ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
ہم بہ حیثیت قوم جہاں آن پہنچے ہیں، وہاں سے اگلا راستہ مشکلات اور مایوسیوں سے اٹا ہوا ہے
زندگی میں معمول بھی عجیب شئے ہے، شب و روز جن مشاغل اور اسباب کے ساتھ وقت گذرتا ہے ان کے ہونے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ موجود نہ ہوں۔ ہوا، پانی، سونا، جاگنا، سانس لینا وغیرہ، ان کے ہونے کا احساس تبھی ہوتا ہے جب ان کے نہ ہونے یا ہونے میں خلل واقع ہو جائے۔
ماڈرن زمانے کی دیگر ایسی ہی سہولیات میں جمہوریت ، انٹر نیٹ، سوشل میڈیا، واٹس اپ، آن لائن فوڈ آرڈر وغیرہ کو بھی ہم اسی فہرست میں شامل سمجھتے آئے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔ تاہم گزشتہ چند روز سے جہاں ملک میں اور بہت کچھ نشانے پر تھا، اس ہاؤ ہو میں حکومت نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو بھی نشانے پر لے لیا ۔
سوشل میڈیا پر پابندی کے بعد معاً ہمیں معلوم ہوا کہ ہم نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات، کے بارے میں جس طرح فیض احمد فیض کی غلط فہمی دور ہوئی، ان ہنگامہ خیز دنوں میں سوشل میڈیا کی بندش کے بعد ہماری غلط فہمی بھی دور ہوئی کہ سوشل میڈیا کے سوا دہر میں رکھا کیا ہے؟ کہاں یہ عالم کہ گھنٹوں وقت گذرنے کا احساس نہ ہوتا، موبائل فون پر ہفتہ وار اسکرین ٹائم کی تفصیل سامنے آتی تو یہ کہہ کر دل کو سمجھاتے کہ گور پیا کوئی ہور!
ٹی وی پر بار بار وہی خوفناک مناظر دیکھ کر دل گھبرایا، فون کے طوطے کی روح میں انٹرنیٹ کی نارسائی نے ناچار ہمیں کتابوں کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ۔ اس بہانے یہ محاورہ بھی سمجھ آ گیا کہ کتاب بہترین رفیق ہے۔ ناصر کاظمی کا مخمصہ تھا کہ
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ہم ایسے سادہ لوحوں کے بھی موسم اندر سے پھوٹتے ہیں۔ جو کچھ ملک میں چند سال سے ہورہا ہے اور جس انداز میں ہو رہا ہے، اس کا اگلا قدم کچھ ایسا ہی ممکن تھا؛ انتشار، فساد، تقسیم اور شدید منافرت۔ اندر کے موسمِ یاس کا ثمر تھا یا روشنی کی کرنوں کا قحط، ہماری نظر اپنی لائبریری میں دو کتابوں کی طرف گئی۔
اول کتاب کا نام ابنِ خلدون؛ حیات و آثار۔ ورق گردانی کے دوران ایک موضوع پر نظر پڑی؛ سلطنت کی کہن سالی ۔ پڑھنا شروع کیا تو یوں لگا جیسے4ویں صدی کا دانشور اکیسویں صدی کے پاکستان کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔
جب ایک سلطنت پر بڑھاپا آتا ہے تو اس میں گروہی شعور باقی نہیں رہتا اور لوگوں کے دلوں میں اس کی جگہ شان و شوکت لے لیتی ہے۔ جب گروہی شعور کے کمزور پڑنے کے علاوہ یہ شان و شوکت بھی جاتی رہے تو رعایا سلطنت کے خلاف دلیر اور بے باک ہو جاتی ہے، اس لیے کہ شان و شوکت کا سارا وہم جاتا رہتا ہے۔
ابنِ خلدون کی رائے میں جس طرح انسان پر شباب آتا ہے اوراس کے بعد ضعیفی، اسی طرح قومیں بھی اس قسم کی منازل سے گزرتی ہیں۔ البتہ قوموں کے عمر رسیدہ (کہن سالی) اور کمزور ہونے کے کچھ معاشی اسباب بھی ہیں جن میںنمایاں ترین؛ اول، عیش و عشرت کے مشاغل میں غیر ضروری اضافہ، دوم، عصبیت (یعنی وہ قوت جو کسی قوم میں محبت، اخوت اور یک جہتی کے شدید احساس سے پیدا ہوتی ہے) میں کمی، سوم، معاشی بد اعمالی۔ اس پر ہمیں خدا جانے کہاں سے آئی ایم ایف یاد آ گیا، طبیعت مکدر ہوئی تو ہم نے یہ کتاب واپس رکھ دی۔
دوسری کتاب اٹھائی؛ ترک نژاد ڈیرن آسے موغلو Daron Acemoglu اور جیمس رابنسن کی شہرہ آفاق تصنیف قومیں کیونکر زوال کی نذر ہوتی ہیں یعنی Why Nations Fail ۔ دونوں پولیٹیکل اکونومسٹ ہیں، نامور یونی ورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ، اب دونوں معروف ترین یونی ورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں۔
ڈیرن آسے موغلو مشہور زمانہ یونی ورسٹی ایم آئی ٹی میں جب کہ جیمز رابنسن یونیورسٹی آف شکاگو میں پروفیسر ہیں۔ 2012 میںاشاعت سے لے کر اس کتاب کی شہرت اور اس کے مندرجات سے دلچسپی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
اس کتاب میں دونوں مصنفین نے عرق ریزی سے کئی صدیوں پر محیط تاریخ ، سیاست اور معیشت کو کھنگال کر یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آخر قوموں کی زندگی میں طاقت، خو ش حالی اور غربت کے سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ کچھ ممالک میں لوگ غریب ہیں اور زندگی ان کا سب سے بڑا روگ، جب کہ کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں معاشرے میں خوشحالی ہے اور خوشحالی کے ثمرات بہت حد تک سماج میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
انھوں نے کونگو اور زمباوے کی مثالیں دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ملکوں کی تنگ دستی اور غربت کا دارو مدار بہت حد تک اس بات پر ہوتا ہے کہ سماج اور ریاست میں ادارے گنی چنی اشرافیہ کے استحصالی وسیلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں یا سماج کے وسیع تر مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔
اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ قومیں اس وقت زوال کی گھاٹی کی طرف لڑھکنا شروع کر دیتی ہیں جب معیشت اور حکومت کے ادارے معاشرے کے وسیع تر مفاد کے بجائے اقلیتی اشرافیہ کے استحصال کا ذریعہ بن جائیں اور معاشی ترقی کے ثمرات کو فقط ان تک محدود کرنے کا باعث بن جائیں۔
اداروں کا کردار اگر استحصالی طبقے کی خدمت گزاری بن جائے تو زوال لازم اور اگر معیشت اور سماجی انصاف کے ادارے عمومی مفاد کے ضامن اور باعث بن جائیں تو معاشی ترقی اور استحکام کا زینہ ثابت ہوتے ہیں۔
ہم بہ حیثیت قوم جہاں آن پہنچے ہیں، وہاں سے اگلا راستہ مشکلات اور مایوسیوں سے اٹا ہوا ہے۔ یہاں تک کیسے پہنچے،؟ موسم اور جمہوریت کی طرح اس نکتے پر ہر شہری کی اپنی اپنی رائے ہے۔
نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ اس پر بھی ہر شہری کی اپنی اپنی رائے ہے لیکن ابن خلدون، ڈیرن اور جیمز کی سن لینے میں کوئی حرج نہیں۔ رہا ہمارے موجودہ احوال کا قصہ تو بقول خورشید رضوی؛
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے