کپتان سے مرشد تک کا سفر حصہ دوئم
بڑے دکھ کی بات یہ کہ پوری تحریک انصاف میں کسی نے اس کلچر پر لب کشائی کی تکلیف گوارا نہیں کی، آخر کیوں؟
عید کے موقع پر مجھے کسی نے ایک وڈیو کلپ بھیجا ہے جسے دیکھ اور سن کر میرے ذہن میں کئی سوالات اورخدشات پیدا ہوئے ہیں۔
وڈیو میں ایک سات آٹھ سال کا بچہ زمان پارک میں اپنے والدین کے ساتھ کھڑا ہے، فیصل جاوید نے اسے مائیک دینے کا کہا، اس بچے نے مائیک تھاما اور پی ٹی آئی کے ورکرز کو مخاطب کرتے ہوئے عمران خان سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا، بچے کی باتیں سن کروہاں موجود سب لوگ خوش تھے اورعمران خان خود بھی مسکراتے رہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ معصوم بچوں کا شعور اس قدر بلند نہیں ہوتا کہ وہ الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر سکیں ، انھیں تو والدین جو سمجھائیں گے، وہ بول دے گا۔ اس بچے سے جو کچھ کہلوایا گیا، وہ اس بچے کے لیے اچھا ہے نہ اس کے والدین کے لیے۔ کسی سیاسی لیڈر کی تعریف ضرور کریں، اس سے محبت بھی کریں لیکن حد پار نہ کریں۔
برین واشنگ کے اندر بڑی طاقت ہوتی ہے۔ عمران خان نے جب سے بچوں سے ملنا شروع کیا ہے تو والدین روز اپنے بچوں کو خوشامدی باتیں یاد کرا کر کیمروں کے سامنے لا کر عمران خان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورجو سب سے زیادہ انوکھی محبت کا اظہار کرے تو وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس طرح والدین نے اپنے معصوم بچوں کو اپنی سیاسی خواہشات کی تسکین کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جب کہ وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ انھیں کچھ شاطر لوگ اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
یہ جو خود کش بمبار ہوتے ہیں، ان کی برین واشنگ کے ذریعے ان کے ذہن میں یہ بات یقین کی حد تک بٹھا دی جاتی ہے، دنیا وآخرت میں کامیابی کا واحد ذریعہ خودکش دھماکا ہی ہے۔ مذکورہ کلپ میں عمران کی تعریف میں رطب اللسان بچہ تو معصوم ہے لیکن مجھے یقین کہ والدین کو ایک دن اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا ۔ والدین اور استاد بچے کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں، وہ ان کی بات کو درست اور سچ سمجھتے ہیں، جس جس نے اس بچے کو یہ سمجھایا اور رٹایا ، وہ اس کے ہمدرد یا دوست نہیں ہیں ۔
ویسے بھی حقائق جاننے کے باوجود جب عمران خان صادق و امین کی تختی گلے میں لٹکائے گا تو اس کے ورکرز اسے مرشد کی بلندیوں پر کیوں نہیں بٹھائیں گے اور اپنے بچوں کو خان تک پہنچنے کا زینہ کیوں نہیں بنائیں گے۔
ابھی تو بات صرف مریدی اور مرشدی تک ہے، عمران خان کو خود بھی ایسی باتوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے ورنہ کہانی بہت آگے بڑھ جائے گی جس کا کسی کو احساس اور اندازہ ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک پلاننگ کے ساتھ ہورہا ہے ورنہ کوئی سیاسی لیڈر کبھی5 سال اور 6 سال کے بچوں سے بھی سیاسی نشستیں کرتا ہے۔
پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت اور عمران خان اس جماعت کے سربراہ ہیں، انھیں صرف سیاستدان کے طور پر دیکھنا، سمجھنا اور پرکھنا چاہیے۔سیاسی ورکرز چیزوں کو سیاسی انداز سے ہی دیکھتے ہیں، وہ سیاستدان کے ساتھ پیری مریدی کا رشتہ استوار نہیں کرتے بلکہ پارٹی منشور کی وجہ سے لیڈر کا ساتھ دیتے ہیں۔
ففتھ جنریشن یلغار نے پاکستان کے عوام اور اداروں کو بہت سے تحفے دیے ہیں۔ اپنے لیڈر کے ساتھ مرشد والی عقیدت اور مخالفین کے بارے میں نفرت اورانتہاپسندی کا زہر بچوں اور بڑوں کے ذہنوں میں ایسے بھر دیا گیا ہے جیسے اس معصوم بچے کے ذہن میں۔حیرانی کی بات ہے کہ عمران خان کی حمایت میں بولنے والے کسی اینکر نے پی ٹی آئی میں پروان چڑھنے والے اس کلچر اور اس کے پیدا شدہ منفی نتائج پر پروگرام تک نہیں کیا۔
ایسے لگتا ہے جیسے ان کی زبانوں کو لقوہ مار گیا ہو۔ پھر کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پراپگینڈا کیا جارہا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ کیسی پلاننگ ہے۔
یعنی پہلے خود ہی شور مچایا جائے کہ میری جان کو خطرہ ، مجھے قتل کردیا جائے گا، پاکستان سے فرار ہوکر بیرون ملک بیٹھا، عسکری ادارے کا ایک بھگوڑا بھی ایسی ہی باتیں کرے، ظاہر ہے کہ جب یہ کہا جائے گا تو یہ بیان موضوع گفتگو بن جائے گا اور پھر جس پر دل چاہے انگلی اٹھادیں، کبھی واویلا کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف فتوے آئیں گے ۔سوچنے والی بات کہ جب آپ نے کچھ کہا یا کیا ہی نہیں ہے تو فتوے کیوں جاری ہوں گے اور کسی نے فتوا دیا بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا بھی جارہا ہے اور ساتھ کہا جارہا ہے اشتعال میں نہ آؤ۔ کمال ہے، ایسی شاطرانہ سیاسی حکمت عملی ۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کو انتشار سے بچائے ۔
اس آرٹیکل کا واحد مقصد عمران خان اور پی ٹی آئی کے تمام قائدین اور جمعیت علمائے اسلام کے ''تربیت یافتہ'' علی محمدخان کو باور کرانا ہے کہ مرشد والے کلچر کی حوصلہ شکنی کریں۔ بڑے دکھ کی بات یہ کہ پوری تحریک انصاف میں کسی نے اس کلچر پر لب کشائی کی تکلیف گوارا نہیں کی، آخر کیوں؟ میری علماء کرام سے بھی درخواست ہے کہ مسلمانوں کو آگاہ کریں کہ وہ سیاسی جلسوں، سیمناروں اور تقریبات میں اپنی تقاریر میں مذہبی ٹچ کے چکر سے دامن بچا کر رکھیں۔
بلاشبہ مسلمانوں کی سیاست مذہب کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی مگر مذہب کی بات وہ کریں جنھیں قرآن و سنت پر عبورحاصل ہو اور شرعی طور پر ان کی رائے کی کوئی حیثیت ہو، اگر سیاستدان اپنی سیاست چمکانے کے لیے سیاست کو مذہبی ٹچ دیںگے تو نیم حکیم خطرہ جان و نیم ملا خطرہ ایمان والا معاملہ ہونے کا احتمال ہمیشہ رہے گا۔
ہم مسلسل خبردار کرتے آرہے ہیں سیاسی لیڈر اور سیاسی کارکنان صرف اپنی جماعت کے منشور پر بات کریں، قرآن و سنت کے علم اور نور بصیرت کے بغیر مذہبی ٹچ خطرناک ہوسکتا ہے، مردان کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔ میری ایک بار پھر دست بدستہ درخواست ہے کہ اﷲ کے واسطے ہوش کے ناخن لیں اور اگر باقی اصلاح نہیں کر سکتے تو نہ کریں مگر سیاسی تقاریر کرتے ہوئے مذہبی ٹچ سے اجتناب کریں۔