کیفی اعظمی خواب اور انقلاب کی آمیزش
میں اب سمجھ گیا ہوں کہ ادب انسانیت سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ ناکام و نامراد رہے گا
10مئی 2002کو ایک خواب دیکھنے والا ایک خوبصورت انسان دنیا سے رخصت ہوا تھا۔ دنیا کو ہر قسم کے ظلم و جبر، استحصال سے نجات دلانا اس کی زندگی کا مقصد تھا جس کی خاطر اس نے اپنی آخری سانس تک جدوجہد کی۔ آج مجھے 14 دسمبر 2001 کی رات یاد آرہی ہے۔
پنجابی کی صف اول کی ناول نگار اور افسانہ نویس اجیت کور کے گھر پر سارے ہندوستان سے، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا اور پاکستان سے آئے ہوئے ادیب اکھٹا تھے۔ ہم نے کلاسیکی رقص کی نرت اور بھاؤ کو، خوبصورت آوازؤں کے سبھاؤ کو اپنے اندر اتارا تھا اور اب پینے اور کھانے کی محفل تھی۔
آصف فرخی اور عطیہ داؤد دونوں ہی اس محفل سے غائب تھے، گوپی چند نارنگ موہنی باتوں کے روتی رول رہے تھے کہ اردو کے مشہور ہندوستانی ادیب اقبال مجید کا بھتیجا مونس جلال پراسرار انداز میں ایک طرف سے نمودار ہوا اور راز دارانہ انداز میں کہنے لگا '' چلیے ٹیکسی باہر انتظار کررہی ہے۔'' میں اس کی بات نہ سمجھی تو کہنے لگا ''میں شام کو کیفی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، ہم چند دن بعد ان کا ایک جشن منارہے ہیں اسی سلسلے میں گیا تھا۔
انھیں معلوم ہوا کہ آپ آئی ہوئی ہیں، سو انھوں نے آپ کو بلوا بھیجا ہے۔''اس لمحے تک مجھے معلوم نہ تھا کہ کیفی بھائی دِلی میں ہیں۔ ان کا بلاوا سننے کے بعد یہ کیسے ممکن تھا کہ میں نہ جاتی۔ سو اجیت کور سے رخصت لیے بغیر، میں باہر نکلی۔ دیکھا تو ٹیکسی میں آصف فرخی اور عطیہ داؤد بھی ہیں۔ معلوم ہوا کہ کیفی بھائی کے یہاں جانے کا سن کر وہ دونوں بھی مونس کے ساتھ ہو لیے ہیں۔
دِلی کی سردی کا لطف اٹھاتے ہوئے ہم آخرکار شبانہ اور جاوید کے گھر پہنچ گئے جہاں کیفی بھائی اور شوکت آپا ٹہرے ہوئے تھے۔دروں اور دروازوں پر پردے چُھٹے ہوئے تھے۔ ایک دروازے کا پردہ اٹھا کر جب ہم اندر داخل ہوئے تو میں کیفی بھائی کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔
وہ چوڑے ہاڑ کے آدمی تھے لیکن اب مرزا قانق لگ رہے تھے۔ رنگت زرد پڑگئی تھی، سینے تک ایک موٹا لحاف اوڑھے لیٹے تھے۔ لیکن آنکھوں کی چمک اسی طرح تھی۔'' تم آگئیں '' کیفی بھائی نے کہا اور میں ان کے سامنے جھک گئی۔ انھوں نے پیار کیا۔ شوکت آپا نے گلے لگا کر مجھے ایک دن پہلے ملنے والے سارک ادبی ایوارڈ کی مبارکباد دی۔ میں نے ان سے خورشید بھائی کا پرسہ کیا تو آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ''ہمارے لیے تو وہی پاکستان تھے۔'' انھوں نے کہا اور پلو سے اپنی آنکھیں خشک کرنے لگیں۔
میں کیفی بھائی کو دیکھتی رہی اور میری نگاہوں میں ان کا وہ چہرہ گھومتا جو میں 70 کی دہائی سے دیکھتی آئی تھی۔ فروری 1973 میں جب ان کی دماغ کی رگ پھٹ گئی تھی اور فالج نے جسم کے ایک حصے کو بیکار کر دیا تھا، اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ یہ چند مہینوں بھی زندہ رہیں گے لیکن اس ظالمانہ حملے سے بھی وہ اسی بہادری سے لڑے تھے جیسے زندگی بھر سامراج سے اور استعمار سے لڑتے رہے۔
علاج کے لیے ماسکو رہ کر آئے، پھر جنوبی ہندوستان میں آریو ویدک علاج کے سلسلے میں ایک آشرم میں مہینوں ٹہرے۔ بیماری کے بعد وہ کئی مرتبہ کراچی آئے۔ ہر مرتبہ اپنے سالارِ جنگ خورشید علی خاں کے یہاں ٹہرے۔ میں نے انھیں بید کے سہارے چلتے پھرتے، بڑے بڑے مشاعروں اور محفلوں میں شرکت کرتے دیکھا۔ مجال ہے کہ کسی کو یہ احساس بھی ہوا ہوکہ وہ ایک بیمار آدمی سے مل رہا ہے۔
انھیں ایک ٹک دیکھتے ہوئے مجھے سبطے بھائی یاد آئے جنھوں نے دِلی میں دم دیا تھا۔ سبطے بھائی کے گھر پر ہونے والی وہ محفل یاد آئی جس میں سبطے بھائی نے دوپہر کے کھانے پر انھیں بلایا تھا۔ وہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا، گلابی ملتی تو تھی لیکن مشکل سے، سبطے بھائی ساری دوپہر ان سے بحث کرتے رہے تھے کہ یار تمہاری صحت ایسی نہیں کہ اس دھڑلے سے پیو۔ کیفی بھائی نے کراچی میں بڑے مشاعرے لوٹے تھے اور نجی نشستوں میں سماں باندھ دیا تھا۔
وہ ایک رجائیت پسند انسان تھے، ان کا کہنا تھا کہ خواب دیکھنا ہر انسان کا حق ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس خواب کی تعبیر ہماری زندگی میں مل جائے گی، اس لیے کہ ہم جن آدرشوں کو عزیز رکھتے ہیں، ان کے بارے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی میں ہاتھ نہیں آئیں گے۔ ان کی شاعری میں خواب اور انقلاب دونوں کی آمیزش تھی۔ وہ خواب دیکھتے تھے، دکھاتے تھے اور اس کی تعبیر کے لیے انقلاب کا راستہ اختیار کرنے کی بات کرتے تھے۔
کیفی مجواں، موضع پھول پور، ضلع اعظم گڑھ کے رہنے والے، لکھنؤ کے مدرستہ الواعظین میں مولوی بن کر نکلنے کے لیے آئے اور رخصت ہوئے تو مارکسسٹ بن چکے تھے۔ کانپور کا رخ کیا۔ وہاں مزدوروں کے سینے میں انقلاب کی آگ بھری اور جب دوسری جنگ عظیم انسانوں کو نگلنے لگی تو وہ فاشزم سے لڑنے کے لیے کمر باندھ کر نکلے۔ بمبئی چلے گئے اور اب وہیں آرام کرتے ہیں۔
مجھے لکھنؤ کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب ترقی پسند تحریک کی پچاس سالہ سالگرہ کے موقعہ پر 9، 10 اور 11 اپریل 1986کو ہندوستان بھر سے ادیب اکٹھے ہوئے تھے۔
کیفی بھائی اپنی سنگین بیماری کے باوجود نہ صرف یہ کہ PWA کی قومی فیڈریشن کے صدر تھے بلکہ انھوں نے اس سالگرہ کی تقریبات کی تیاریوں میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ 11 اپریل کو راوندرالے سے ادیبوں، شاعروں اور اپٹا کے فنکاروں کا جلوس نکالا گیا جو ایک لمبا سفر کر کے اس جگہ پہنچا جہاں پچاس برس پہلے انجمن کا پہلا جلسہ منعقد ہوا تھا جس کی صدارت منشی پریم چند نے کی تھی۔
کیفی نے عصری موضوعات اور مسائل کو شاعری کا رنگ دیا۔ ان کی شاعری میں عشق و انقلاب کی آویزش نہیں، آمیزش تھی۔ عشق انھیں صرف حسن سے نہیں تھا، انسان اور امن سے تھا۔
وہ صرف قومی اور عوامی تحریکوں سے نہیں بین الاقوامی تحریکوں سے جڑے ہوئے تھے اور ایک نئے انسان کے خواب دیکھتے تھے، اس انسان کے خواب جو عورت اور مرد، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی کی تفریق سے، رنگ، نسل، اور علاقے کی تقسیم سے بالاتر ہوکر معاملات کو دیکھ اور برت سکتا ہو۔
وہ اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے برطانوی راج سے آزادی کے ہی نہیں، آزادی کے بعد کھیت مزدوروں سے لے کر پیش باندیوں اور لونڈیوں تک سب ہی کی آزادی کے خواب دیکھے تھے۔
ان کی آنکھوں میں ایک ایسا برصغیر تھا جس پر خوابوں کی سنہری اور روپہلی دھنک نکلے گی لیکن سب کچھ ان خوابوں کے برعکس ہوا۔ برصغیر میں نفرت، فرقہ واریت، علاقائیت، ذات پات کی تفریق اور مذہبی بنیاد پرستی کو آزادی مل گئی۔
ہر طور کی نفرت کا مہیب عفریت آج برصغیر کے رہنے والوں کو اپنے دانتوں تلے پیس رہا ہے۔ کیفی کے لیے یہ ایک صدمہ عظیم تھا، وہ آخری سانس تک پُر امید رہے۔ انھیں یقین رہا کہ آج نہیں تو کل تعصب ، نفرت اور جنگ کی بات کرنے والوں اور ہتھیاروں کے بیوپاریوں کو پسپا ہونا ہوگا۔
کیفی بھائی ٹیگور کا نام بہت احترام سے لیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ٹھاکر دا کی اس بات سے بہت سیکھا جو انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کہی تھی کہ ادیبوں کو انسانوں سے مل جل کر رہنا چاہیے۔ میری طرح گوشہ نشین رہ کر کام نہیں چل سکتا۔
میں اب سمجھ گیا ہوں کہ ادب انسانیت سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ تخلیق ادب بڑے جوکھیوں کا کام ہے۔ حق اور جمال کی تلاش کرنا ہے تو پہلے انا کی کینچلی اتارو۔ کلی کی طرح سخت ڈنٹھل سے باہر نکلنے کی منزل طے کرو۔ پھر دیکھو کہ ہوا کتنی صاف ہے، روشنی کتنی سہانی ہے اور پانی کتنا ٹھنڈا اور میٹھا ہے۔
کیفی نے اپنے گرو دا کی بات کو یوں گرہ میں باندھا کہ بڑے شہروں کی ہنگامہ خیز زندگی کو ترک کرکے اپنے گاؤں مجواں میں جا بیٹھے۔ جہاں ان کی نال گڑی تھی۔
پھول پور، ضلع اعظم گڑھ کے اس گاؤں میں آم ، جامن اور نیم کی چھاؤں میں کھاٹ پر بیٹھ کر انھوں نے دھرتی کا سینہ چیرنے والے کسانوں کا دکھ سکھ مٹایا اور ان سے یوں جڑے کہ عمر وہیں پیر کی ہو۔ وہ ساری دنیا گھومے لیکن ہر بار رخ وہیں کا کیا۔ جیسے کشتی مچھیروں کہاں کہاں نہیں جاتے لیکن لوٹ کر اپنے آشیانے کا ہی رخ کرتے ہیں۔