کراچی کے ضلع وسطی میں بغیر منظوری پرائمری کے امتحانات کا میٹرک اور انٹر کی طرز پر انعقاد
سینٹرلائزڈ امتحانی نظام کے تحت انعقاد اردو کا پرچہ اچانک دوبارہ لے لیا گیا ، طلبہ حیران رہ گئے
کراچی کے ضلع وسطی کے سیکڑوں سرکاری پرائمری اسکولوں میں حکومت سندھ کی منظوری کے بغیر میٹرک اور انٹر کی طرز پر " سینٹرلائزڈ ایکزامینیشن سسٹم" نافذ کردیا گیا ہے اور چوتھی و پانچویں جماعتوں کے ہزاروں طلبہ بورڈ کی طرز پر مرکزی امتحانی نظام کے تحت سالانہ امتحانات دینے پر مجبور کردیے ہیں
واضح رہے کہ پورے صوبے میں پرائمری ایجوکیشن کی سطح پر ایسا کوئی نظام رائج نہیں ہے تاہم اس طرح کے من چاہے فیصلے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ضلع وسطی کی جانب سے کیے جارہے ہیں۔ ان فیصلوں کی ایک بدترین مثال ہفتے کے روز اس وقت سامنے آئی جب ضلع وسطی کے تمام سیکڑوں پرائمری اسکولوں میں چوتھی اور پانچویں جماعتوں کے ہزاروں طلباء و طالبات کے سالانہ امتحانات کے سلسلے میں اردو کا پرچہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اچانک دوبارہ لے لیا گیا جبکہ سالانہ امتحانات کے آغاز ہی میں از خود لاگو کیے گئے سینٹرلائزڈ امتحانی سسٹم کے تحت دونوں جماعتوں کا اردو کا پرچہ لیا جاچکا تھا تاہم ہفتے کو جیسے ہی طلبہ شیڈول کے مطابق متعلقہ مضمون کا اپنا آخری پرچہ دے کر فارغ ہوئے تو انھیں اسکولوں میں ہی روک لیا گیا اور بتایا گیا کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر انھیں اردو کا پرچہ آج دوبارہ دینا ہوگا لہذا گھر جانے کے بجائے کمرہ جماعت میں بیٹھے رہیں کچھ ہی دیر میں اردو کا پرچہ تیار ہوکر آرہا ہے اس پرچے کو بھی حل کرنا ہوگا پھر گھر جاسکتے۔
واضح رہے کہ یہ فیصلہ اتنا اچانک تھا کہ کچھ اسکول فوری طور پر پرچے کا پرنٹ بھی نہیں نکال سکے اور بلیک بورڈ پر سوالات لکھ دیے گئے قابل ذکر امر یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل کراچی سمیت پورے سندھ کا وہ واحد ضلع ہے جہاں چوتھی اور پانچویں جماعتوں کے سالانہ امتحانات میٹرک یا انٹر کی طرز پر سینٹرلائزڈ ہورہے ہیں امتحانی پرچے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس سے تیار ہوکر اسکولوں میں آتے ہیں اور تمام اسکولوں سے طلبہ کی جوابی کاپیاں جانچ کے لیے ڈسٹرکٹ آفس یا کسی اسسمنٹ سینٹر پر چلی جاتی ہیں تاہم مذکورہ امتحانی نظام کسی بھی دوسرے ضلع میں رائج نہیں بلکہ خود کراچی کے بھی دیگر چھ اضلاع کے سرکاری پرائمری اسکول اپنے امتحانات خود لیتے ہیں پرچے خود بناتے ہیں اور اسسمنٹ بھی خود کرتے ہیں۔
بتایا جارہا ہے کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) سینٹرل کی جانب سے امتحانات کے سلسلے میں جب مذکورہ نظام رائج کیا تو ساتھ ہی میں یہ ہدایت بھی جاری کردی کہ ایک اسکول کے اساتذہ دوسرے اسکولوں میں جاکر پرچے لیں گے اور پرچوں کے وقت کوئی استاد اپنے اسکول میں موجود نہیں ہوگا تاہم جب ڈی ای او کو یہ اطلاع ملی کہ کچھ اسکولوں میں اساتذہ اردو کے پرچے کے وقت اپنے ہی اسکول میں موجود تھے تو انھوں نے اردو کا پرچہ دوبارہ کرانے کے احکامات دے دیے یہ احکامات اس قدر اچانک تھے کہ طلبہ کو بھی یہ اطلاع نہیں دی جاسکی کہ اردو کا پرچہ ایک بار پھر دینا ہوگا تاہم جب طلبہ کو شیڈول کے مطابق منعقدہ آخری پرچے کے بعد روک کر اردو کا امتحان ایک بار پھر دینے کی ہدایت کہ گئی تو وہ حیران رہ گئے۔
اکثر اسکولوں سے اطلاعات موصول ہوئی کہ طلبہ کا کہنا تھا کہ "یہ پرچہ تو ہم نے سالانہ امتحانات کے شروع میں ہی دے دیا تھا اب ہماری اتنی تیاری نہیں ہے کہ بغیر پڑھے یہ پرچہ دوبارہ دے سکیں " تاہم طلبہ کی اس شکایت کے باوجود ڈی ای او کی ہدایت پر اسکولوں کی جانب سے انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ اردو کا پرچہ دوبارہ دیں "ایکسپریس" نے اس صورتحال پر ڈی ای او سینٹرل تحسین فاطمہ سے رابطے کی کئی بار کوشش کی تاہم انھوں نے فون کا جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ وہ سندھ کے ایک اعلی ترین افسر کی قریبی عزیزہ ہیں اور قریب 7 سال سے مذکورہ آسامی پر براجمان ہیں ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود سیکریٹری اسکول ایجوکیشن غلام اکبر لغاری بھی ان کے معاملے میں کچھ نہیں بولتے ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن پرائمری بھی مذکورہ ضلع کے اسکولوں کے معاملات سے لاتعلق رہتی ہیں اور ضلع وسطی کے پرائمری اسکولوں میں بورڈ کی طرز پر سینٹرلائزڈ امتحانی نظام کے نفاذ کے معاملے پر تمام اعلی حکام خاموش ہیں۔
علاوہ ازیں اس سلسلے میں "ایکسپریس" نے ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ضلع وسطی ارشد علی سے رابطہ کیا اور ان سے اردو کا پرچہ دوبارہ لیے جانے کی وجہ پوچھی جس پر ان کا کہنا تھا کہ "پہلی بار پرچے کے انعقاد کے دوران رائج قوائد کہ کچھ خلاف ورزی رپورٹ ہوئی تھی جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا ان سے مزید پوچھا گیا کہ کیا طلبہ کو دوبارہ پرچہ لینے سے متعلق اطلاع تھی جس پر ان کا کہنا تھا کہ ڈی ای او سے پوچھیں میں کچھ نہیں کہہ سکتا ان سے مزید پوچھا گیا کہ کیا دوسرے اضلاع میں بھی یہ نظام رائج ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ دیگر اضلاع کے متعلق وہاں کے افسران سے پوچھیں میں اپنے ضلع کا ذمے دار ہوں تاہم جب ان سے استفسار کیا گیا کہ کیا ان فیصلوں کی منظوری محکمے سے لی گئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ آپ میڈم سے پوچھ لیں وہی بتا سکتی ہیں"
ادھر محکمے کا موقف جاننے کے لیے سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی تاہم ان کا موبائل فون بند تھا۔