داخلی ٹکراؤ

حالیہ دنوں میں بھی ہمیں عدالتی محاذ پر ایک بڑے ٹکراؤ کی کیفیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ یہ ٹکراؤ دو طرز کا ہے


سلمان عابد May 11, 2023
[email protected]

پاکستان کی عدالتی تاریخ کے مطالعہ سے بنیادی نتیجہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مجموعی طور پر ہماری عدلیہ کی کہانی نظریہ ضرورت کے تحت ہی گھومتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سے عدالتی فیصلوں پر سیاسی دباؤ، چمک، سمجھوتے اور سیاسی بنیاد پر کسی کی حمایت یا مخالفت میں فیصلوں کی بازگشت سننے کو ملتی ہے۔

حالیہ دنوں میں بھی ہمیں عدالتی محاذ پر ایک بڑے ٹکراؤ کی کیفیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ یہ ٹکراؤ دو طرز کا ہے۔ اول عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان جاری تناؤ، ٹکراؤ اور بداعتمادی کا ماحول۔ دوئم، خود عدلیہ کے اندر بھی عدالتی معاملات پر موجود ججوں کے درمیان بھی تقسیم کا عمل ۔ پارلیمنٹ میں عدلیہ مخالفانہ قراردادیں حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہیں۔

پارلیمنٹ کے بقول ہماری عدلیہ سیاسی رنگ اختیار کرچکی ہے اور ہم اس کی نہ صرف شدید مذمت کرتے ہیں بلکہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔

عدالتی اصلاحات ایک اہم بنیادی نقطہ ہے ۔ ہر حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے عدالتی اصلاحات پر زور دیتی تھیں۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ہماری سیاسی حکومتوں کی ترجیحات اصلاحات سے زیادہ اداروں کو کنٹرول کرنے سے جڑی ہوتی ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ عدالتی اصلاحات کا معاملہ سیاسی طور پر مفاہمت یا سمجھوتے کی سیاست یا مصلحت پسندی کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں سیاسی طرز عمل یہ ہی رہا ہے کہ اگر فیصلہ ہمارے حق میں آجائے تو عدالت آزاد ہوتی ہے اور اگر فیصلہ ہمارے خلاف ہو تو عدلیہ پر مختلف نوعیت کے الزامات بھی لگتے ہیں ۔

حالیہ سیاسی لڑائی میں پارلیمنٹ اور عدلیہ ایک دوسرے کے مدمقابل بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایک سیاسی اصطلاح '' بنچ فکسنگ '' کی سامنے آئی ہے ۔

سیاسی قوتیں اپنے مفاد کے لیے یا عدلیہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے یا واقعی عدالتی عمل کی کاروائیوں پر بنچ فکسنگ کے انتظامات سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ پارلیمنٹ عدالتی اصلاحات کی بنیاد پرچیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی منظوری دے چکی ہے مگر عدالتی سطح پر اس میں حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔

اس بل کے تحت حکومت نے سوموٹو لینے کا اختیار یا چیف جسٹس کی طرف سے بنچ اور ججوں کی منظوری کے عمل کو چیلنج کیا اور نئے قانون کی منظوری دی جس میں چیف جسٹس کے اہم اختیارات کو محدود کیا گیا ہے۔عدالت کی جانب سے اس نئے بل پر تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا اور اس فیصلہ کو معطل بھی کردیا ہے۔

اگرچہ حکومت کا اور بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ بل2023 ان ہی مسائل کی بنیاد کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے تاکہ جو اس وقت بحران نظر آرہا ہے اس کو کم کرنے کا موقع مل سکے۔ یہاں سب کچھ ردعمل کی سیاسی بنیاد پر ہی ہورہا ہے جس سے ہمیں پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں محاذوں پر ٹکراؤ کا ماحول غالب نظر آتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حالیہ بل سے عدلیہ کی آزادی کو متاثر نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے بہتری آئے گی ۔مگر کیا وجہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے لیے حکومت محاذآرائی اور ٹکراؤ کو بنیاد بنا کر ان معاملات کو حل کرنا چاہتی ہے۔

یہ ساری صورتحال قومی سیاست اور ریاست کے مفاد میں نہیں اور یہ جو ماحول اس وقت ہمیں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ٹکراو کا نظر آرہا ہے اور جس طرح سے ایک دوسرے کو چیلنج کیا جارہا ہے وہ کسی بھی طور پر ملکی مفاد میں نہیں۔

سیاسی قیادتوں کی جانب سے بھی برملا یہ کہنا کہ ہم اپنی مرضی کے خلاف بننے والے بنچ کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کریں گے یا عدالتی فیصلوں کو کسی بھی فورم پر قبول نہیں کیا جائے گا خود براہ راست ٹکراؤ کے ماحول کو پیدا کرنا ہے۔

اگر ہم واقعی عدالتی محاذ پر کچھ بہتری چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے بداعتمادی کے مقابلے میں اعتماد سازی اور سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا ۔ کیونکہ اصلاحات کا ایجنڈا اسی وقت آگے بڑھتا ہے جب اعتماد سازی ہوگی اور لوگوں میں جو بھی ڈر یا خدشات ہونگے ان کا ازالہ کیا جاسکے گا۔اس لیے ہم سب سیاسی اور قانونی اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے سے گریز کریں تو یہ ہی سب کے مفاد میں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں