کوئی بڑا اور غیر متوقع بریک تھرو تو نہیں ہُوا لیکن یہ دَورہ بھی غنیمت ہے ۔ دونوں ممالک میں بد قسمتی سے اتنی گرہیں پڑ چکی ہیں کہ ایک دَورہ کوئی ایک گرہ کھولنے کے لیے بھی ناکافی ہے ۔
بلاول بھٹو زرداری صاحب نے مسکراتے ہُوئے ''گوا'' میں ہر جگہ سفارتکاروں اور میڈیا میں اپنا اچھا کردار متعارف کروایا ہے ۔ کسی بھی موقع پر پاکستان کے متعینہ اور مستحکم نکتہ نظر اور فکر کو بٹّہ اور گہن نہیں لگنے دیا۔ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر اور امن بارے انھوں نے پاکستان کی پالیسی سے سرِ مُو انحراف نہیں کیا ۔ ہر دو معاملات میں بلاول بھٹو سرخرو رہے ۔اُن کو شاباش ملنی چاہیے ۔
بلاول بھٹو زرداری بھارت یاترا کے دوران مسکراہٹ کے ہتھیار سے لَیس رہے ۔ البتہ اُن کے کاؤنٹر پارٹ، بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر، تناؤ کا شکار ہی نظر آتے رہے ۔
بلاول بھٹو زرداری نے توجے شنکر کے رویئے کی تعریف و تحسین ہی کی لیکن جے شنکر نے بد تمیزی ، بیہودگی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے پاکستان اور پاکستان کے وزیر خارجہ پر چھینٹے اُڑانے کی ناکام کوشش کی ۔ یوں بھارتی وزیر خارجہ نے آدابِ میزبان کی اساسی اخلاقیات کا جنازہ بھی نکالا اور بی جے پی کے ایک متعصب و پاکستان دشمن رکن ہونے کا ثبوت بھی دیا۔جے شنکر کے اِس نامناسب کردار نے سب امن پسند پاکستانیوں کو مایوس کیا ہے۔
اِس دَورے میں بلاول بھٹو زرداری نے ممتاز بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹ، انڈیا ٹوڈے، کو جو20منٹی انٹرویو دیا ہے، وہ پاکستان کی سفارتی اُمنگوں اور اہلِ پاکستان کے جملہ آدرشوں کا آئینہ دار ہے ۔ معروف بھارتی صحافی، راجدیپ سرڈیسائی، کو دیے گئے اِس انٹرویو کو دیکھنے اور پڑھنے کا مجھے بھی موقع ملا ہے ۔ بلاول بھٹو نے اشتعال انگیز سوالات کے جوابات جس متحمل لہجے میں دیے، بھارتی اینکر کی پریشانی قابلِ دید تھی ۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے کندھوں پر پڑی بھاری سفارتی ذمے داریوں میں اہم ترین اور پُرآزمائش ذمے داری بھارت سے نمٹنا ہے ۔ بھارت سے پاکستان کے سفارتی تعلقات زیریں ترین سطح پر ہیں۔ اِس کی ذمے داری مگر بلاول بھٹو کی نہیں ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں موجودہ کشیدگی سابق وزیر اعظم عمران خان کے دَور میں اُس وقت پیدا ہُوئی جب مقبوضہ کشمیر بارے بھارت نے ایک سفاک اور بہیمانہ اقدام کیا۔
ردِعمل میں عمران خان اور اُن کے سرپرستوں نے بھارت سے تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع کر ڈالے۔پاکستان نے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا اور کہا: جب تک بھارت اگست 2019کا فیصلہ واپس نہیں لیتا، بھارت سے بول چال اور لین دین بند!مذکورہ فیصلے کو تقریباً چارسال گزر گئے ہیں۔
وقت نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کا کیا گیا فیصلہ بروقت تھا۔ مگر اِس فیصلے کے کچھ نقصانات بھی اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ بھارت کا پرنالہ تو وہیں کا وہیں ہے۔4اور5مئی2023 کو گوا (بھارت)میں منعقد ہونے والی SCO کانفرنس میں بھی بھارت نے یہی ثابت کیا ہے ۔
جہاں تک پاکستان اور بھارت کے سفیروں کا ایک دوسرے کے ملک سے نکالے جانے کا فیصلہ ہے، تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ بہت سے ممالک بوجوہ ایسا کرتے ہیں ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہی سفارتی تعلقات معمول پر آ جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر (1)ایران نے 6مئی 2023ء کو آزر بائیجان کے4 سینئرسفارتی اہلکار اس لیے ملک سے نکال دیے کہ پچھلے ماہ آزربائیجان نے بھی ایران کے4سینئر سفارتی اہلکار وںکو ''ناپسندیدہ عناصر'' (Personae Non Gratae)قرار دے کر ملک سے نکال دیا تھا (2) یوکرائن اور رُوس کے سفارتی تعلقات ، جنگ کے کارن، کشیدہ تر ہیں۔
دُنیا نے 5مئی 2023 کو یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ انقرہ( ترکیہ)میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران یوکرائنی سفارتی اہلکار (Oleksandr Marikovski) نے رُوسی سفارتی اہلکار (Ola Timofeeva) کے منہ پر گھونسہ جڑ دیا کیونکہ رُوسی اہلکار نے یوکرائنی پرچم کی بے حرمتی کی تھی (3) کینیڈا کی وزیر خارجہ، ملینی جولی، نے 4مئی 2023ء کو اعلان کیا کہ اُن کا ملک چند چینی سفارتکاروں کو کینیڈا سے نکال رہا ہے کیونکہ اِن چینی سفارتکاروں نے کینیڈا کے ایک رکنِ اسمبلی (Michael Chong) اور اُن کے ہانگ کانگ میں مقیم رشتہ داروں کی توہین کی ہے ۔
مذکورہ بالا ممالک ( ایران، کینیڈا ، آزر بائیجان، روس، یوکرائن) نے ایک دوسرے کے سفیروں کو نکالے جانے کے جو اقدامات کیے ہیں، اِن کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اب ہمیشہ کے لیے ان ممالک کی آپس میں کٹّی ہو چکی ہے۔ ان ممالک کو جلد ہی سفارتی تعلقات بحال کرنا ہیں۔
اِس کے بغیر گزارا ممکن ہی نہیں۔ بعینہ پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات بھی ایک روز بحال ہونے ہیں۔ آج نہیں تو کل۔ اِس ضمن میں وزیر خارجہ جناب بلاول بھٹو زرداری کے کندھوں پر بھاری ذمے داریاں عائد ہو چکی ہیں ۔ اُن کے دَور میں اگر پاک بھارت تعلقات بحال ہوتے ہیں اور وہ خود اِس میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں تو یہ اُن کے سیاسی کیرئر کی ایک بڑی کامیابی ہو گی ۔
یہ کامیابی مگر اُسوقت تک ہمارے نوجوان وزیر خارجہ کے قدم نہیں چوم سکتی جب تک انھیں ہماری طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا مکمل ساتھ اور سہارا دستیاب نہیں ہوتا۔ بھارت سے واپس آتے ہی بلاول بھٹو چینی اورافغان وزرائے خارجہ (چن گانگ اور امیر متقی) سے سہ فریقی مذاکرات کر رہے ہیں ۔
اسلام آباد میں ہونے والے یہ مذاکرات تینوں ممالک کے لیے اہم ترین ہیں ۔ افغانستان میں پناہ گیر ٹی ٹی پی نے 5مئی کو پھر 8 پاکستانی سیکیورٹی جوانوں کو شہید کیا ہے، اِس پس منظر میں افغان وزیر خارجہ سے بلاول بھٹو کا مکالمہ خاصا اہم ہے۔