عُشر کے لیے منظم تحریک کی ضرورت

تحریکِ عُشر میں سب سے اہم کردار (ہر مسلک کے ) علماء، خطیب حضرات، میڈیا، مقامی اکابرین اور نوجوانوں کا ہے


[email protected]

قرآن کریم کو سمجھ کر مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ خالقِ کائنات نے غرباء اورمساکین کی مالی مدد پر کس تسلسل اور شدت کے ساتھ زور دیا ہے۔

ہر دوسرے صفحے پر اس کی تلقین ملتی ہے، جہاں نماز اور زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکانِ اسلام کی ادائیگی کی تلقین ہے وہیں انفاق ، یعنی اﷲ کی راہ میں غرباء و مساکین یعنی بے وسیلہ اور مستحقین پر خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

جب مستحقین تلاش کرنے کی بات آتی ہے تو اس میں بھی رہنمائی فرمائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ ترجیح اپنے کم وسیلہ عزیز واقرباء اور آس پاس کے نادار، بیوگان، یتیموں اور بے سہارا افراد کو دی جائے۔

مستحقین کی مدد کے لیے خالق ومالک انسانوں کو مختلف انداز سے راغب کرتا ہے، وہ کبھی اﷲ کی راہ میں خرچ نہ کرنے یا بخیلی کرنے والوں کو عذاب کی وعید سناتا ہے اور کبھی اپنے اس حکم پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والوں کو انعام کی خوشخبری بھی سناتا ہے۔

ایک طرف تو خالق ومالک اس حد تک possessive ہے کہ وہ واضح طور پر انسانوں کو بتادیتا ہے کہ تمہارا مال، دولت، جائیداد حتٰی کہ تمہاری اولاد کا اصل مالک بھی میں ہوں، تم نہیں ہو۔ تم تو محض custodian یا کیئرٹیکر ہو مگر اس کے ساتھ reward اور انعام دینے میں اس قدر فراخدلی دکھاتا ہے۔

جو صرف اُسی کی شانِ کریمی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ تمہارے پاس جو دولت یا جائیداد یا بینک بیلنس ہے، اس کا مالک تو میں ہی ہوں، مگر میرے ہی دیے ہوئے مال میں سے تم اگر میری خوشنودی کے لیے کم وسیلہ انسانوں کی مدد پر خرچ کروگے تو میں سمجھوںگا کہ تم نے مجھے قرض دیا ہے اور پھر میں یہ قرض کئی گنا اضافے کے ساتھ تمہیں واپس کروںگا۔

اضافے میں سَتر گنا بھی ہے اور سات سو گنا کا ذکر بھی آتا ہے۔ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ جس رب کائنات کے نزدیک غریبوں اور مسکینوں کی مالی مدد کی اہمیت ارکانِ اسلام کے برابر ہے، اس نے کچھ انسانوں کو کم وسائل دے کر بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہوگا اور ان کی مالی مشکلات دور کرنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا ہوگا، بالکل کیا ہے اور نہایت مؤثر بندوبست کیا ہے۔ زکوٰۃ اور عُشر کی صورت میں بڑا موثر انتطام کردیا گیا ہے۔

مسلمانوں کو اپنی آمدنی، بینک بیلنس اور زیورات کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی صورت میں کم وسیلہ افراد پر خرچ کرنے کا پابند بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح وہ فصل میں ایک خاص حصہ (بارانی زمین میں پیدا ہونے والی فصل کا دسواں حصہ اور دوسرے ذرایع سے سیراب کی جانے والی زمین کی فصل کا بیسواں حصہ) مستحقین کی امداد کے لیے خرچ کرنے کے پابند ہیں۔

مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ ایک تو تمہاری دولت کا اصل مالک تمہارا خالق ومالک ہے اور دوسرا یہ کہ تمہارے وسائل پر تمہارے آس پاس رہنے والے بے وسیلہ انسانوں کا بھی حق ہے۔ یعنی مستحقین کی امداد تمہارا فرض ہے ۔ یہ تمہارا ان پر احسان نہیں ہے، یہ ان کا حق ہے جو تم ادا کرہے ہو۔ اس کا بدلہ اُن سے مت طلب کرو۔ اس کا بدلہ اور اجر خود ربِّ کائنات تمہیں دے گا اور کئی گنا بڑھا کر دے گا۔

میرے ذاتی علم اور مشاہدے میں اس طرح کی بیسیوں مثالیں ہیں کہ جونہی کسی شخص نے زکوٰۃ دینا شروع کی، اُس کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ اسی طرح میں درجنوں ایسے زمینداروں اور کاشتکاروں کو جانتا ہوں کہ جو لاعلمی کی وجہ سے پہلے عشر ادا نہیں کرتے تھے۔

مگر کچھ عزیزوں یا کچھ باعمل علماء کے کہنے پر انھوں نے عشر ادا کرنا شروع کیا تو ان کی فصل کی پیداوار میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ کسی معروف اسکالر کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ اﷲ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرنے والے کسی شخص کو میں نے آج تک غریب ہوتے نہیں دیکھا، مگر اﷲ کے لیے خرچ کرنے والے سیکڑوں لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتے ضرور دیکھا ہے۔

ایک جاننے والے کاشتکار نے بتایا کہ ''میں لاعلمی کے باعث عُشر ادا نہیں کیا کرتا تھا اور میری فصل اچھی نہیں ہوتی تھی ،کبھی بیماری کا شکار ہوجاتی اور کبھی موسم کی شدت کے باعث خراب ہوجاتی، اکثر ایسا ہوتا کہ کاشت پر کیے گئے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے تھے۔ پھر میں نے ایک بار موبائل پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تقریر سنی۔

اس کے بعد میں نے باقاعدگی سے ہر فصل کا بیسواں حصہ نکالنا شروع کردیا، میں اپنے گاؤں کی بیوگان اور غرباء کو ان کے گھروں پر اناج پہنچاتا ہوں اور اگر فصل بک جاتی تو نقد رقم دے دیتا ہوں۔ اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ میری زمین پر کسی آسیب کا سایہ تھا جو دور ہوگیا ہے۔ میری فصل پر اﷲ کی برکتیں نازل ہونے لگیں ہمارے سارے قرضے اترگئے اور ہمارا گھر خوشحالی کے نور سے منور ہوگیاہے۔

اپنے علاقے کے ایک اور زمیندار نے مجھے خود بتایا کہ سچی بات ہے کہ میں عُشر کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ کچھ پڑھے لکھے عزیزوں کی زبانی پہلی بار سنا کہ عُشر کی ادائیگی اتنی ہی اہم ہے جتنی نماز پڑھنا یا روزے رکھنا، تو میں نے قصبے کی جامع مسجد کے خطیب سے اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں۔

اس کے بعد میں نے باقاعدگی سے گندم اور چاول کا بیسواں حصہ غرباء اور مساکین کے لیے الگ کرنا شروع کردیا اور گاؤں کی بیوگان، دائمی مریضوں اور ناداروں کی فہرست تیار کرکے ان میں تقسیم کرنا معمول بنالیا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میری گندم جو پہلے تیس بتیس من فی ایکڑ نکلتی تھی اب پچاس من فی ایکڑ نکل رہی ہے اور مُونجی کی فصل جو بمشکل چالیس من فی ایکڑ نکلتی تھی، اب 65\60 من فی ایکڑ نکل رہی ہے، یہ اﷲ تعالیٰ اور نبی کریمﷺ کے احکامات پر عمل کرنے کی برکت ہے۔ اس سے اﷲ کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے اور اپنے گاؤں کے کچھ نادار گھرانوں کی مدد کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوتی ہے۔ ایسا کرنے سے جو دلی اطمینان اور جو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے وہ کہیں سے اربوں روپے مل جانے سے بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔

وسطی پنجاب کے ضلع گوجرنوالہ اور جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے دو زمینداروں کے روح پرور واقعات کے سیکڑوں لوگ چشم دیدگواہ ہیں کہ انھوں نے بالترتیب خربوزے اور کپاس کی فصل کاشت کی تھی فصل تیار تھی کہ ایک رات طوفانی بارش کے ساتھ شدید ژالہ باری بھی ہوئی جس سے پورے گاؤں کی فصلیںتباہ ہوگئیں مگر مذکورہ بالا دونوں زمینداروں کی فصلیں بچ گئیں جو ایک معجزہ تھا۔ صبح اٹھ کر گاؤں کے باسیوں نے یہ معجزہ دیکھا تو کوئی بھی حیران نہ ہوا بلکہ ہر ایک کی زبان پر تھا کہ یہ عُشر ادا کرنے کا معجزہ ہے جو خالقِ کائنات نے دکھا دیا ہے۔

دونوں زمیندار باقاعدگی سے احکام اِلہٰی کے مطابق غَلّہ یا نقد رقم اپنی بستی کے مستحق افراد کو پہنچایا کرتے تھے، اسی کی برکت اور طاقت سے ان کی فصلیں طوفانی ژالہ باری میں محفوظ رہیں۔ یقینا اور بھی ہوں گے مگر میں وسطی اور شمالی پنجاب کے دو ایسے دیہاتوں کو جانتا ہوں جہاں عُشر کی تقسیم کا کام بڑے منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔

دونوں دیہاتوں میں معززین کی کمیٹی گاؤں کے تمام کاشتکاروں سے عُشر اکٹھا کرتی ہے اور پھر اسے منصفانہ طریقے سے گاؤں کے مستحقین میں تقسیم کردیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں کسی کو خالی پیٹ نہیں سونا پڑتا۔ ہم اپنے بے وسیلہ بھائیوں اور بہنوں کا حق اس طرح لوٹاتے ہیں کہ ہم نے ان کے بچوں کو ہنر سکھا کر پاؤں پر کھڑا کردیا ہے۔

اگر اﷲ اور نبی کریمؐ کی احکامات پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو یہ آج بھی معجزے دکھا سکتا ہے اور یہ آج بھی غربت کے ناسور کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ ہمارے کاشتکاروں کی اکثریت عشر کے بارے میں حکم اِلہٰی سے لاعلم ہے۔ ان کی آگہی اور ترغیب کے لیے ایک منظم اور مربوط تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

تحریکِ عُشر میں سب سے اہم کردار (ہر مسلک کے ) علماء، خطیب حضرات، میڈیا، مقامی اکابرین اور نوجوانوں کا ہے، اس مقدس مشن کی تکمیل کے لیے باکردار افراد آگے آئیں اور اپنے قصبے، گاؤں یا بستی کے مکینوں کو اکٹھا کر کے انھیں عُشر کی اہمیت وفضیلت سے آگاہ کریں۔

آس پاس کے مستحقین کی فہرستیں تیار ہوں اور پانچ سے سات افراد پر مشتمل یہ کمیٹی غرباء ومساکین میں شفافیت کے ساتھ جنس یا نقدی تقسیم کردے۔ فوری طور پر ہر ضلع کے پانچ دیہات منتخب ہوں جن میں عُشر کی collection اور تقسیم کا نظام قائم ہو اور پھر ان دیہاتوں کو پورے ملک کے سامنے ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے۔ عُشر کے بارے میں میری مختصر سی پوسٹ پر لوگوں نے بڑے پرجوش ردِّعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ امید ہے کہ ہر ضلع میں کچھ والنٹیئر یہ ذمے داری سنبھالیں گے۔

صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ کو چاہیے کہِ ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ ہدف واضح ہے کہ ہمارے وسائل پر بے وسائل انسانوں کا بھی حق ہے اور ہم نے اپنے بے وسیلہ بھائیوں کی ضروریات بھی پوری کرنی ہیں۔ نیت نیک ہو، دل میں اخلاص ہو اور مقصد اﷲ کی خوشنودی اور انسانوں کی فلاح ہو تو کائنات کی تمام طاقتیں آپ کی کامیابی کے لیے آپ کی ہمنوا اور مددگار ہوں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں