پاکستان کا غیرمستحکم نظام

پاکستان میں نظام انصاف سیاسی مقدمات میں الجھا ہوا ہے، جب کہ پاکستان کے شہریوں کے مقدمات سرد خانے میں پڑے ہیں


Editorial May 14, 2023
پاکستان میں نظام انصاف سیاسی مقدمات میں الجھا ہوا ہے، جب کہ پاکستان کے شہریوں کے مقدمات سرد خانے میں پڑے ہیں۔ فوٹو:فائل

پاکستان میں جاری شدید سیاسی عدم استحکام اور انتشار کے دوران ہی بجٹ کا مرحلہ سر پر آپہنچا ہے۔اگلے ماہ بجٹ پیش کردیا جائے گا۔ادھر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات سو فیصد طے نہیں ہوئے اور حتمی معاہدہ تاحال نہیں ہوسکا ہے۔

میڈیا کی ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف کی ترجمان جولیئس کوزیک نے آن لائن پریس کانفرنس نے دوران بتایا ہے کہ پاکستان کو نویں اقتصادی جائزے کی کامیابی کے لیے اضافی فنڈنگ کی ضرورت ہے اور اسٹاف سطع کے معاہدے سے قبل پاکستان کو دوست ممالک سے فنڈنگ کی یقین دہانی درکار ہے۔

پاکستان سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے آئی ایم ایف ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بیرونی شراکت داروں کی طرف سے طے شدہ فنانسنگ خوش آیند ہے اور دوست ممالک سے پاکستان کی فنڈنگ کا خیر مقدم کریں گے۔

آئی ایم ایف ترجمان نے کہا کہ 9 ویں جائزے کی کامیابی کے لیے پاکستان کو اضافی فنڈنگ کی ضرورت ہے، حکام 9 ویں جائزے کو مکمل کرنے کے لیے پروگرام کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستانی حکام کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں، پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کی لیے ادائیگیوں کی ضرورت ہے۔

جولیئس کوزیک کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت جمود کا شکار ہے اور پاکستان کو بہت زیادہ مالی ضروریات درپیش ہیں، پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کی معیشت کو سیلاب سے سنگین نقصان پہنچا ہے، پاکستان کی معیشت سبسڈیز اور ٹیکس کی مزید چھوٹ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔

آئی ایم ایف ترجمان نے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا ہے ، ان خیالات میں امید کی روشنی بھی نظر آتی ہے اور خدشات کا اظہار بھی پایا جاتا ہے۔دوست ممالک پاکستان کی مدد کررہے ہیں، یہ حوصلہ افزاء بات ہے تاہم آئی ایم ایف حکام معاملات کو پیچیدہ بنانے کی کوشش نہ کریں تو حالات درست ہوجائیں گے لیکن اگر ہر اجلاس میں کوئی نہ کوئی شرط عائد کرنے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت پر دباوبڑھ جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے معاہدہ کرنا ہے تو کرے، اگر نہیں کرنا چاہتا، تو نہ کرے ،ہم اس کے مطالبے پر مزید مشکل فیصلے نہیں کرسکتے،مئی اور جون میں 3.7 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیوں کا پلان ہے،3.7 کی ادائیگیوں میں کوئی پریشانی نہیں۔

میڈیا سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے جتنے پیشگی اقدامات کہے کرلیے، اب مزید نہیں کرسکتے۔انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف نے معاہدہ کرنا ہے تو کرے، اگر نہیں کرنا چاہتا، تو نہ کرے، اس کے مطالبے پر ہم مزید مشکل فیصلے نہیں کر سکتے۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ چین پاکستان کا مزید 2.4 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کر دے گا۔ انھوں نے بتایا کہ بجٹ 9 جون کو پیش کیا جائے گا۔ ایسا ردعمل آنا فطری عمل ہے۔ پاکستان کی حکومت شدید مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے۔

اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں بھی جانا ہے، اس لیے ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دے کر الیکشن میں جائیں تو الیکشن میں وہ اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔اس دوران جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوپاتا تو عوام کو مزید تسلی دینا مشکل ہوجاتا ہے، شاید اسی وجہ سے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ہم مزید مشکل فیصلے نہیں کرسکتے۔

آئی ایم ایف کو پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں لچک پیدا کرنی چاہیے تاکہ حکومت معیشت کو استحکام بھی دے سکے اور اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے مارے عوام کو ریلیف بھی فراہم کرسکے۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان بدستور جاری ہے، وفاقی ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.27فیصد اضافہ ہواہے جب کہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 48.02فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، ملک میں 44 ہزار روپے سے زائد ماہانہ آمدن والوں کے لیے مہنگائی کی شرح 49.43 فیصد رہی ہے۔

سالانہ بنیادوں پر 17 ہزار 732روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح میں43.67فیصد، 17 ہزار 733روپے سے 22 ہزار 888روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح میں47.61فیصد، 22 ہزار 889روپے سے 29 ہزار 517 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح میں46.96فیصد، 29 ہزار 518روپے سے 44ہزار 175 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 46.99فیصد رہی جب کہ 44 ہزار 176روپے ماہانہ سے زائد آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 49.43فیصدرہی ہے۔

مہنگائی کی اس لہر میں ڈالر کی قدر میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا، ڈالر کی روپے کے مقابلے میں شرح تبادلہ ایک ڈالر تین سو روپے تک پہنچ گئی لیکن گزشتہ روز ڈالر نیچے آنا شروع ہوا۔ جمعہ کو روپے کے مقابلے میں 286روپے سے بھی نیچے آگئے اور اوپن ریٹ بھی 292روپے کی سطح پر آگیا۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف معاہدہ ہونے یا نہ ہونے کے باوجود پاکستان کے نادھندہ نہ ہونے کے علاوہ مئی اور جون میں 3.7 ارب ڈالر کی بروقت ادائیگیوں کا انتظام ہونے کے بیان، چین سے مزید قرضوں کی موخر ادائیگیوں کی سہولت ملنے اور دوست ممالک کی فنانسنگ کے وعدے جلد پورے ہونے کی بھی امید ظاہر کیے جانے سے زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں استحکام رہا۔

پاکستان کا معاشی بحران سیاسی بحران کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن سیاسی عدم استحکام بدستور جاری ہے بلکہ اب یہ بحران جلاؤ گھیراؤ کی شکل اختیار کرگیا ہے۔عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت نے غیرسیاسی طرزعمل اختیار کیااور اپنے کارکنوں کو جلاؤ گھیراؤ پر اکسایا،یہ کارکن جتھوں کی صورت میں سرکاری اور نجی املاک کو ٹارگٹ کرکے انھیں جلاتے رہے اور وہاں موجود سامان کی لوٹ مار کرتے رہے۔

کسی سیاسی جماعت کی قیادت اپنے کارکنوں کو کبھی یہ نہیں کہتی ہے کہ فلاں عمارت کی طرف چلو، اندر گھس جاؤ،یہ طرز عمل عامیانہ اور تھڑے بازوں کا تو ہوسکتا ہے ، کسی سیاستدان اور سیاسی ورکر کا ایسا طرز عمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ملک کی پاپولر سیاست کرنے والی جماعتیں بھی اگر توڑپھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی راہ پر چل نکلیں گی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

سرکاری املاک کو ٹارگٹ کر کے ان پر دھاوا بولنا اور اسے آگ لگانا، وہاں موجود اشیاء کی لوٹ مار کرنا، نجی شاپنگ مالز پر دھاوا بولنا، دنیا بھر میں سیاسی عمل نہیں سمجھا جاتا۔ جن سیاسی جماعتوں کی قیادت نے یہ طریقہ اختیار کیا، بالآخر عوام نے انھیں مکمل طور پر فراموش کر دیا۔ اس لیے ملک کی تمام سیاسی قیادت کو اپنے طرزعمل کا جائزہ لینا چاہیے۔

پاکستان میں نظام انصاف سیاسی مقدمات میں الجھا ہوا ہے، جب کہ پاکستان کے شہریوں کے مقدمات سرد خانے میں پڑے ہیں۔ نچلی سے اوپر سطح تک سائلین مایوسی کا شکار ہیں۔ ماتحت عدلیہ میں پیش ہونے والے ملزمان اور مدعیان کی حفاظت کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔ اسی طرح ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان بھی غیرمحفوظ ہوتے ہیں۔

پاکستان میں آئے روز ماتحت عدلیہ کے احاطے میں قتل کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ حتیٰ کہ احاطہ عدالت سے سنگین جرائم میں گرفتار ملزمان فرار بھی ہو جاتے ہیں۔ کئی بار ضمانت کی منسوخی پر ملزم بآسانی عدالت سے فرار ہو جاتا ہے۔

ایسے حالات کو درست کرنے کے لیے کسی نے توجہ نہیں دی۔ اعلیٰ عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو جاتی ہے، سیاست دان اپنی گرفتاریوں سے بچنے کے لیے دھڑادھڑ عبوری ضمانتیں کروانے میں لگے ہوئے ہیں، سیاسی ایشو کو لے کرعدالت میں درخواستیں دائر کرتے ہیں اور ان مقدمات کی فوری سماعت بھی شروع ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کا نظام عدل اپنی اندرونی کمزوریوں اور خامیوں کی وجہ سے لرز رہا ہے۔

بااثر وکلاء کے چیمبرز ججز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وکلاء کی فیسوں کا بھی کوئی اصول اور ضابطہ موجود نہیں ہے۔ جس کی جو مرضی ہے، وہ قیمت وصول کر لیتا ہے۔ اس وقت صرف سیاسی قیادت کو ہی غیرذمے دار قرار نہیں دیا جا سکتا، اس کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے بھی اپنے احتساب کے طریقہ کار تبدیل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں