ملک میں سیاسی انتشار اپنے عروج پر ہے، سیاسی معاملات دن بہ دن بگڑتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں تعلیم یافتہ طبقہ بہت مایوس ہے، سیاسی عجلت پسندی کی وجہ سے مسائل پہاڑوں کی طرح بلند ہوتے جا رہے ہیں، بہتر ٹیکنالوجی لوگوں کے دل بدل دیتی ہے۔
ہمارے ہاں تو ٹیکنالوجی کو دفن کردیا گیا۔ آئین میں لکھے کو توجہ کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ مفلس اور تنگدست کو معلوم ہی نہیں کہ آئین میں کیا لکھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس آئین کو طلبا کے کورس میں علیحدہ سے ایک کتاب کی شکل میں لازمی قرار دیا جائے۔
میٹرک کے بعد اس کو فرسٹ ایئر سے لے کر ایم فل، پی ایچ ڈی تک کورس میں شامل کریں پھر یہ سیاسی لوگ جو آئین کے شادیانے بجاتے ہیں کہ آئین میں کیا ہے تو پھر یہ کولہو کا بیل نہیں رہے گا بے مقصد تصادم کا بھی خاتمہ ہوگا اور یہ سختیاں جھیلنے والی قوم اپنے حقوق کے لیے دل گرفتہ نہیں ہوگی اور آئین دستاویزات کی شکل اختیار کر لے گا قومی عدم تحفظ کا دور بھی ختم ہوگا مگر سیاسی طور پر یہ مشکل نظر آتا ہے۔
اب تو ہمارے ہاں معزز عدالتوں پر بھی تنقید ہو رہی ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے دکھ تو اس بات کا ہے کہ تجربے کار ہاتھوں میں قوم کی تقدیر لپٹی ہوئی ہے مگر وہ سیاسی طور پر ناتجربے کار نظر آتے ہیں لاقانونیت، مہنگائی، سیاسی افراتفری، غریب اب غربت کی دلدل میں پھنس گیا ہے کسی کو یہ توفیق نہیں کہ اسے نکالنے کی کوشش کرے بس اپنی بقا کے لیے لنگوٹ کس کر میدان عمل میں ہیں جب کہ پی ڈی ایم میں تقریباً تیرہ پارٹیاں شامل ہیں جو سب کے سب اسمبلیوں میں رہ چکے ہیں اتنا تجربہ ہونے کے باوجود ملکی حالات پریشان کن ہیں اور سیاستدان انا، خود داری، عزت نفس کی تذلیل اور توہین انسانیت میں لگے ہوئے ہیں۔
نہ جانے کب یہ قوم اس امتحان سے نکلے گی مگر کسی نے عوام سے یہ معلوم کرنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ وہ کیا چاہتے ہیں پوچھنے کی اس لیے زحمت نہیں کی جاتی کہ مسائل کے اندھیرے کنویں میں قوم موجود ہے ہاں جب الیکشن ہوں گے تو آپ کے مسائل کے ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہوئے انکشافات ہوں گے جو کسی بغیر ہچکچاہٹ کے ہوں گے اور قوم آہوں کراہوں سے سب برداشت کرے گی بے یار و مددگار عوام حیران ہو کر ان امیدواروں کے چہروں کو دیکھ رہی ہوگی۔
بھول بھلیاں کی معذرت کی گنتی اپنے عروج پر ہوگی وہی پرانی روایت کے مطابق والد کے بعد صاحبزادے دادا ابا کے بعد پوتے باپ کے بعد صاحبزادیاں غرض یہ بھی الیکشن کی ایک کڑی ہوگی صرف اپنے مفاد کو ذہن نشین کرنا بھی خود غرضی ہے جو لوگ اقتدار کی سیڑھی پر کھڑے ہیں انھیں قوم کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔
کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ اس قوم کے لیے الیکشن 2023 اکتوبر میں ہوں گے اور ستمبر میں کیا خوبصورتی سے مہنگائی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پٹرول کی قیمتوں میں واضح کمی ہو جائے گی، قیمتوں پر خوبصورتی سے کنٹرول کیا جائے گا اور یہ دیکھنا بھی ضروری ہوگا کہ جون 2023 میں جو بجٹ پیش کیا جائے گا اس میں قوم کی خواہشات پر عمل درآمد ہوگا کیونکہ بجٹ اس الیکشن کے لیے اہم ہوگا اور اس کے کیا نتائج ہوں گے اس سے صلاحیت کا پتا چلے گا کیا عوام آنے والے بجٹ سے مطمئن ہوں گے اور بجٹ کے بعد پھر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگا اور یہ بحث دماغوں کی ذہنیت بنے گی امید تو یہ ہے کہ وزارت خزانہ بجٹ میں غریبوں کو مراعات دے جو نظر آئے کیونکہ آنے والے الیکشن میں اس کا ایک بہت بڑا کردار ہوگا قوم تو امید سے ہے کہ اسے ناامید نہ کیا جائے سیاسی طور پر کوئی بھی کمزور فیصلہ سوچنے پر مجبور کردے گا کہ قوم تو جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی ہے۔
معاشرے کو اگر دیکھیں تو وہ مسائل کی ڈفلی بجا رہا ہے اور ہر جگہ خرابیاں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا سوشل میڈیا اور اخبارات بتاتے ہیں اب دیکھیں کہ مختلف ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے غریب تو ویران چہرہ لیے خلا میں گھور رہا ہے۔
امراض قلب، ذیابیطس، انسولین (شوگر کے مریضوں کے لیے) بے تحاشا اضافہ کیا گیا ہے وزارت قومی غذائی تحفظ کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ کینسر اور گردوں کی کچھ ادویات پر بھی اضافہ کیا گیا جس کی آمدنی 30,000 سے اوپر کرایہ کے مکان میں رہتا ہے والدین بڑھاپے کی دہلیز پر آخری مقام پر ہیں 30,000 میں اس کا کوئی بجٹ بنا کر دکھا دے، اس مہنگائی اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے وہ تو غربت کی آخری لکیر پر کھڑا ہے اور پھر خوشحال لوگ انھیں مفلس کہتے ہیں۔
الیکشن سیاسی اشرافیہ کے مسائل تو حل کرسکتے ہیں لیکن قوم کے مسائل بے شمار الیکشن بھی نہ حل کرسکے اور ماضی کی طرح ہر الیکشن اسی طرح گزر جائیں گے ہمارے ہاں سیاسی طور پر مسائل کا انبار ہے قوم حیرت زدہ ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے مردم شماری، لاقانونیت، مہنگائی، اداروں کی ناقص کارکردگی، کرپشن کی خبریں غرض سیاسی طور پر الزامات کی بھرمار ہے کوئی بھی اعتدال کا سودا کرنے کو تیار نہیں۔ قوم کے مسائل ایک بڑے دریائی پل کی طرح ہیں جو بے تحاشا مسائل کے پانی کو روکے ہوئے ہیںکس طرح نظام زندگی رواں دواں ہوگا جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
سیاسی طور پر خواتین اور مرد حضرات نے ایک دوسرے پر الزامات کی طویل قطار بندی کر رکھی ہے، کسی ایم این اے نے یہ نہیں کہا میں حلقے کے لیے دن رات ایک کردوں گا مایوسی کے چاند ستارے سب چمک دمک کا شکار ہیں آنیوالے الیکشن میں وہ کسی بھی جماعت کا امیدوار ہو حلقے میں قوم کو کیا جواب دے گا ہمیں دوسروں کے حالات دیکھ کر نصیحت کا سبق یاد کرنا چاہیے کسی کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا خود اعلیٰ ظرف ہونے کی نشانی ہے مگر ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں جو صلاحیت کو جمہوریت میں گزشتہ 30 سال سے تلاش کر رہے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کو صرف انکساری خلوص اور کفایت شعاری سے زندگی گزارنے کا پیغام دیا جاتا ہے انکساری تو جب ہوگی جب لاقانونیت ختم ہوگی کفایت شعاری تو جب ہوگی جب مسائل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تقسیم انصاف کا انتظار کرتے رہیں، یہی ہماری زندگی کا محور ہے۔