ایوان اقتدار سے غداری تک حصہ اول
بھارت ہی نہیں پاکستان کی تمام دشمن قوتیں خوشیاں منا رہی تھیں
جب سے فلسفہ عمرانیہ نے ملک میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کیا ہے اس دن سے مسلسل لکھنے کی کوشش کررہا ہوں مگر قلم جو میرے خون جگر سے لکھ رہا ہے وہ چھپ ہی نہیں سکتا، اس لیے کئی بار ارادہ ترک کیا۔
مگر آج مصمم ارادہ کیا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس بربریت اور دہشت گردی پر نہ لکھنا قومی جرم کے زمرے میں آئے گا اور نہ لکھنے کی صورت میں اللہ رب العزت مجھ سے بروز قیامت پوچھے گا کہ آپ کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے دشمنوں کے خلاف جو کر سکتے کیوں نہیں کیا۔ سیاست اور دہشتگردی دو متضاد چیزیں ہیں، سیاست تو مکالمے اور افہام و تفہیم کا نام ہے۔
سیاست میں دہشتگردی کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ مگر عمران احمد نیازی کے سیاسی غبارے میں جب سے ہوا بھری گئی ہے، اسی دن سے ان کی سیاست پر دجل ہے، فریب ہے، منافقت ہے، جھوٹ اور دھوکے کا راج ہے مگر دہشت گردی کی جو جھلک پی ٹی وی پر قبضے اور پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے کے دوران قوم نے دیکھی تھی وہ تو صرف ٹریلر تھا، دہشت و وحشت کی فلم کا پارٹ ون انھوں نے ایک خطرناک شکل میں ریلیز کیا، جس نے ملک و ملت کو تباہی کی طرف دھکیلا۔
عمران احمد نیازی کی زندگی کے سفر کا آغاز کرکٹ سے ہوااور دہشت گردی کے الزامات کے شور میں اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ عمران احمد نیازی اور پی ٹی آئی کے بارے میں ہم ایک عرصے سے جو باتیں بڑی شد و مد سے کررہے ہیں، یہی کالم اس بات کا گواہ ہے کہ ہم نے آج تک جو باتیں کیں وہ ایک ایک کرکے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہورہی ہیں۔
بہت سی سخت باتیں پالیسی کی نذر اور چوہدری لطیف صاحب کی مصلحت پسند سرخ فیتے کی نذر ہوئیں۔ ہم نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ عمران خان کا تحریک انصاف اب فتنہ سے فرقہ عمرانیہ بن چکا ہے۔ یہ بات بھی ہم ایک عرصے سے تسلسل کے ساتھ کہتے چلے آرہے ہیں کہ یہ مزید رنگ و روپ بدلے گا اور ان کے نئے رنگوں اور روپ پر شر غالب ہوگا، مگر یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا یہ گروہ اتنی جلدی اور دیدہ دلیری کے ساتھ کھلی ملک دشمنی پر اتر آئے گا۔
جس خدشے کا اظہار حکیم محمد سعید شہید رحمہ اللہ اور ولی کامل ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے کیا تھا آج وہ روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ اس کا ایجنڈا دنیا کی واحد اسلامی مملکت خداداد پاکستان کی بنیادوں کو ہلا کر کمزور کرنا ہے۔ ابھی تک مجھ سمیت اکثر پاکستانی ان کی جدوجہد کا ہدف صرف حصول اقتدار سمجھتے تھے مگر کہانی اس سے بھی خطرناک لگ رہی ہے۔
اگر یہ صرف ہوس اقتدار ہے تو پھر لیڈر اور ان کے پیروکار ہر قسم کی حدود و قیود سے آزاد اور ہر حد سے گزرنے پر بضد ہیں۔ اس ملک میں عمران خان واحد سیاستدان ہے نہ ہی تحریک انصاف اکلوتی سیاسی جماعت ہے۔ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں کئی جماعتیں بنیں اور کئی لیڈر آئے اور کئی جماعتوں کو پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، سیاستدانوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ لاڑکانہ کے دامن میں دو شہید دفن ہیں۔
ایک پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سابق صدر و وزیراعظم مجاہد ختم نبوت ذوالفقار علی بھٹو ہیں جنھیں اس ملک کی عدلیہ نے پھانسی چڑھایا اور دوسری ان کی بیٹی اور دو بار وزیراعظم رہنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو جو لیاقت باغ میں دہشتگردی کے بھینٹ چڑھ گئیں، بھٹو کی شہادت پر بہت زیادہ قومی نقصان تو نہیں ہوا مگر بینظیر بھٹو کی شہادت پر سندھ میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور بہت بڑا نقصان ہو سکتا تھا مگر زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک کو بچا لیا۔
پی ٹی آئی کے تربیت یافتہ جتھوں نے عمران خان کی گرفتاری پر دہشتگردی کی انتہا کر دی۔ مگر بجائے ندامت ، مذمت اور کارکنان کو منع کرنے کے عمران احمد نیازی عدالت میں کھڑے ہوکر دوبارہ گرفتار ہونے پر یہی کچھ دھرانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس جرم پر بجائے سرزنش کے عمران خان عدالت آئے تو یہ کہا گیا' آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم بنے، دوسری مرتبہ وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بنے مگر انھیں تینوں بار اقتدار سے جبری طور پر ہٹایا گیا۔
ان تینوں لیڈروں نے ایک بار نہیں کئی بار قید و بند کی تکلیفیں جھیلیں، ماریں کھائیں، ان کے علاوہ آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کو اسی نیب نے 6 مہینے تک موت کی چکی میں رکھا، سعد رفیق اور ان کے بھائی، خواجہ آصف اور بے شمارسیاستدان ہیں جنھیں گرفتاریاں دینا پڑیں، جیلیں کاٹنا پڑیں، مصائب و آلام جھیلنا پڑے، مگر کسی کے کارکن اس حد تک نہیں گئے۔
خاقان اعظم عمران احمد نیازی اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف نیب کیس پر غصے اور غیرت سے لال پیلے ہو رہے ہیں مگر جب محترمہ مریم نواز اور محترمہ فریال تالپور کو گھسیٹا جا رہا تھا کیا وہ بھول گئے کہ ان کے دور حکومت میں ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ مگر وہ سارے سیاسی لوگ تھے۔
ان میں سے کسی ایک کی گرفتاری پر وہ اودھم نہیں مچایا گیا جو 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری پر ان کے کارکنوں نے مچایا اور اپنے ہی ملک پر دشمنوں کی طرح حملہ آور ہوئے جیسے یہ پاکستانی نہیں بھارت کی انتہاپسند تنظیموں کے تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں۔
ان کی یہ پوری ٹریننگ اور برین واشنگ گزشتہ 6 مہینوں کے دوران زمان پارک میں کی گئی، جس کا ذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔ اور زمان پارک میں ریہرسل کے طور پر پولیس پر پٹرول بمبوں اور خطرناک ترین اور مہلک غلیلوں سے حملہ آور ہوئے تھے۔
عمران خان کی گرفتاری کے فوراً بعد ایک منظم طریقے سے ان تربیت یافتہ لوگوں کو نکالا گیا اور پہلے سے دیے گئے ٹارگٹس پر پہنچنے کی ہدایات دی گئی۔ پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغامات کو گرفتاری کے چند منٹ کے اندر سوشل میڈیا کے عمرانی یلغار کے ذریعے وائرل کیا۔ ان پیغامات میں عمران احمد نیازی سے لے کر ہر قابل ذکر لیڈر کے پیغامات شامل ہیں۔
ان میں سب سے خطرناک پیغام عمران خان کا تھا جو کارکنان کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھا، مگر مراد سعید کے پیغام نے بھانڈا ہی پھوڑ دیا۔ انھوں نے اپنے دہشت گرد ونگ کو بتایا کہ وہاں وہاں پہنچ جائے جہاں کا بتایا گیا ہے یعنی اپنے ٹارگٹ پر پہنچ جائیں۔ اس طرح پورا ملک جام کر دیا گیا۔
سرکاری، نیم سرکاری اور نجی املاک اور گاڑیوں کو توڑا گیا، آگ لگائی گئی۔ ایمبولینسوں سے مریضوں کو نکال کر انھیں نذر آتش کیا گیا۔ جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس(جناح ہاؤس) پر دھاوا بولا گیا، املاک اور تنصیبات پر حملے کیے گئے، یاد گار شہداء کو توڑا گیا، آگ لگائی گئی۔ بلوائیوں نے جناح ہاؤس کی مسجد کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا' افواج پاکستان کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
کیا کوئی سچا مسلمان اور محب وطن پاکستانی ایسا گھناؤنا کام کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پھر یہ کون لوگ تھے جو اس قدر تربیت یافتہ تھے کہ انھیں جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارت گری کی اتنی مہارت تھی کہ منٹوں میں سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیا۔
پاکستان میں بے شمار سیاسی جماعتیں ہیں لیکن کسی ایک سیاسی جماعت کے پاس اتنے تربیت یافتہ لوگ نہیں، جتنے پی ٹی آئی کے پاس موجود ہیں۔ پھر ان تربیت یافتہ لوگوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت استعمال کیا گیا۔ وڈیو اور آڈیولیکس نے سارے منصوبے کو بے نقاب کردیا ہے۔
یاسمین راشد سے لے کر محمود الرشید، حماد اظہر، فیاض چوہان اور افضل ساہی تک پی ٹی آئی کے ہر لیڈر نے ان تربیت یافتہ جتھوں کے جذبات کو ابھارا اور انھیں جلاؤ گھیراؤ کے لیے استعمال کیا۔ بپھرے ہوئے مجمعے کو باقاعدہ ہدایات دی جاتی رہیں کہ فلاں فلاں جگہ پہنچیں اور اپنا کام دکھائیں۔ بلوائیوں نے قائد اعظم سے منسوب عمارت جناح ہاؤس کو جلا کر کھنڈر بنا دیا۔ کوئی ایک کمرہ ان شر پسندوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہا۔ حملہ آوروں نے صرف جلاؤ گھیراؤ ہی نہیں کیا بلکہ لوٹ مار بھی کی۔ فریج میں رکھی سبزی اور پھل بھی نہ چھوڑیں۔ جیسا لیڈر ویسے کارکن۔
جس روز پی ٹی آئی کے تربیت یافتہ بلوائیوں نے جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کیے، ایم ایم عالم کے جہاز کے ماڈل کو جلایا، نشان حیدر پانے والے شہداء کی یادگاروں کو توڑا، عین اس دن ہمارا ازلی و ابدلی دشمن بھارت جشن منا رہا تھا، بھارتی میڈیا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
بھارت ہی نہیں پاکستان کی تمام دشمن قوتیں خوشیاں منا رہی تھیں کیونکہ جو کام ملک کے ابدی دشمن پچھتر سال میں نہ کرسکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر دکھایا ہے۔ آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر اور پاک فوج کی قیادت نے انتہائی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا اور اپنی ساکھ کی پرواہ کیے بغیر ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں انتہائی صبر اور برداشت سے کام لیا۔
ورنہ اندرونی اور بیرونی دہشتگردوں کے سر کچلنے کی تاریخ رقم کرنے والی افواج پاکستان کے لیے مٹھی بھر شرپسندوں کو ملیا میٹ کرنا منٹوں نہیں لمحوں کی بات تھی مگر جب سامنے دشمن کم ظرف ہوتو بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔