دہشت گردی اور پاک افغان تجارت

پاکستان اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی دے چکا ہے


Editorial May 09, 2023
پاکستان اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی دے چکا ہے (فوٹو : فائل)

پاک فوج کے سربراہ سید عاصم منیر نے کہا کہ سی پیک کی مکمل حمایت، دہشت گردی کے خلاف پاک افغان تعاون بڑھانا ہوگا۔ انھوں نے چینی وزیر خارجہ چن گانگ اور افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی۔

دوسری جانب پاک افغانستان مذاکرات میں دہشت گردی کے خاتمے، معاشی ترقی اور تجارت کے شعبہ میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جب کہ افغان وفد کی قیادت افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ علاقائی امن و استحکام پاکستان اور افغانستان دونوں کی یکساں ضرورت ہے جس کے لیے باہمی تعاون سے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے جڑ سے اکھاڑنے اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

لینڈ لاک اور جنگ زدہ افغانستان کی معیشت زمین بوس ہوچکی ہے، جو کاروباری سرگرمیاں ہورہی ہیں،وہ روایتی لین دین کے اصولوں پر ہورہی ہیں،بینکنگ سسٹم موجود نہیں ہے اور اس کا تمام تر انحصار ہمسایہ ممالک پر ہے۔

پاکستان ایک عرصے سے افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت میں اضافہ کرنے اور وسط ایشیا کی منڈی تک رسائی کے لیے کوشاں ہے تاہم ان ممالک تک رسائی اور تجارت بڑھانے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔

پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کرائے تھے، جو بعد میں کامیاب بھی ہوئے اور ایک تفہیم کے ذریعہ امریکا نے افغانستان سے جانا قبول کر لیا اور طالبان افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

امریکا نے بھی پاکستان کی اس مسئلے میں مدد اور تعاون کی تعریف کی تھی۔یہ امر خوش آیند ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو بڑھانے پر اتفاق رائے ظاہر کیا گیا ہے اور وزراء نے روایتی اشیاء سے ہٹ کر تجارت کو متنوع بنانے اور اقتصادی تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور تجارتی بہاؤ کو آسان بنانے کے لیے انفرا اسٹرکچر اور کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے پر بات چیت کی گئی۔

افغانستان جس خطے میں واقع ہے ، اس کے ساتھ ہمارے خطے کے ساتھ تجارتی تعلقات ایک دو برس پرانے نہیں بلکہ صدیوںپر محیط ہیں۔ دور قدیم میں بنگلہ دیش کے ساحلی شہر چٹاگانگ کی دریائے کرنافلی سے لے کر دریائے سندھ اٹک کے مقام سے آگے درہ خیبر سے ہوتے ہوئے، کابل اس سے آگے قندھار اور دوسرا روٹ کابل سے وسط ایشیائی ممالک حتیٰ کہ یورپ تک اور انگلینڈ تک سامان تجارت اور ڈھاکا کی ململ اور برصغیر پاک وہند کی ہزاروں اشیا پہنچ جایا کرتی تھیں۔

ایک اور قدیم تجارتی روٹ وسط ایشیاء سے افغانستان سے جنوبی وزیرستان کے شہر وانا سے ہوتا ہوا ڈیرہ اسماعیل خان سے دریائے سندھ عبور کرکے بہاول پور اور ملتان ، اس سے آگے بھارتی ریاست راجستھان اور گجرات تک جاتا تھا تھا۔ گرینڈ ٹرنک روڈ( جی ٹی روڈ ) وسط ایشیاسے برصغیر پاک وہند کی تجارت کا سب سے اہم روٹ تھا اور اب بھی ہے۔

اس روٹ پر سفری اور تجارتی سہولیات سے دنیا بھر کے سیاحوں، تاجروں اور مسافروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارتی حجم کو بڑھانے کی کافی گنجائش موجود ہے۔ بارڈرز کے دونوں اطراف کی بزنس کمیونٹی کی مشکلات دور کرنے کے ساتھ ساتھ باہمی تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین باہمی تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے فروغ سے ملکی معیشت مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی تجارت کو وسعت ملے گی جس سے ملکی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان کی بزنس کمیونٹی کوایک دوسرے کے مزید قریب لانے کے لیے اس سلسلے کو مستقبل میں بھی جاری رکھا جانا چاہیے۔

باہمی تجارتی تعاون میں کچھ رکاوٹیں ہیں جنھیں دور کرنا بھی ضروری ہے مثال کے طور پر طورخم میں پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے سامان سے بھری گاڑیاں سڑک کنارے کھڑے ہونے پر مجبور ہیں، دونوں ممالک کی سرحدوں پر ٹیکنالوجی کا فقدان ہے جہاں پاکستان کی کمزوریاں ہیں وہاں افغان حکومت کی پالیسی ساز ادارے بھی سست روی سے کام لے رہے ہیں۔

اگر دونوں حکومتیں چاہیں تو یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں کیونکہ پالیسی کا تعین تو حکومتیں کرسکتی ہیں۔ پاک افغان سرحدی گزرگاہ طورخم میں تاجروں کو بجلی، انٹرنیٹ اور جدید اسکینر کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ افغانستان کی چیک پوسٹوں پر بھی تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے جسکی وجہ سے دونوں ممالک کی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

دونوں ممالک کے عوام اور تاجر برادری کی خواہش ہے کہ تجارت اور آمد و رفت میں آسانی لائی جائے اور طورخم سرحد پر رش کی وجہ سیدو سری سرحدی گزر گاہیں یعنی غلام خان، نواں پاس اور چترال سمیت دیگر کو بھی کھول دینا ضروری ہے۔ افغانستان سے پچیس فیصد اشیا درآمد کی جاتی ہے لیکن پچھتر فیصد اشیا پاکستان سے برآمد کی جاتی ہیں کیونکہ پاکستان کی صنعتیں فعال ہیں۔

یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ایک عرصے سے افغان سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ وہاں سے دہشت گرد پاکستان آتے ہیں، حملے کرتے ہیں اور واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔ پاک افغان سرحد پر قریباً 70 ارب روپے کی لاگت سے 2500 کلو میٹر طویل باڑ لگانے کا کام2021میں 90فیصد تک مکمل کر لیا گیا تھا تاہم اِس باڑ کو دہشت گرد موقع ملتے ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔

صورت حال مشکل ہے لیکن ماضی میں پاکستان نے اس سے بھی زیادہ کٹھن صورت حال میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ افغان طالبان حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس وقت پاکستان کو دشمن طاقتوں نے گھیر لیا ہے، جس میں بعض نامراد پاکستانی بھی شامل ہیں، اگر انھوں نے اس موقع پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کی تو یقینا پاکستان کو طالبان حکومت کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔

اس وقت فوجی قیادت ، سول قیادت اور عوام کا موقف یکساں ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں، ویسے بھی ٹی ٹی پی یا کسی اور انتہا پسندگروپ کو پاکستان میں کسی قسم کی عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اب لوگ ہر جگہ مظاہرے کررہے ہیں۔

عوام نے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کو مسترد کردیا ہے ، وہ ان کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں، عوام نے اپنا کام کردیا ہے لیکن ریاست اورحکومت کا کام ابھی باقی ہے، اگر حکومت سمجھتی ہے کہ شاید مفاہمت سے کوئی حل نکل آئے تو یہ سوائے خوش فہمی کے کچھ نہیں ہے۔

شہریوں کی جان ، مال اور عزت کا تحفظ کرنا حکومت کی آئینی ذمے داری ہے، ہمارے ہاں سیاسی قیادت نے انتہا پسندی کے انسداد پر کبھی توجہ ہی نہیں دی بلکہ سیاسی حکومتوں کے دور میں انتہاپسندی کو زیادہ فروغ ملا اور انتہاپسندوں کو قانون کا کور مہیا کیا گیا، ادھر ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی انتہا پسندی کو کبھی خطرہ نہیں سمجھا، یوں انتہاپسندی نے دہشت گردی کو نظریاتی غذا فراہم کی۔

اگر سیاسی و مذہبی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی روکنا اور اس کا خاتمہ کرنا سیکیورٹی اداروںکا کام ہے، وہ غلطی پر ہیں۔اسی طرح اگر سیکیورٹی ادارے سمجھتے ہیں کہ وہ یہ کام خود کرلیں گے تو وہ بھی غلطی پر ہیں۔ حقیقت میں یہ ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے ۔ سیکیورٹی اداروں کا کام دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا ہے تاکہ علاقہ صاف کر دے۔

پھر سیاسی حکومت کی ذمے داری ہے کہ علاقہ اسٹیبلائز کرے۔ یہ سوچ غلط ہے کہ ہر چیز سیکیورٹی اداروں کا کام ہے اور ہم بس سیاسی لڑائی لڑیں گے۔ سیکیورٹی اداروںکی آئینی اور قانونی حدود ہیں، ان کا کام سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔ کس ملک کی فوج نے 20 سال تک اس طرح لڑائی لڑی ہے؟ انتہا پسندی کا خاتمہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہر 15 دن بعد ہونا چاہیے اورصرف اسلام آباد میں نہیں بلکہ آج اسلام آباد، تو پھر کل پشاور، کوئٹہ اور کراچی اور لاہور میں ہونا چاہیے بلکہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اسکردو، وانا،میر علی اور جنڈولہ میں بھی ہونا چاہیے ۔ حکومت اور سیاسی قیادت کا کام قوم کو معاملے کی نزاکت سے آگاہ کرنا ہے ، اس میں میڈیا کا بھی ایک بڑا کردار ہے۔

پاکستان اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔ ہماری معیشت پر اِس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے، اربوں ڈالر خرچ ہوئے اور تاحال خرچ ہو رہے ہیں، ہماری بہادر افواج اور انٹیلی جنس اداروں کی شبانہ روز محنت سے ہم اس آگ پر بڑی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔

سانحہ اے پی ایس نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، ایک واضح اور مستقل پالیسی کی ضرورت محسوس کی گئی تھی جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت نے مل بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے20واضح نکات تھے لیکن اُن پر سو فیصد عمل نہ ہو سکا۔ کابل انتظامیہ کو اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اپنی اور پاکستان کی سرزمین پر مستقل قیام امن کے لیے باہمی تعاون بروئے کار لانا چاہیے تب یہاں امن و استحکام کی منزل حاصل ہو پائے گی اور باہمی تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں