خانگی تنہائی کے شکار قیدی…
میاں، بیوی کا رشتہ انتہائی پاکیزہ اور اعتماد کے رشتوں پر قائم ہوتا ہے ۔۔۔
کبھی کبھی انسانی جذبات، جذبوں پر اس قدرغالب آ جاتے ہیں کہ اچھے اور برے کی تمیز تک کھو بیٹھتے ہیں۔ جذبوں پر مثبت رجحان کا غلبہ راست اقدام تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن جب جذبات، منفی اور انتقام کے سانچے میں ڈھل جائیں تو ذات میں ناہمواریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
میاں، بیوی کا رشتہ انتہائی پاکیزہ اور اعتماد کے رشتوں پر قائم ہوتا ہے اس دیوار کو اگر ذرا سی بھی چوٹ پہنچے تو ناقابل تلافی دراڑ پیدا ہو جاتی ہے، کہنے کو تو یہ لطیفہ ہے کہ میاں، بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ لیکن شاید یہ بیل گاڑی کے وقت پر بنائی گئی ضرب المثل تھی، چونکہ آج کل چار پہیوں کا زمانہ ہے۔ لیکن اس بات پر بھی غور کیا جا سکتا ہے کہ دو پہیوں والوں بیل گاڑی کے آگے جوتے بیل کے مطابق اعتماد سازی پر قائم ایمان ہے تو اسے اس طرح بھی لیا جا سکتا ہے کہ ان دو پہیوں کے مصداق میاں، بیوی کے رشتے کو مضبوط اعتماد ہی آگے کھینچ سکتا ہے۔ اگر جدید دور کی بات کی جائے تو پھر ایسے زوجین کے علاوہ دو بچے ہی اچھے، یا پھر موٹر سائیکل کے دو پہیے بھی قرار دیے جا سکتے ہیں۔
لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر موٹر سائیکل کا ایک ٹائر پنکچر بھی ہو جائے تو سائیکل سوار اسے بڑی ٹرک سے چلاتا ہوا پنکچر والی دکان پر لے جاتا ہے۔ دراصل اس طویل تمہید کا مقصد پس زنداں اسیروں کی شریک حیات کے ساتھ محبت کے ساتھ ناراضگی کے دوسرے پہلو کو سامنے لانا تھا۔ ایک قیدی پر ہی موقوف نہیں ہے بلکہ زمانے کی ستم ظریفی میں دیکھا گیا ہے کہ لڑکی کے لواحقین کسی ملزم کے سزا ہونے کے بعد معاشرتی دباؤ کے تحت ان کے رشتوں کو خلع کے ذریعے توڑنے میں کمر بستہ نظر آتے ہیں، یا پھر طویل سزا کی وجہ سے لڑکی کی ازدواجی زندگی کی تباہی کے بعد، نئی ازدواجی زندگی کے لیے وہ بادل ناخواستہ رشتہ ختم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ اسی طرح کسی فرد کے بار بار جیل آنے یا پھر اس کی مجرمانہ حرکتوں سے نالاں ہونے پر بھی طلاق کے وکالت نامے ان کے ہاتھوں میں نظر آتے ہیں۔
بیشتر ایسے قیدی بھی دیکھے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں بے یقینی کے سمندر ہوتے ہیں کہ ان کی شریک حیات، سختی کے کڑے وقت میں ساتھ چھوڑ جائے۔ یہ لمحات بڑے کرب آمیز ہوتے ہیں۔ گو کہ مندرجہ بالا تمام کیفیات کے عوامل نہایت جذباتی اور انتہائی مجبوریوں کے تحت عمل میں لائے جاتے ہوں گے، لیکن حوادث زمانہ کی کڑی آزمائش میں ان قیدیوں کے لیے یہ لمحہ سوہان روح بن جاتا ہے۔ مسجد کے صحن میں ایک قیدی کو نہایت افسردہ اور گلوگیر دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ اور اس پر اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو، بڑی اداس فضا بنا رہے تھے۔ بوجھل قدموں کے ساتھ اس کے قریب جا بیٹھا اور چند لمحات کے لیے اس کو غور سے دیکھا، بعدازاں ترچھی نظروں سے اس کاغذ کو دیکھا، جس کی وجہ سے اس کی نگاہوں میں پانی بہہ کر باہر امڈ آیا تھا۔
جسے اس نے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔میں نے آہستگی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دھیمے لہجے میں استفسار کیا کہ ''سب خیر خیریت تو ہے ناں؟'' اس نے چونکتے ہوئے مجھے دیکھا تو یکدم میرے سینے سے لپٹ کر دھاڑیں مار کر رونے لگا، میں اس اچانک ردعمل کے لیے قطعاً تیار نہیں تھا۔ تاہم شفقت کے ہاتھوں کو اس کی پشت پر سہلانے کے ساتھ ساتھ دل جوئی اور صبر کی تلقین کرتا رہا اور اسے جلد موضوع پر لانے کے لیے دریافت احوال کیا کہ ''ہوا کیا ہے؟'' اس کی ہچکی لیتی اکھڑی سانسوں میں امڈتے بے ترتیب جملوں کو سمجھنے کے لیے قوت سماعت کو یکجا کیا تو کچھ یوں صورتحال سامنے آئی کہ اسے اس کی بیوی نے طلاق کے لیے لکھا ہے کہ وہ اس کی طویل سزا کے سبب کڑا وقت اکیلے نہیں گزار سکتی، لہٰذا وہ اسے طلاق دے دے، تا کہ وہ اپنا راستہ منتخب کر سکے۔
میرے لیے بھی یہ جھٹکا تھا، کیونکہ عموماً یہ دیکھا تھا کہ قیدیوں کے قریب اس کی ماں کے بعد اس کی بیوی ہی ہوتی ہے، جو بڑی ہمت کے بعد، اس کی آزادی کے لیے پوری قوت صرف کر دیتی ہے۔ ناقابل یقین اس واقعے نے مجھے بے چین کر دیا اور پھر اس نے مجھے بتایا کہ زمانے کے سردگرم موسم میں اسے عدالت نے طویل سزا سنادی ہے۔ جس کے بعد اس کی گھر والی مایوس ہو چکی ہے اور اس سے علیحدگی کی خواہاں ہے۔ اس نے کہا کہ وہ متعدد بار اسے خط لکھ چکا ہے لیکن وہ اسے کوئی جواب نہیں دیتی۔ یہ اس کا آخری خط ہے جسے پڑھ پڑھ کر قید کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔
دل پر بوجھ سا اتر آیا اور آنکھوں میں نمی تیر گئی کہ جیل میں اسیر قیدیوں کے ساتھ کتنی کہانیاں جڑی ہیں کہ ختم نہ ہونے والی داستان الف لیلیٰ کی طرح طویل تر ہی ہوتی جا رہی ہے۔ میں اس قیدی کی دھاڑیں بندھانے کے لیے اسے مسجد میں بیٹھ کر جھوٹی تسلی نہیں دے سکتا تھا، خدا کے گھر میں بیٹھ کر مجھے یہ جھوٹ کہنے کی ہمت نہ تھی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ آخر کوئی عورت اس قدر انتہائی قدم کیونکر اٹھا سکتی ہے کہ جس مرد کے لیے اس نے اپنا تن من نچھاور کیا، وہ اس قدر اس کے لیے نامحرم ہو جاتا ہے کہ اس کے نام کے ساتھ جڑا رہنا بھی پسند نہیں کرتی۔
میرے لیے یہ بھی سمجھنے میں قباحت تھی کہ جیل میں آنے والے قیدیوں کی فرسٹریشن کی وجہ سے تو کہیں اس کی شریک حیات مایوس کن رویہ اپنانے پر مجبور ہوتی ہے۔ سننے میں آیا ہے تھا کہ حکومت کی جانب سے میاں، بیوی کے لیے خصوصی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے اور پیش رفت کے طور پر پنجاب حکومت کی ایک رول ماڈل جیل میں سزا یافتہ قیدیوں کے ساتھ، لمحات گزارنے کے لیے خصوصی ہوسٹل کی تیاری بھی عمل میں لائی گئی ہے۔ لیکن تاحال نظر نہیں آتا کہ کسی مرد یا عورت قیدی کی ازدواجی زندگی کو جوڑنے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے گئے ہوں گے۔
انسان سماجی جانور ہے، جو فطرت کے اصولوں سے بغاوت پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ قیدیوں کی سماجی زندگیاں ہی نہیں بلکہ اس کی خانگی زندگیاں بھی تباہی کا شکار ہیں۔ گو کہ ارباب اختیار کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ صرف دکھاوے کے لیے ہی رسمی بیانات پر اکتفا کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اصل حقیقت اور تلخ حقائق یہ ہیں کہ جیلوں میں جنسی بے راہ روی کی اصل وجوہات میں قیدیوں کی خانگی تنہائی کا بھی بڑا عمل دخل ہے کہ سفلی جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے راستے بھٹک جاتے ہیں۔سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ ہر انسان کے حالات کو واقعات کی کسوٹی پر رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اعتماد کے بنے رشتوں کی پامالی اور ساتھ چھوڑنے والی روش میں کسی انسان کی تکلیف کا مداوا کون کرے گا؟