انصاف کٹہرے میں
ملک میں انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں شروع سے ہی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں
چرچل کے مطابق جس ملک میں انصاف کا فقدان ہوگا وہ ترقی نہیں کرسکتا عوامی مسائل حل نہیں کر سکتا۔ بدامنی سے دوچار رہے گا اور دشمن کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتا، قرآن حکیم فرقان حمید میں انسانوں کو انصاف پر عمل پیرا ہونے کی بار بار تلقین کی گئی ہے مگر بدقسمتی سے تعلیمات قرآنی پر عمل پیرا نہ ہو کر ہی آج مسلمان پریشان و ہلکان ہیں۔
خلفائے راشدین کے بعد مسلمانوں نے انصاف کے دینی احکامات پر کم ہی عمل کیا ہے مگر یورپی اقوام نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرکے دنیا بھر میں سرخ روئی پائی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب ہٹلر کی فوجیں پورے یورپ کو فتح کرنے کے ارادے سے آگے بڑھتی جا رہی تھیں۔اس وقت چرچل نے اپنے وزیروں سے سوال کیا کہ '' کیا ہمارے ملک میں عوام کو انصاف مل رہا ہے۔ وزیروں نے جواب دیا کہ ''ہماری عدالتیں بخیر و خوبی اپنا کام کر رہی ہیں اور ہمارے عوام ان کے فیصلوں سے بالکل مطمئن ہیں۔'' چرچل نے وزیروں کا یہ جواب سن کر بے ساختہ کہا کہ '' تو پھر ہمیں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور ہمارا دشمن بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
برطانیہ کی یہ انصاف پسندی آگے بھی بڑھی اس نے جن ممالک پر ناجائز قبضہ کرکے وہاں کے عوام کو غلام بنا لیا تھا ان کی بابت سوچا گیا کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور انصاف کا خون کیا گیا ہے چنانچہ اب انھیں آزادی دے دی جائے حالانکہ کہا یہ جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ مالی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا۔
جن ممالک پر اس نے قبضہ کرلیا تھا ان کی دولت تو وہ پہلے ہی لوٹ کر اپنے ملک لے گیا تھا اب وہ اس کے لیے بوجھ بن گئے تھے چنانچہ رفتہ رفتہ انھیں آزادی دے دی گئی مگر اس میں دیکھا جائے تو اس کی انصاف پسندی بھی نظر آتی ہے کہ انصاف کا تقاضا بھی یہی تھا کہ محکوموں کو آزادی دے دی جائے۔
انگریزوں نے برصغیر پر کم و بیش ڈیڑھ سو سال تک حکومت کی ہے ان کی حکومت میں اگرچہ آزادی پسندوں کی کافی سرکوبی کی گئی مگر عام لوگوں کے ساتھ رواداری اور انصاف پسندی سے کام لیا گیا۔ ویسے تو ان کی انصاف پسندی کے بہت سے واقعات برصغیر کی تاریخ کا حصہ ہیں مگر سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنی انصاف پسندی سے عام لوگوں کے دل موہ لیے تھے۔ راقم کی کتاب ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' ان کی انصاف پسندی کا ایک واقعہ درج ہے۔
سندھ پر انگریز فوجی کمانڈر چارلس نیپیئر نے 1843 میں قبضہ کر لیا تھا اس کے بعد کراچی میں جہاں سندھ کے انتظامی معاملات کو چلانے کے لیے افسران کو مقرر کیا گیا وہاں عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔ فوج کے ایک کیپٹن مسٹر پریڈی کو کراچی کا کلکٹر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مقرر کیا گیا مسٹر پریڈی اگرچہ دوسرے انگریزوں کی طرح سندھ پر برطانوی قبضے کو دوام بخشنا چاہتے تھے مگر اس کے باوجود بھی انھوں نے انصاف پسندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔
سندھ میں ہونے والے ایک قتل کے واقعے سے ان کی اور دوسرے انگریزوں کی انصاف پسندی کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ انگریز فوج نے سندھ پر قبضہ کرتے وقت بے شمار حریت پسندوں کا خون بہایا تھا۔ سندھ کے شہریوں کے ساتھ بھی ان کا سلوک نامناسب تھا۔ 14 فروری1843 کو مقامی لوگوں اور انگریز فوجیوں کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی تھی۔ اس جھڑپ میں انگریز فوجیوں کے مقابلے میں مٹھی بھر سندھی جوان تھے۔ جنھوں نے انگریز فوج کے میجر آٹرم اور اس کے ساتھیوں کو ایک سخت مقابلے کے بعد بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔
میجر آٹرم دو کشتیوں میں اپنے سو کے قریب فوجیوں کے ساتھ دریائے سندھ کے بیج جا پہنچا۔ جب فرنگی فوجی بھاگ رہے تھے ایک فرنگی افسر کی بیوی مسز بارنس کو ایک سندھی جوان نے کلہاڑیوں کے پے درپے وار کرکے قتل کردیا۔ اس بھگدڑ میں فرنگیوں کو یہ پتا نہ چل سکا کہ مسز بارنس کو کس نے قتل کیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سندھ پر انگریزوں کا قبضہ نہیں ہو پایا تھا۔ پھر اس کے کچھ عرصے بعد ہی سندھ پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔
چارلس نیپیئر نے مسز بارنس کے قتل کا سختی سے نوٹس لیا تھا وہ ہر قیمت پر اس کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ مسز بارنس کا قتل بخشو چانڈیو نامی ایک سندھی نے کیا ہے تو اس نے فوراً اسے گرفتار کروا کے اس پر مقدمہ چلانے کا حکم دے دیا۔ اس مقدمے کی خبر سے پورے سندھ میں سنسنی پھیل گئی اور یہ سوال اٹھا کہ جب قتل فرنگیوں کے سندھ پر قبضہ کرنے سے قبل میدان تالپور کے دور میں ہوا تھا تو اس مقدمے کو میدان تالپور کے قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے مگر نیپیئر بضد تھا کہ اسے انگریزوں کے قانون کے مطابق ہی چلایا جائے۔
چنانچہ چارلس نیپیئر کے حکم کے مطابق کراچی کے کلکٹر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پریڈی کی عدالت میں اس مقدمے کا چالان پیش کردیا گیا۔ نیپیئر نے پریڈی کو خفیہ طور پر بخشو چانڈیو کو ہر قیمت پر سزائے موت دینے کی ہدایت کی مگر پریڈی نے قانون کے مطابق مقدمے کو چلایا پھر کسی عینی شاہد کے نہ ہونے کے سبب بخشو چانڈیو کو باعزت بری کردیا۔ بخشو چانڈیو کی رہائی نے چارلس نیپیئر کی آتش انتقام کو مزید بھڑکایا ا ور اس نے اس مقدمے کو مارشل لا کے تحت چلانے کے لیے ایک سر کولر جاری کردیا۔
فوجی عدالت کے جج کیپٹن کیتھنگ کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش کردیا گیا۔ نیپیئر نے کیتھنگ پر بھی زور دیا کہ وہ چانڈیو پر یک طرفہ مقدمہ چلا کر اسے پھانسی کی سزا سنا دے مگر کیتھنگ نے بخشو پر سرے سے کسی قسم کا مقدمہ چلانے سے ہی انکار کردیا اور نیپیئر کو لکھا کہ مارشل لا میں نہ اپیلیں سنی جاسکتی ہیں اور نہ ہی سول عدالت سے بری کیے گئے ملزم کو سزا دی جاسکتی ہے۔ بخشو چانڈیو کو ڈسٹرکٹ کورٹ نے بری کردیا۔ کیونکہ یہ قتل تالپور دور میں ہوا تھا چنانچہ اس دور کا قانون ہی ملزم پر لاگو کیا جاسکتا تھا، پھر بری کیے گئے ملزم پر دوبارہ کوئی مقدمہ چلانا بدترین ناانصافی ہوگی۔
کیپٹن کیتھنگ اور نیپیئر کے جھگڑے نے کافی طول پکڑا اور یہ معاملہ گورنر جنرل ہند تک جا پہنچا۔ اس نے نیپیئر کی زیادتی پر اسے شرم سار کیا اور بخشو چانڈیو کے مقدمے کو سرے سے خارج کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ انگریزوں کی اس انصاف پسندی پر سندھ کے عوام نے جشن منایا تھا۔ برطانیہ میں رائج موجودہ عدالتی نظام بھی انصاف کا بول بالا کر رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان برطانوی عدالتی نظام کی اکثر تعریف کیا کرتے ہیں مگر افسوس کہ وہ اپنے دور میں پاکستان میں عدالتی نظام کو معیاری نہ بنا سکے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں شروع سے ہی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے سابقہ حکومتوں نے عدالتوں کو اپنے مطابق چلایا پھر آمرانہ حکومتوں نے تو انھیں سراسر اپنے مفاد میں استعمال کیا۔ اس وقت ملک میں عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں سائلین انصاف کے لیے دہائی دے رہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں۔ چھوٹی عدالتوں کو تو چھوڑیے عدالت عظمیٰ میں بھی ہزاروں مقدمات پینڈنگ چل رہے ہیں۔ سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی معاملات خود باہم طے کریں اور عدالت عظمیٰ کا وقت خراب نہ کریں۔