کھٹ پٹ
اگرچہ ’’منزل مقصود‘‘ دونوں ڈھیریوں کی ایک ہی ہوتی لیکن پھر بھی گاؤں والے عید یا جمعہ کو دودو ڈھیریاں بناتے ہیں
یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ علامہ بریانی عرف برڈ فلو پر کوئی نہ کوئی تہمت لگانا قہرخداوندی چشم گل چشم کا روزکا کام ہے، کم بخت نہ جانے کہاں کہاں سے کیسی کیسی تہمتیں لاکر بیچارے علامہ پر چپکاتا رہتا ہے۔
ادھر علامہ کو خدا نے ایسی چیز بنارکھا ہے کہ ہرقسم کی تہمت اس پر ایسی چپک جاتی ہے جیسے وہ تہمت علامہ ہی کے لیے بنی ہو، یا ہر قسم کی تہمت اورعلامہ دو جڑواں بھائی ہوں جو کسی میلے میں بچھڑگئے تھے اور اب دونوں نے ایک دوسرے کو پالیا ہو ۔جو تازہ ترین تہمت خدامارے نے علامہ پر لگائی ہے اگرچہ منطقی لحاظ سے درست ہے لیکن ہمیں پسند نہیں آئی ہے۔
دراصل اس عید پر نماز سے پہلے محراب ومنبر کے پاس نقدی کی جو ڈھیریاں حسب معمول لگی تھیں، ان میں علامہ والی ڈھیری مسجد کی ڈھیری سے اونچائی اور پھیلاؤ میں دونوں زیادہ تھی اور رنگین بھی بہت تھی۔
اگر چہ ''منزل مقصود'' دونوں ڈھیریوں کی ایک ہی ہوتی لیکن پھر بھی گاؤں والے عید یا جمعہ کو دودو ڈھیریاں بناتے ہیں، ایک مسجد کے لیے اورایک استاد کے لیے،اس مرتبہ استاد کی ڈھیری کو اونچا ہوتے دیکھ کر قہرخداوندی نے حسب معمول ایک شوشہ چھوڑا۔ استاد کی ڈھیری کی اونچائی اس لیے زیادہ تھی کہ اس مرتبہ علامہ نے سحری کے بعد جو خطبے دیے۔
ان میں پہلے کی طرح دوزخ کاخوف اور جنت کی لالچ برابر نہیں تھے بلکہ صرف جنت کی نعمتوں کاذکر کچھ زیادہ شرح وبسط کے ساتھ ہوتا تھا اور حصول کو بھی نہایت سہل کردیاگیا تھا، ''انفاق فی سبیل اللہ '' یعنی اللہ کے نام پرخرچ کرنا ، ظاہرہے کہ بڈھے اورسب کچھ جی بھر کر ''کرنے'' کے بعد ریٹائرڈ لوگوں کاپسندیدہ موضوع یہی ہے۔
یہی وجہ تھی استاد والی ڈھیری کی بلندی چوڑائی اور پھیلاؤ میں زیادہ تھی اور یہی ڈھیری تھی جس نے قہرخداوندی کو اس بالکل ہی نئے اوردلچسپ شوشے چھوڑنے پر ابھارا۔ یہ ''شوشہ''بظاہرایک سوال کی صورت میں تھا جو قہرخداوندی نے مزاحیہ اندازمیں کیا تھا لیکن پھر یہ شوشہ پورے گاؤں بلکہ علاقے میں پھیل گیا۔
قہرخداوندی نے یونہی علامہ سے پوچھا تھا کہ ذرا یہ تو بتاؤ کہ جو تراویح اورنمازیں آپ نے رمضان میں پڑھیں یا لوگوں کو پڑھائیں ،اس کا معاوضہ تو آپ نے لوگوں سے وصول کیا لیکن آپ کی اتنی نمازیں اورتراویح کا کیا ہوا ؟ آخر آپ بھی مسلمان ہیں اوریہی نمازیں آپ پر بھی فرض ہیں بطورپیش امام تو ایک طرح سے مزدوری کی اور لوگوں کو پڑھائیں لیکن آپ اپنے حصے کی یہ یہ عبادتیں کب اورکہاں کرتے ہیں۔
پھر اس نے بات کو مزید دوآتشہ اور تیزدھار بنانے کے لیے کہا ، مثال کے طور پر ایک مزدور دیہاڑی پر جاتاہے کسی کے کھیت میں گوڈی نلائی کرتا ہے، پانی لگاتاہے ،کھاد ڈالتاہے یاکوئی اورکام۔ تو اس کافائدہ تو اس کھیت والے کو پہنچا، اس مزدور نے تو مزدوری لی اورچلاگیا،اس گوڈی نلائی کافائدہ مزدورکے اپنے کھیت کو نہیں پہنچ سکتا۔
اسی طرح اجرتی،اجرت لے کر کام کرتاہے یاکام کرکے اجرت لیتاہے تو فائدہ تو اجرت دینے والے کو پہنچتا ہے، اجرتی کو تو صرف اجرت ملتی ہے، اب آپ بتائیں کہ یہاں مسجد میں آپ نے لوگوں کو نماز تراویح پڑھائی اورمعاوضہ لے لیا، لیکن اپنی نمازیں اور تراویح تو آپ کو الگ سے پڑھنا چاہیے۔
اس وقت تو علامہ نے حسب معمول اس کا جواب اپنے مخصوص اندازاور الفاظ میں دے دیا جو علامہ نے اس کے لیے اپنے منہ میں مستقل لوڈ کیے ہوئے ہیں ،زندیق گمراہ،شیطان وغیرہ لیکن بات چوں کہ کچھ مصالحے دار تھی اس لیے پرواز کرگئی۔ چنانچہ آج کل گاؤں میں یہی چرچے چل رہے ہیں کہ تنخواہ لے کر اگر کوئی کسی کو کچھ پڑھاتاہے تو اس کاتو معاوضہ لے گیا لیکن وہ اپنے حصے کی نماز اورعبادت کب اورکہاں کرتا ہے۔
علامہ سے اگر کوئی پوچھتاہے کہ یہ قہرخداوندی جو کچھ کہہ رہاہے اس کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے توان کے پاس تو ریڈی میڈ جواب بلکہ جوابات موجود ہیں، وہ تو گمراہ ہے، وہ تو شیطان ہے لیکن زیادہ تر جو الفاظ استعمال کرتاہے وہ مناسب نہیں، لیکن جواب میں قہرخداوندی بھی تول میں برابر ہے، وہ علامہ کا ذکر کرتے ہوئے اکثر طنزیہ الفاظ استعمال کرتا ہے۔
کئی لوگوں نے اسے سمجھایا بھی ہے کہ یہ لفظ درست اس طرح استعمال ہوتا ہے لیکن جواب میں قہرخداوندی وضاحت کرتاہے کہ میں تو عامی امی آدمی ہوں، عربی الفاظ کا صحیح تلفظ نہیں کرسکتا۔
ویسے کم ازکم اس موجودہ بحران میں۔ زیادتی قہرخداوندی کررہاہے ،آخر کیا ہوا اگر علامہ والی ڈھیری بلند ہوگئی اس کا اس میں کیا جاتاہے جو خواہ مخواہ جل کڑھ رہا ہے۔