بلاول بھٹو کا دورۂ بھارت ، پاک بھارت کشیدہ تعلقات کے اس دور میں گوکہ بہت سوں کو اچھا نہیں لگا مگر سفارتی حکمت عملی کے تحت دیکھا جائے تو اس دورے کا فیصلہ کرنا حکومت کے لیے بھی ایک سخت چیلنج تھا مگر لگتا ہے کافی غوروغوض کے بعد یہی فیصلہ کرنا پڑا کہ شنگھائی تعاون تنظیم سے جڑے رہنے اور چین و روس سے تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے یہ دورہ ضروری ہے۔ بلاول بھٹو گوا گئے مگر وہاں بھارت کی جانب سے روایتی تنگ نظری کا مظاہرہ کیا گیا یہ ان کا ہمیشہ سے خاصا رہا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے پھر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی اپنی گھناؤنی پالیسی کا بھی اظہار کیا مگر اس کے جواب میں بلاول بھٹو نے صحیح ہی کہا کہ جے شنکر دراصل بھارت کی اس دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں جو صرف پاکستانیوں کو نہیں بلکہ ہر مسلمان کو دہشت گرد قرار دینے کا پراپیگنڈا کرتی رہتی ہے۔ کشمیریوں پر گزشتہ 75 سالوں سے اپنی دہشت گردی کو چھپانے کے لیے الٹا پاکستان کو دہشت گرد قرار دینا بھارت کی سرکاری پالیسی بن گیا ہے۔
کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونا ابھی باقی ہے ایسے متنازع خطے کو بھارت دھڑلے سے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے اور بڑی عالمی طاقتیں جوکہ دنیا میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کی پابند ہیں افسوس کہ بھارت کو لگام نہیں دے رہی ہیں۔ اب تو بھارت کے حوصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ وہ جی20 کا سربراہی اجلاس سرینگر میں منعقد کر رہا ہے۔
ابھی تک کسی بھی ملک نے چین کے سوا اس اجلاس میں شرکت سے انکار نہیں کیا ہے۔ حالاں کہ سعودی عرب اور ترکیہ بھی جی 20 کے ممبران ہیں اور انھیں بھی بھارت کی جانب سے سری نگر میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے مگر ان کی جانب سے اس میں شرکت کے لیے کوئی عذر پیش نہیں کیا گیا ہے۔ حالاں کہ یہ دونوں ممالک او آئی سی کے اہم ممبران ہیں وہ مقبوضہ کشمیر کو ایک متنازع خطہ قرار دیتے ہیں مگر ابھی تک ان کے اس اجلاس میں شرکت کے بارے میں کوئی عذر پیش نہیں کیا گیا ہے۔
ویسے تو امریکا بھی مقبوضہ کشمیر کو ایک متنازع علاقہ قرار دیتا ہے اور یہ اس کی سرکاری پالیسی بھی ہے مگر لگتا ہے وہ بھارت کی دلجوئی کے لیے سری نگر کے اجلاس میں شریک ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو اس اجلاس کے سری نگر میں منعقد ہونے پر سراسر سراپا احتجاج ہونا چاہیے مگر اس کی جانب سے ابھی تک اس ضمن میں کوئی خاص بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ یہ سرد مہری سراسر قومی مفاد کے خلاف ہے۔
اس سے حکومت کی کشمیر پالیسی پر کافی ضرب پڑ سکتی ہے۔ اسے چاہیے کہ کم سے کم اقوام متحدہ میں اپنے نمایندے کے ذریعے اس اجلاس کے سری نگر میں منعقد ہونے پر سخت احتجاج ریکارڈ کرائے اس لیے کہ اقوام متحدہ خود تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے۔ ہمارے نمایندے کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھی اس سلسلے میں نوٹس لینے کی درخواست کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ بلاول بھٹو کا دورہ بہت کامیاب رہا وہ بھارت کے دورے پر وہاں کی سرکار کے ساتھ مذاکرات کرنے ہرگز نہیں گئے تھے وہ تو شنگھائی تعاون تنظیم کی دعوت پر گوا گئے تھے نہ انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات کی درخواست کی اور نہ ہی نریندر مودی سے ملنے کی آرزو کی۔ اگر دیکھا جائے تو بھارت کے لیے بلاول بھٹو کا دورہ ایک بڑا بوجھ تھا وہ تو یہ چاہتے تھے کہ پاکستانی وزیر خارجہ اس میں شرکت ہی نہ کریں۔
اس سے چین اور روس دونوں کو تشویش ہوتی مگر بھارت کو خوشی ہوتی۔ بھارت تو چاہتا ہی ہے کہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات خراب ہوں تاکہ وہ علاقے میں اپنی من مانی کرسکے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ایک بھارتی صحافی نے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے کہا کہ پاکستان کی شرکت کیوں ضروری ہے تو راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کے مطابق ہر ممبر ملک کو دعوت دیتا اور اس کے وزیر خارجہ یا سربراہ کو سیکیورٹی فراہم کرنا ضروری ہے۔ بلاول بھٹو کے دورے سے بھارت کو ضرور زک پہنچی ہے۔
اس لیے کہ اس وقت کرناٹک اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں بلاول بھٹو کے دورہ بھارت سے عوام کی ہمدردیاں ضرور بلاول کے ساتھ تھیں اس لیے کہ وہ اگرچہ پاکستانی ہیں مگر بے نظیر بھٹو کے فرزند ہیں۔
بے نظیر بھٹو کا بھارت کا ایک طبقہ بہت فین تھا ان کی شہادت کا بھی وہاں اس طبقے نے غم منایا تھا۔ بلاول بھٹو کے دورے سے اس بات کو تقویت ملی ہے کہ مسئلہ کشمیر ختم نہیں ہوا ہے جیساکہ اس وقت بھارت پراپیگنڈا کر رہا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ یہ خطہ کبھی متنازع تھا ہی نہیں یہ تو سدا سے بھارت کا حصہ ہے۔
بھارت کے اس پراپیگنڈے کو بہت نقصان پہنچا ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلاول نے وہاں کشمیر کی بات کرکے بھارت میں مسئلہ کشمیر کو پھر سے زندہ ہی نہیں کیا بلکہ ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ کشمیریوں کے حوصلے بڑھے ہیں اور وہ اب پہلے سے زیادہ سری نگر میں جی 20 سربراہی اجلاس کے انعقاد کی مخالفت کر رہے ہیں حال ہی میں وہاں مجاہدین کے ایک حملے میں پانچ فوجی مارے گئے ہیں۔
اس واقعے سے ثابت ہو گیا ہے کہ کشمیری اب بھی بھارت سے نفرت کرتے ہیں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خود اختیاری چاہتے ہیں۔ اب تو پلوامہ حملے کا پول بھی کھل چکا ہے۔ اس وقت کے ریاست جموں کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے واضح کردیا ہے کہ وہ اس حملے کے خلاف تھے مگر بی جے پی سرکار نے انھیں منہ بند رکھنے کے لیے کہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی صرف اور صرف مسلم اور پاکستان دشمنی پر بھارت میں حکومت کر رہی ہے ورنہ اس کی دہشت گردی سے خود بھارتی عوام نالاں ہیں۔ کانگریس نے تو واضح طور پر بی جے پی کے بغل بچہ بجرنگ دل پر پابندی لگانے کا اپنے انتخابی منشور میں ذکر کیا ہے۔ بی جے پی جو گاندھی کے قاتل کو ہیرو اور گاندھی کو ولن قرار دیتی ہے کس طرح بھارت کی دوست کہلائی جاسکتی ہے۔
بھارت کو آزادی دلانے میں گاندھی اور نہرو کا اہم کردار تھا جب کہ مہاسبھا اور آر ایس ایس انگریزوں کی پٹھو بنی ہوئی تھیں۔ بی جے پی حکومت نے جموں کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ صرف جنونی حرکت ہے۔
اس سے کیا مسئلہ کشمیر ختم ہوگیا؟ کیا سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے جموں کشمیر میں رائے شماری کرانے کی شق ختم ہوگئی ہے؟ ہماری طرف سے یہ کہنا یا اصرار کرنا کہ بھارت اپنے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کو ختم کرے اور جموں کشمیر کی پرانی حیثیت کو بحال کرے بلاجواز ہے کیونکہ پاکستان تو جموں کشمیر میں بھارت کے کسی بھی منفی اقدام کو قبول ہی نہیں کرتا اس لیے کہ اس کی ہر حرکت سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہے۔
نریندر مودی گوکہ بڑے فخر سے جی 20 کا سربراہی اجلاس سری نگر میں منعقد کرانے کی تیاری کر رہے ہیں مگر کئی بھارتی دانشور اور صحافی بھی اس کے خلاف ہیں۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے کہا ہے کہ کشمیر کا معاملہ دن بہ دن بھارت کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ کشمیر میں گروپ 20 کانفرنس کے انعقاد کا مقصد مقبوضہ وادی کے حالات کو معمول کے مطابق دکھانا مقصود ہے۔
انھوں نے میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مزید کہا کہ جموں کشمیر میں آزادی کی جدوجہد مقامی لوگ کر رہے ہیں اور اس میں کسی غیر ملکی ایجنسی کا کوئی کردار نہیں ہے۔
بلاول بھٹو کے حالیہ دورہ بھارت میں وزیر خارجہ جے شنکر نے پاکستان کو پھر دہشت گرد ملک قرار دیا ہے یہ دراصل بھارت سرکار کی مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کی آزادی پر پاکستانی نام نہاد دہشت گردی کے بیانیے کی آڑ میں پردہ ڈالنے کی پرانی حکمت عملی ہے مگر اب پوری دنیا بھارت کی کشمیریوں کے خلاف چالوں اور سازشوں سے باخبر ہو چکی ہے کچھ عرصہ پہلے جرمنی، ترکیہ، ملائیشیا اور چین کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت کشمیریوں کی بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بھی کامیابی ہے۔
سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے بلاول بھٹو کے شنگھائی تعاون کے اجلاس میں شرکت پر تنقید کی جا رہی ہے۔ بلاول کے سر کی قیمت مقرر ہونے کے باوجود ان کا وہاں جانا قابل تعریف ہے اور موت سے ڈرنے والوں کے لیے بے خوفی کی دبنگ مثال ہے۔