تنگ آمد بجنگ آمد
غور طلب بات ہے کہ خان صاحب کے چاہنے والوں نے جو ریاست دشمنی کے کام کیے ہیں، ان کی وجہ سے وہ کھل کرسامنے آگئے
جو ریاستیں آئین کو معتبر مانتی ہیں، آئین پر چلتی ہیں، ان ریاستوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا جو آج اس ملک کے ساتھ ہورہا ہے اور جو آئین اپنے آ پ میں آئین ہوتے ہیں، ان کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوتا۔
درست بیان دیا آئی ایس پی آر نے کہ پچھتر سالوں میں جو کام ہمارے خلاف دشمن نہ کر پایا وہ کام اقتدار کی ہوس میں ایک گروہ نے کر دکھایا۔ اگر خان صاحب کی گرفتار ی درست تھی اور گرفتاری کا طریقہ کار غلط تھا، تو پھر ان کو اس کیس میںضمانت کیوں ملی ؟ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جو آداب ان کے حضور میں پیش کیے وہ بھی روایت تو نہیں!
غور طلب بات ہے کہ خان صاحب کے چاہنے والوں نے جو ریاست دشمنی کے کام کیے ہیں، ان کی وجہ سے وہ کھل کرسامنے آگئے۔ اب چاہے خان صاحب کو ضمانتیں ملیں لیکن ریاست سے جو ٹکرآپ نے لی ہے وہ یا تو آپ کی خواہش پوری کرے گی یا پھر ریاست آپ کو اسی مقام پر لے آئے گی جہاں آج الطاف حسین کو لا کر کھڑا کیا ہے۔
خیر کچھ فرق بھی ہے حالات و واقعات کا، اس وقت ریاست معاشی طور پر ہاری ہوئی نہیں تھی، جیسا کہ اب ہے۔ آپ کو عدالت سے ریلیف بھی مل جاتا ہے ، ایسا ریلیف اور کسی کو نہیں ملااور شوشل میڈیا اورکمرشل سرویز میں خان صاحب کو مقبول ترین کا ٹائٹل بھی دیا جاتا ہے، سب آپ کے ساتھ ہیں۔ ہتھیار بند طالبان بھی، ضیاء الحق کی باقیات بھی، پاکستان کی اس پالیسی پربرہم ہیں کہ وہ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کی تیاری کررہا ہے۔
حیرت ہمیں تب ہوئی جب پتا چلا کہ کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ سنانے جارہی ہے، وہ بھی ایک ایک فون پر ایک صحافی کو بتا دیتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کی ساری طاقت اس کے moral fiberسے جنم لیتی ہے ۔ آج ہماری سپریم کورٹ جس مقام پر کھڑی ہے، کل اس مقام پر اسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی۔ میرے اس کالم کے چھپنے تک چودہ مئی کی تاریخ ہوگی۔
ہم سب سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے درست ہو لیکن اس پر عمل ناممکن ٹھہرا، نہ کورٹ نے فیصلہ واپس لیا نہ مقننہ نے اس پر عمل درآمد کیا، تو کیا مقننہ کو بے حرمتی کا نوٹس دیا جائے گا؟ اگلے ہفتے بھی بہت کچھ ہونے کا امکان ہے۔ 9 جون کو بجٹ بھی آئے گا اور آئی ایم ایف کے معاہدہ ابھی تک ہوا نہیں۔
مگر ان دنوں میں جن لوگوں نے عسکری عمارتوں اور تنصیبات کو نقصان پہنچایا ، ان کو ضمانتیں ملنا مشکل ہوجائیں گی۔ بڑی خندہ پیشانی سے فوج نے یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان پر بس گولی نہیں چلی اور اگر ایسا کچھ ہوتا تو اس کا فائدہ بھی ریاست دشمن عناصر کا ہوتا۔ قانون اپنی حرکت میں آئے گا، اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بااثر طبقہ بٹا ہوا ہے۔
عمران خان کے چاہنے والے فوج کے خلاف ہیں اور مخالفین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے قریبی ساتھی ججز کے خلاف ہیں۔ کل تک عدالت اور اسٹیبلمشنٹ ایک ساتھ تھے، ان کا ہدف پارلیمنٹ تھا اور آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے ساتھی عدلیہ کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے لے آئے ہیں،شہباز شریف اور ہماری پارلیمنٹ کمزور پلرز پر کھڑے ہیں اب ان کی طاقت اسٹیبلشمنٹ ہے۔
جنگ کے طبل بج چکے ہیں، غا لبا الیکشن اب مزید دور چلے گئے، اکتوبر سے بھی دور۔ اس جنگ کا ابھی پہلا رائونڈ ہوا ہے، جس میںخان صاحب کو ضمانت مل جانا، ان کے لیے نوید ہے، اب بظاہر خان صاحب کا پلڑا بھاری ہے، مگر کیا اگلے رائونڈ میں میں بھی ان کو فوقیت حاصل رہے گی؟
فاشزم کو جس نے بھی ہتھیار بنایا وہ اپنی صورت تاریخ کے آئینے میں بخوبی دیکھ سکتا ہے۔ ہٹلر سے لے کر میسولینی تک اور بولسنارو سے لے کر ٹرمپ تک۔ آج کے دن ترکی میں بھی انتخابات ہونے جارہے ہیں، دیکھتے ہیں وہاں سے کیا نتائج آتے ہیں۔ آیندہ دو سالوں میں، ہندوستان میں بھی مودی کو بیلٹ باکس سے گزرنا ہوگا، دیکھتے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، ہم بھی دیکھیں گے جب اداروں کی امداد خان صاحب کو بند ہوجائے گی، پھر خان صاحب کیسے رکھتے ہیں برقرار اپنی مقبولیت۔
خان صاحب پر جو الزامات ہیں وہ بہت سنگین ہیں، ا تنے ٹھوس ثبوت آصف زرداری کے کیسز میں بھی میسر نہ تھے اور نہ ہی نواز شریف کے کیسز میں۔ بلڈر مافیا کی طاقتور قوتیں جو کل الطاف حسین کے ساتھ کھڑی تھیں، جب دیکھا وہ کمزور ہوئے ہیں تو پھر زرداری صاحب کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور اب جب خان صاحب کمزور ہوں گے تو کیا تب بھی یہ قوتیں خا ن صاحب کے ساتھ کھڑی ہوں گی؟
جب ذوالفقار علی بھٹو پر سیاسی عتاب نازل ہوئے ، تو ان کے قریبی ساتھیوں کو کچھ نہ ہوا، جب وہ پھانسی چڑھے تو ان کے جیالوں نے ایسا کچھ نہیںکیا جو خان صاحب کے چاہنے والوں نے ایک دن میں کرکے دکھا دیا۔ اس کے باوجود بھی ان کی گرفتاری اسلام آباد ہائی کورٹ خود کہتی ہے صحیح ہوئی ہے لیکن طریقہ کار غلط ہے، ہر حد پار ہوگئی۔ آئین کو تحریر کرنے کا استحقاق پارلیمنٹ کا ہے۔
سپریم کورٹ نے وہ بھی اپنی تشریح کے عمل سے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بنچ بنانا ہے تو چیف جسٹس کا استحقاق ہے اور بھی ایڈمنسٹریٹو پاورز ہیں لیکن ان کے استعمال کا طریقہ کار بھی صحیح ہونا لازم ہے کہ وہ بھی مجروح نہ ہو۔ بار بار خان صاحب کو حد سے زیادہ ریلیف دینا یہ سب کام خود چارج بن جائیں گے۔ سپریم کورٹ بار ایک طرف پاکستان بار کونسل دوسری طرف۔ اگر عدلیہ پر کوئی حملہ ہوا جس طرح سے جنرل مشرف نے کیا تھا تو کیا وکلا برادری اس بار ایک پیج پر ہوگی؟
کل تک مقننہ کمزور تھی، پارلیمینٹ کمزور تھی اس لیے کہ مقننہ ایک پیج پر نہیں تھی اس مرتبہ مقننہ ایک پیج پر ہے ۔ خان صاحب اور ان کے چاہنے والوں پر چارج ہے کہ انھوں نے ریاست دشمن کام کیے ہیں۔
یہ سنگین چارج ہے اور ہم نے ماضی میں دیکھا ہے یہ چارج بہت کمزور کردیتی ہے۔ وہ چاہے باچا خان ہوں، جو سچے تھے، فاشسٹ بھی نہیں تھے، پابند سلاسل رہنے میں ان کو عار نہ تھی۔ وہ بلوچ سردار تھے، لیکن خان صاحب تو خود اسٹبلمشنٹ کی پیدا کی ہوئی حقیقت ہیں ، وہ فاشزم پر یقین رکھتے ہیں، ضیاء الحق کی طرح مذہب کا کارڈ بھی استعمال بخوبی کرتے ہیں اور ہتھیار بند جتھے بھی ان کی صفوں میں موجود ہیں۔ ایسی افرا تفری اچانک نہیں ہوتی۔
آئین میں بگاڑ اور اس پر نہ چلنا ، سیاسی انجینئر نگ ،کورٹ کے فیصلے کے ذریعے کرنا، سو موٹو کا استعمال اور لیجیے یہ پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں وہ اپنے بقاء کی جنگ لڑرہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کو یہاں کے دائیں بازو والے مغرب کی ایجنٹ کہا کرتے تھے لیکن آج اس کا بیٹا تو پاکستان کے مفادات کو دیکھ کر آزاد خارجہ پالیسی ترتیب دیتے ہوئے جب چین کے قریب جاتا ہے تو خان صاحب اس وقت کوئی اور راگ الاپ دیتے ہیں۔
سیاسی منظر اس بار کچھ اس طرح بھی ہے کہ کشتی کمزور ہے، طوفانی لہریں ہیں اور کشتی کے سوار ٹکرا ئومیں ہیں۔ ڈار صاحب اس معیشت کو سمت دینے میں اس وقت کامیاب نظر آئے جب اربوں ڈالر امپورٹ کی مد میں بچائے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ نہ ہونے کے برابر رہا، یقینا اس عمل سے بھی معیشت کو نقصان ہوا ہوگا ، لیکن فوائد زیادہ تھے۔
ہمارا معاشی بحران بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جو بیرونی ممالک ناخوش ہیں پاکستان کے سی پیک جاری رکھنے میں وہ صبر سے کام لیں پاکستان میں اگر آمریت نہیں آئی تو پارلیمان مضبوط ہوگا۔ یہ ملک کسی بھی سپر طاقت کا فرنٹ لائن اسٹیٹ والا کردار نہیں ادا کرے گا۔ پاکستان یقینا ایک ذمے دار ملک کی حیثیت سے ابھر ے گا ۔ پارلیمان کی بالادستی اب ہماری راہِ نجات ہے اور یہی منزل ہے اس ملک کی۔