مفکر اقبال سے شاعر اقبالؔ کی طرف
خواجہ صاحب نے مفکر اسلام اقبال کو اور مصور پاکستان اقبال کو چھوڑ کر شاعر اقبال کو اپنا موضوع بنایا ہے۔۔۔
ابھی ابھی 21 اپریل کی تاریخ گزری ہے یہ علامہ اقبالؔ کا یوم وفات تھا۔ اخباروں میں، بالعموم تخصیص کے ساتھ اردو اخباروں میں، ایک صفحہ دو صفحے ان کے ذکر کے لیے وقف کیے گئے۔ ہمیں خیال آیا کہ اکثر مضامین ان کی شاعری کے واسطے ہی سے ہوتے ہیں۔ پھر بھی ان کی شاعری بحث کا موضوع کم بہت ہی کم بنتی ہے۔ سارا زور ان کے افکار و خیالات پر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر اقبالیات کا یہی رجحان ہی ہے۔ مگر کوئی کوئی کتاب اس رد عمل میں بھی لکھی گئی ہے۔ اس حساب سے ہمارا دھیان ایک کتاب کی طرف گیا۔ پروفیسر خواجہ منظور حسین کی کتاب 'اقبال اور بعض دوسرے شاعر' ۔ یہ کتاب بہت ہی کم زیر بحث آئی ہے۔ شاید اسی حساب سے کم پڑھی گئی ہے۔ کیا مضائقہ ہے کہ تھوڑا ذکر اس کتاب کا ہو جائے۔
خواجہ منظور حسین نے اقبال کی ان دوسری حیثیتوں سے، جن پر اقبالیاتی نقادوں نے اور پڑھنے والوں نے بہت زور دیا ہے، غرض نہیں رکھی۔ یعنی مفکر اسلام اقبال' حکیم الامت اقبال' مصور پاکستان اقبال یہاں سرے سے بحث کا موضوع نہیں بنے ہیں۔ تخصیص کے ساتھی ان کے فن شاعری سے غرض رکھی ہے۔ ان کے افکار و تصورات سے' معتقدات سے' ملی جذبات و احساسات سے اس زاویئے سے غرض رکھی ہے کہ وہ کس حد تک اور کس رنگ سے شاعر کے شعری تجربے کا حصہ بنے ہیں۔ انھوں نے طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ شاعری کے ایک سنجیدہ قاری کی حیثیت سے سوال اٹھاتے ہیں۔ پھر خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
اور دوسرے قابل ذکر شعرا کو سامنے لے آتے ہیں۔ جو اس سوال سے بحث کرتے نظر آتے ہیں اور شعرا کون مغرب کے۔ مگر مغرب کے وہ گنے چنے چند قد آور شعرا ہیں جن سے اقبال نے غرض رکھی ہے۔ مثلاً ڈانٹے' گوئٹے' ملٹن ان کا یہاں کوئی حوالہ نظر نہیں آئے گا۔ خواجہ صاحب مغرب سے چھانٹ کر ان شعرا کو سامنے لائے ہیں جو اقبال کے ہمعصر ہیں مگر اقبال نے ان سے کوئی غرض نہیں رکھی ہے۔ وہ اپنے ہمعصر فلسفی برگساں کو تو خوب پہچانتے ہیں۔ مگر ایلیٹ' پاؤنڈ' ییٹس میں سے کسی سے متعارف ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔ مگر خواجہ منظور حسین نے اِنہیں شاعروں سے محفل سجائی ہے کہ اس کے بیچ میں علامہ صاحب کو بٹھایا گیا ہے۔
ایلیٹ کا ایک بیان انھوں نے خاص طور پر نقل کیا ہے کہ ''تمام بڑے پائے کی شاعری میں کچھ نہ کچھ ضرور بچ رہتا ہے جس کی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ اور یہی وہ جز ہے جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔''
مگر اقبال کی شاعری غالب طور پر افکار و تصورات کی شاعری ہے۔ سو نقاد زیادہ تر انھیں سے الجھتا اور انھیں سے سلجھتا نظر آتا ہے۔ اس تنقید میں وہ مقام نہیں آتا کہ یہ فکر کس طرح کس رنگ سے شعری تجربہ بنی۔ اور اس شعر میں کتنی تہہ داری ہے' زبان و بیان کی کیا نزاکتیں اور نفاستیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی تنقید میں ساری شاعری ہی بچی رہ جاتی ہے۔ تو ضیح و توجیہہ کا سارا زور افکار و تصورات پر صرف ہو جاتا ہے۔
خواجہ صاحب نے ایلیٹ کا ایک بیان نقل کیا ہے جو یہ ہے۔
''ہماری آرزو تو یہی ہوتی ہے کہ ہم کسی ایسی شاعری میں جا کر دم لیں جو ہمارے عقیدوں کو شعری پیرائے میں بیان کرے ہم اس شاعری کو جو ایسے نظریۂ حیات پر مبنی ہو جسے ہم سمجھ سکیں اور تسلیم کریں اسے اس کے حق سے زیادہ درجہ دیتے ہیں۔ مگر دراصل ہمیں اس کا حق نہیں پہنچتا کہ ہم ایسے کلام کی اتنی بڑھ چڑھ کر داد دیں تاوقتیکہ ہم نے شاعری کی ان دنیاؤں میں رسائی کی کوشش نہ کی ہو جو ہمارے لیے بیگانہ ہیں۔''
اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ ایلیٹ کے سامنے اقبال کے جو مداح ہیں جو اس شاعری کے صرف اس بنیاد پر قائل ہیں کہ ان کا جو نظریۂ حیات ہے جو عقائد ہیں ان کا اظہار اس شاعری میں ہوا ہے۔ مگر خواجہ صاحب کے پیش نظر ان قارئین سے ہٹ کر وہ قارئین بھی ہیں جو اس نظریۂ حیات کو ماننے والے نہیں ہیں جو یہاں بیان ہوا ہے اور جن میں ان عقائد سے کوئی لگاؤ نہیں ہے جو اس شاعری میں بڑی خوبصورتی سے بیان ہوئے ہیں۔ خواجہ صاحب سوال اٹھاتے ہیں کہ ان قارئین کا رویہ ایسی شاعری کے بارے میں کیا ہو گا۔ خواجہ صاحب نے یہ سوال اٹھا کر مختلف شاعروں سے رجوع کیا ہے اور نقادوں سے۔ ایلیٹ کا جواب یہ ہے کہ ''اگر نظم میرے معتقدات سے ہم آہنگ نہیں ہے تو میں اس سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر کوئی نظم میرے عقائد کے مطابق نہ ہو تو میرا شعور اس سے بے تعلق ہونے کی کوشش کرتا ہے۔''
مگر یہ تو قاری کے رویے کی بات ہوئی۔ خواجہ صاحب کا سوال یہ ہے کہ ایسی شاعری کی قدر و قیمت کا تعین کیسے ہو گا کہ جس نظریۂ حیات پر وہ مبنی ہے وہ بعض کے معتقدات کے عین مطابق ہے اور بعض کے معتقدات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایلیٹ کا جواب یہ ہے کہ ''اعلیٰ شاعری میں ایسے تصورات کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے جس کی بنا پر ایک قاری جس کے معتقدات مختلف ہیں اس شاعری کو پسند کر سکتا ہے اور قبول کر سکتا ہے۔ مثلا دانتے یا گوئٹے کے فلسفہ یا مذہبی عقیدے کے باوجود جو ایک قاری کے لیے قابل قبول نہ ہو وہ اسے قبول کر سکتا ہے۔ اس دانش کی بنا پر جو وہاں موجود ہے۔''
خواجہ صاحب اقبال کی شاعری کے بارے میں ایسے سوالات اٹھاتے چلے گئے ہیں جو شاعری کے ایک سنجیدہ قاری کے ذہن میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ پھر وہ رجوع کرتے ہیں کچھ معتبر شاعروں' نقادوں سے اور ان کے بیانات کی مدد سے ان سوالوں کے جواب فراہم کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کے بعض تصورات اور بعض رویوں کا کھوج لگاتے لگاتے خواجہ صاحب نے شاعر کی نجی زندگی میں بھی تاک جھانک کی ہے۔ مثلاً ان کے تصور خودی پر بحث کرنے والوں نے اس کے خارجی محرکات پر تو خوب بحث کی ہے۔ مگر خواجہ صاحب اس منزل سے گزر کر شخصی محرکات تک پہنچے ہیں۔ خودی سے ہٹ کر شاعر کے بعض رویوں کو خواجہ صاحب زیر بحث لائے ہیں۔ مثلاً انھوں نے شاعر کے یہاں قلندرانہ رویئے کو دیکھ کر یہ سوال اٹھایا ہے کہ قلندری کے لیے ان کے یہاں اتنی کشش کیوں تھی اور اتنے شدو مد کے ساتھ اس کے اعلان کی انھیں کیوں ضرورت پیش آئی۔
تو خواجہ صاحب نے مفکر اسلام اقبال کو اور مصور پاکستان اقبال کو چھوڑ کر شاعر اقبال کو اپنا موضوع بنایا ہے اور ایک فرضی غیر جانبدار قاری کی طرف سے جو اسلام اور پاکستان سے کوئی وابستگی نہیں رکھتا سوال اٹھائے ہیں اور ایلیٹ' ان کے اور ایسے دوسرے شاعروں نقادوں کے وسیلہ سے ان سوالوںکے جواب مہیا کیے ہیں۔
ان سوالوں سے گزرتے گزرتے ایک سوال ہمارے ذہن میں بھی ابھرا۔ کیا مضائقہ ہے کہ ہم بھی اپنا سوال کر ڈالیں۔ علامہ اقبال کے ممدوحین میں ایک شاعر ایسا بھی تو ہے جس پر ہم بآسانی کافر ہندی کا لقب چسپاں کر سکتے ہیں۔ اقبالیاتی تنقید میں گوئٹے اور ڈانٹے کا ذکر بے تکلف آتا ہے۔ مگر کافر ہندی بھرتری ہری کا ذکر کم کم آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس شاعر کے یہاں جس فکر کا جلوہ نظر آتا ہے اور جن معتقدات نے اس شاعری کو سیراب کیا ہے۔ اس میں تو علامہ کا ایمان نہیں۔ وہ عقیدہ الگ' علامہ کا عقیدہ الگ' پھر اس شاعر کے لیے علامہ کے یہاں اتنی کشش کیوں ہے کہ 'بانگ درا' میں اس کی شاعری کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اس سے گزر کر 'بال جبریل' پر نظر ڈالیں تو سرنامہ کے طور پر یہ شعر درج ہے کہ بھرتری ہری سے ترجمہ ہے؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
پھر اس سے گزر کر جاوید نامہ کے صفحے الٹیں پلٹیں تو وہاں علامہ بھرتری ہری سے مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اس شاعر کے یہاں کونسی ایسی شے ہے کہ نظریۂ حیات اور معتقدات کے اتنے بڑے فرق کے باوجود ہمارے شاعر کا دل اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ کیا واقعی شاعری وہ طلسم ہے کہ نظریات' معتقدات' تہذیبی اختلافات لاکھ راہ میں آئیں یہ طلسم ایسی سب رکاوٹوں کو پار کر کے پڑھنے سننے والے کے دل میں راہ پا لیتا ہے۔