اشرافیہ کی سیاست کا المیہ
ہم سے خود ریاستی اور حکمرانی کی سطح پر کیا غلطیاں ہو رہی ہیں
سیاست، جمہوریت، قانون اور آئین کی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات سے جڑا ہوتا ہے ۔ اسی اصول کے تحت حکمرانی کے نظام کو ملکی یا عام آدمی کے مفادات کے تحت شفافیت کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔
ریاست کا نظام عوامی مفادات کے تحت ہی چلایا جاتا ہے اور یہ سوچ ریاستی نظام کی ساکھ کو قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن بظاہر لگتا ہے کہ ہم نے حکمرانی کے نظام میں ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی آج کی جدید دنیا میں حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے تناظر میں جو مثبت تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان سے کچھ سیکھا جا رہا ہے۔
حکمرانی کا نظام فرسودہ خیالات اور عملدرآمد کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ریاستی یا حکمرانی کا نظام کمزور ہورہا ہے اور ریاست کا شہریوں کے ساتھ جو باہمی تعلق ہے وہ بھی کمزوری کا سبب بن رہا ہے ۔ریاست اور عوام میں بڑھتی ہوئی یہ خلیج ریاستی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور اس کا جواب ریاستی نظام کو خود بھی تلاش کرنا چاہیے ۔
سیاست اور جمہوریت کے تناظر میں ان کے حمایتی یہ دلیل دیتے ہیں کہ عوام کے حالات کو درست کرنا ، ان کے معیار زندگی میں بہتری پیدا کرنا، ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا، سیاسی، سماجی، انتظامی، معاشی انصاف کی فراہمی کو بنیاد بنانا اور مالی یا سیاسی وسائل کی تقسیم کو منصفانہ اور شفاف بنا کرلوگوں میں پہلے سے موجود محرومی کی سیاست کا خاتمہ ہوتا ہے۔
لیکن اسی سوال کے تناظر میں ہمیں اس بات پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے کہ کیا جو کچھ آئین پاکستان میں موجود بنیادی حقوق کو بنیاد بنا کر ہم نے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے اور اگر کیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے یہاں محرومی کی سیاست کا غلبہ ہے ۔جب یہ منطق دی جاتی ہے کہ ہمیں ریاست کے نظام کو مضبوط بنانا ہے تو اس کا بھی براہ راست تعلق بھی ریاستی نظام اور حکمرانی کے چلنے والے نظام سے جڑا ہوتا ہے۔
لوگوں کو محض سیاسی خوش نما نعروں اور محض جذباتی گفتگو سے اکٹھا نہیں رکھ سکتے۔ اس کے لیے ریاستی نظام کو حکمرانی کے نظام کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے کہ ہم عوامی مفادات کی سیاست میں کہاں کھڑے ہیں۔
عام آدمی میں جہاں ریاستی نظام اور حکمرانی کے نظام پر سنجیدہ نوعیت کے تحفظات ہیں وہیں ایک بنیادی مسئلہ ادارہ جاتی بحران ہے کیونکہ عام آدمی سمجھتا ہے کہ اس کے پاس انصاف اور بنیادی حقوق کے حصول کے لیے اداروں کی خود مختاری اور شفافیت ہی واحد علاج ہوتا ہے کیونکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ اگر ادارے شفاف ہوں تو اس کو اپنے خلاف ہونے والی ہر سطح کی زیادتیوں کے مقابلے میں انصاف ملتا ہے۔
عام آدمی کے مفادات کا المیہ ایک یہ بھی ہے کہ اس ملک میں طاقت ور طبقات کی حکمرانی اور طاقت ور طبقوں کا جو مختلف شعبوں سے جڑے ہوئے ہیں کے درمیان باہمی گٹھ جوڑ ہے۔ یہ باہمی گٹھ جوڑ عوام کے مفادات کے مقابلے میں ان ہی طاقت ور افراد کے ذاتی مفادات کی بنیاد پر سجایا گیا ہوا ہے۔ یہ طاقت ور طبقہ پارلیمنٹ ، سیاست، جمہوریت، عدلیہ اور اداروں کو اپنے ذاتی مفادات کے حق میں استعمال کرتے ہیں تاکہ عام آدمی کے مقابلے میں ان کے مفادات کو زیادہ فائدہ پہنچ سکے۔اس لیے پارلیمنٹ ، عدلیہ ، آئین اور اداروںکی بالادستی کی جو جنگ ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے اس کا عام آدمی کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ تمام سیاسی ، انتظامی ، قانونی ادارے طاقت ور طبقے اپنے مفادات کے حق میں '' بطور ہتھیار '' استعمال کررہے ہیں ۔عام آدمی یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ یہ جو اسلام آباد میں اقتدار یا طاقت کی لڑائی مختلف سطح کے فریقین میں چل رہی ہے اس کا عام آدمی سے کیا تعلق ہے ۔عام آدمی کو ہم نے واقعی ایک برابر کا شہری سمجھنے کے بجائے اس کو تماشائی ہی بنا دیا ہے جہاں عام آدمی کا نہ صرف بری طرح سے استحصال ہورہا ہے بلکہ ان کی تذلیل بھی کی جا رہی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جو کچھ آج سیاست ، جمہوریت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور اداروں کی سطح پر ہورہا ہے اس پر معاشرے میں اور بالخصوص عام آدمی میں مایوسی ، غیر یقینی اور لاتعلقی کے احساس کو مضبوط بنارہا ہے۔
عام آدمی کے ٹیکسوں پر چلنے والا یہ نظام عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور طبقہ کی ترجمانی کررہا ہے اور جو بھی اس معاشرے میں کسی کو ریلیف مل رہا ہے اس کا تعلق عام آدمی کے مقابلے میں خواص سے ہے ۔ جو بھی ملکی سطح پر مختلف نوعیت کی پالیسیاں بن رہی ہیں یا جو بھی قانون سازی ہو رہی ہے یا جو بھی نئے منصوبے سامنے آتے ہیںاس میں عام آدمی کا حصہ کم جب کہ طاقت ور طبقے کا حصہ زیادہ بالادست نظر آتا ہے۔
آپ مجموعی طور پر سیاسی نظام کو دیکھیں تو حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری لڑائی بھی ایک مخصوص کھیل کا حصہ نظر آتی ہے اور اس کا بڑا مقصد لوگوں کی توجہ سنجیدہ مسائل یا اہم معاملات سے ہٹانا ہوتا ہے اور لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ غیر ضروری مسائل یا سیاسی قیادت یا جماعتوں کی طرف سے جاری لڑائی، محاذآرائی اور ٹکراؤ کے کھیل میں ان کو الجھائے رکھنا ہے۔
یہ عمل لوگوں کو ریاستی یا حکومتی نظام میں موجود خرابیوں کی طرف توجہ دلانے کے بجائے محاذ آرائی کے کھیل تک محدود رکھتا ہے ۔ اس کھیل میں میڈیا کا بھی کردار ہے جہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے یا جو کچھ بھی دکھایا جا رہا ہے وہ طاقت ور اشرافیہ کے کھیل کا حصہ ہے۔ میڈیا پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی اشرافیہ کے لوگوں کو فائدہ دیتا ہے تاکہ جو بھی رائے عامہ بنے وہ ایک محدود طبقہ تک ہی محدود رکھے گا۔
مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، عدم انصاف، انتہا پسندی، دہشت گردی، صنعتی بحران، ملکی معیشت کی غیر یقینی صورتحال، خوراک کی کمی جیسے امور پر کسی بھی طاقت ور اشرافیہ کی جانب سے کچھ نہ کرنے کی پالیسی یا کچھ نہ کرنے کی سوچ ظاہر کرتی ہے کہ ہم اشرافیہ کے چنگل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ عام آدمی میں نظام کے بارے میں یا سیاسی قیادت کے بارے میں مایوسی بڑھ رہی ہے اور اس کے سیاسی سطح پر یا معاشی بنیادوں پر کیا محرکات ہیں۔
طاقت کے انداز میں یا حکمرانی کے نشے میں ملک میں موجود اس نظام کے بارے میں اٹھنے والے سوالات پر متبادل آوازوں کو دبانے کی تمام کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہوسکیں گی ۔کیونکہ جب آپ متبادل آوازوں کو سننے سے گریز کرتے ہیں تو اس کا سخت ردعمل ہمیں عوامی سوچ اور فکر سمیت ان کے عمل میں نظر آتا ہے۔
ہم تواتر کے ساتھ اپنے داخلی معاملات کی ناکامی کو خارجی معاملات یا دشمن ملکوں یا بیرونی سازشوں کا نام دے کر خودکو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن ہم اپنا داخلی احتساب اور داخلی تجزیہ کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ہم سے خود ریاستی اور حکمرانی کی سطح پر کیا غلطیاں ہو رہی ہیں۔ کیا واقعی ہماری ترجیحات وہی ہیں جو ہمیں آج بطور ریاست اور حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے لیے درکار ہیں ۔کیونکہ اگر ہم خود کو تضادات سے نہیں نکالیں گے تو کیسے ہم اپنا ریاستی یا حکمرانی کا مقدمہ جیت سکیں گے۔
کاش یہاں توہین عدالت ہو یا توہین پارلیمنٹ یا توہین عدلیہ یا توہین اداروں کے مقابلے میں جو سنگین توہین عوام کی ہورہی ہے اس پر کیا کوئی عوامی سوموٹو ہوسکے گا اور کیا اپنی اس توہین پر کوئی بڑا عوامی ردعمل دیکھنے کو مل سکے گا یا یہ کہانی ایسے ہی چلتی رہے گی۔