''کیا بات ہے، کیوں پریشان ہو؟''
میرے سوال پر وہ چونک سا گیا اور بس اتنا کہا ''بھائی بائیک یہاں کھڑی کی تھی، اب نہیں ہے''۔ اور اتنا کہہ کر اس کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ پچیس تیس سال کا یہ نوجوان ہاتھ میں فائل اٹھائے پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔
''بھائی کافی وقت سے بے روزگار ہوں، آج یہاں نوکری کی خاطر دوست کی بائیک لے کر آیا تھا، بائیک سائیڈ پر کھڑی کی اور انٹرویو دینے چلا گیا، جب باہر نکلا تو بائیک نہیں مل رہی۔ لوگ بتا رہے ہیں کہ ٹریفک پولیس والے لے گئے ہیں۔ مگر یہاں تو کوئی روڈ جام نہیں ہورہا، نہ ہی کہیں پر لکھا ہے کہ یہاں بائیک کھڑی کرنا منع ہے، پھر بھی میری بائیک اٹھا کر لے گئے''۔ وہ تھوڑی دیر رکا، آنکھوں سے نمی صاف کی اور پھر کہا ''صبح گھر سے صرف پانچ سو روپے لے کر نکلا تھا، تین سو روپے کا پٹرول ڈلوا دیا، اور اب یہاں سے بائیک لے گئے ہیں، چوکی پر تین چار سو روپے مانگیں گے اور میرے پاس صرف دو سو روپے ہیں''۔
اس مجبور نوجوان کے دل سے کتنی بددعائیں اور کتنی آہیں نکلی ہوں گی جو ٹریفک پولیس کےلیے کب باعث عذاب بنیں گی، یہ کوئی نہیں جانتا۔ مگر کراچی میں لگتا ہے جیسے قانون صرف غریب کےلیے رہ گیا ہے۔ یہاں جتنا ہوسکتا ہے غریب کو نچوڑ کر لوٹا جاتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار پہلے ہی پٹرول کے اضافی بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اوپر سے بائیک لفٹنگ اور ٹریفک پولیس کے جگہ جگہ میلے کسی مصیبت سے کم نہیں۔
ٹریفک پولیس کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی جیبیں کبھی خالی نہیں ہوتیں۔ اور یہ بات اب تقریباً درست بھی معلوم ہوتی ہے۔ جگہ جگہ ٹریفک پولیس کا میلہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انہیں ٹریفک کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں، بلکہ انہیں ہر موٹر سائیکل سوار سے عشق ہے۔ ٹریفک میلے میں ہر موٹر سائیکل سوار اور لوڈنگ سوزوکی کو بانہیں پھیلا کر خوش آمدید کہنے کےلیے چاروں طرف سے ٹریفک اہلکار اچانک سے سامنے آجاتے ہیں۔
جس گلی میں آپ کو کوئی بندہ نظر نہیں آئے گا، وہاں یہ کونے کھانچے میں چھپ کر میلہ لگا لیتے ہیں اور جیسے ہی کوئی بھولا بھٹکا موٹر سائیکل سوار وہاں سے گزرے، یہ میلے والے لوگ انہیں چاروں طرف سے گھیر کر سب سے پہلے بائیک کی چابی نکال کر اس کا استقبال کرتے ہیں، جس کے بعد اس سے بائیک کے پیپر مانگے جانتے ہیں، بائیک کے کاغذات اگر مل جائیں تو انہیں پھر بھی مایوسی نہیں ہوتی، بلکہ مسکرا کر پھر ہیلمٹ کا سوال ہوتا ہے، اگر اتفاق سے ہیلمٹ بھی موجود ہو تو پھر تیسرا وار لائسنس کا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شریف آدمی یہ تمام کاغذات کے ساتھ میلے میں شرکت کرلے تو بھی وہ اس میلے میں نوٹ نچھاور کیے بغیر نہیں جاسکتا۔ کیوں کہ ان کا آخری وار سیدھا نشانے پر لگتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ بائیک کے انڈیکیٹر کیوں ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اب تو چالان ہوگا۔
ٹریفک پولیس کے یہ میلے پہلے صرف سڑکوں پر نظرآتے تھے، مگر اب یہ حال ہے کہ گلی محلوں میں بھی یہ منظر عام سی بات ہوگئی ہے۔ سٹی کورٹ کے پیچھے والی گلی میں جہاں کار پارکنگ ہے، وہاں بھی یہ میلہ لگتا ہے جہاں سے کافی کمائی ہوتی ہے۔ اس کے بعد نیپئر روڈ کے دونوں اطراف چار چار اہلکار اور ایک سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا ہوکر آنے جانے والے موٹر سائیکل سواروں کےلیے ایک عذاب کی شکل اختیار کیے کھڑا ملتا ہے۔ وہاں سے بچ کر نکلنے والا لی مارکیٹ میں تو کبھی بچ نہیں سکتا۔ وہاں پر لگے میلے میں ان بائیک سواروں کا اس طرح استقبال کیا جاتا ہے کہ بندہ مجبور ہوکر جیب سے سو روپے نکال کر ہی اپنی جان بخشواتا ہے۔ اسی طرح برنس روڈ سے پہلے سگنل پر بھی یہ میلہ کافی وقت سے موٹر سائیکل سواروں کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔
آرٹس کونسل کا ٹریفک پولیس میلہ سب سے بڑا تصور کیا جاتا ہے، جہاں چوک کے چاروں طرف یہ میلہ لگتا ہے، جہاں سے کوئی بھی بچ کر نہیں نکل سکتا۔ سٹی ریلوے اسٹیشن، کینٹ ریلوے اسٹیشن، جناح اسپتال کے مین گیٹ کے سامنے، جناح اسپتال سے کالا پل جاتے ہوئے، قائداعظم میوزیم پارک کے پاس، صدر ایمپریس مارکیٹ، رسالہ تھانہ کی حدود سول اسپتال اور ایس آئی یو ٹی کے اطراف، مین ٹاور، اولڈ حاجی کیمپ، بلدیہ ٹاؤن مواچھ موڑ، روبی موڑ پر صبح، دوپہر یا شام کے کسی وقت بھی یہ میلہ اچانک سے لگ جاتا ہے۔ جہاں ان کا مقصد صرف میلے میں موٹر سائیکل سواروں کو لوٹنا ہے۔
ٹریفک پولیس کے یہ میلے جہاں عام شہریوں کےلیے عذاب بنتے جارہے ہیں، وہیں ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہوتا جارہا ہے۔ مین شاہراہوں پر بدترین ٹریفک معمول کی بات بن چکا ہے، مگر یہ ٹریفک اہلکار صرف میلہ لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ عام شہری گھنٹوں ٹریفک میں پھنسنے کے بعد جیسے ہی ان کے میلے سے قریب سے گزرتے ہیں، وہیں انہیں دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا جاتا ہے۔ میٹھادر اور کھارادر پولیس اسٹیشن کے باہر یہ میلہ تقریباً صبح نو بجے سے رات دس بجے تک معمول کے مطابق لگا رہتا ہے۔ ایم اے جناح روڈ اور بولٹن مارکیٹ روڈ پر بھی ٹریفک کے معاملات آج تک درست نہ ہوسکے، مگر افسوس کی بات ہے کہ یہاں بھی ٹریفک پولیس کے میلے موٹر سائیکل سواروں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف رہتے ہیں۔
گلبائی سے آئی سی سی روڈ پر آنے والا ٹریفک بڑی گاڑیوں کے باعث کافی حد تک جام رہتا ہے، تاہم آگرہ تاج چوکی پر بھی میلہ لگا رہتا ہے، جو صرف اور صرف موٹر سائیکل سواروں کےلیے ہی خصوصی طور پر سجایا جاتا ہے۔ اسی طرح آئی سی سی پل پر بنی ٹریفک پولیس چوکی بھی کسی سے پیچھے نہیں، یہاں بھی میلہ سجا رہتا ہے۔ ان تینوں جگہوں پر ٹریفک پولیس کے میلے میں پولیس بھی شانہ بشانہ نظر آتی ہے۔ اور ان کا مقصد بھی صرف میلے سے ہونے والی کمائی ہے۔ یہ صرف چند جگہیں بتائی گئی ہیں، تاہم یہ سلسلہ پورے کراچی میں پھیلا ہوا ہے۔
ٹریفک پولیس کا کام ٹریفک کو کنٹرول کرنا ہے، نہ کہ موٹرسائیکل سواروں کے ہیلمٹ اور ان کے لائسنس چیک کرتے رہنا۔ شہر میں جگہ جگہ بدترین ٹریفک جام روز کا معمول بنا ہوا ہے، منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہورہا ہے، مگر یہاں ٹریفک پولیس ٹریفک کو رواں رکھنے کے بجائے جگہ جگہ موٹر سائیکل سواروں کو چیک کرکے انہیں بلاجواز پریشان کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، مگر ان کے حالات دن بدن اچھے سے اچھے ہوتے جارہے ہیں۔
کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام پرائیوٹ اور غیر مقامی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، یہ اپنی مرضی سے گاڑیاں چلاتے ہیں، ان کی بدتمیزیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ عوام بدترین ٹریفک جام میں گھنٹوں پھنسے رہتے ہیں۔ ان سب مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے اگر ایک عام شہری اپنی سستی سواری پر دفتر اور کام پر آنے جانے کےلیے بائیک کا استعمال کرتا ہے تو اس سستی سواری کا مہینے کا خرچہ ایک لگژری کار سے کم نہیں ہوتا۔ جگہ جگہ ٹریفک اہلکار ان ہی کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ جگہ جگہ بائیک لفٹنگ کا دھندہ عروج پر پہنچا ہوا ہے، جگہ جگہ غیر قانونی پارکنگ فیس الگ وصول کی جارہی ہے، اور ان سب کو دیکھتے ہوئے بھی ڈی آئی جی ٹریفک پولیس نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ لوگوں کو ایک گلاس شربت پلا کر یہ سمجھا جارہا ہے کہ عوام سے محبت ہے، مگر درحقیقت یہ ایک ظلم کے سوا کچھ نہیں۔
کراچی کا نوجوان اب ان حالات سے باغی ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی اور لوٹ کھسوٹ سے پورے مہینے کا بجٹ آؤٹ ہوتا جارہا ہے، ایسے میں نوجوان طبقہ ذہنی ڈپریشن کا شکار نہ ہو تو اور کیا ہو۔ میری سندھ حکومت، وزیر داخلہ، آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی ٹریفک پولیس سے التجا ہے کہ وہ ان معاملات کو بھی دیکھیں اور نوجوانوں کو اگر کوئی ریلیف نہیں دے سکتے تو کم از کم انہیں اس مصیبت سے ہی نجات دلادیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔