ایوان اقتدار سے …حصہ دوئم
موجودہ حالات سے پریشان پاکستانیوں کو کہتا ہوں کہ مایوسی کفر ہے اور اللہ رب العزت شر سے خیر برآمد کرنے پر قادر ہے
آڈیو لیکس اور عمران احمد نیازی سمیت تحریک انصاف کے تمام قابل ذکر لیڈروں کے سوشل میڈیا پر وائرل کیے گئے پیغامات کے بعد یہ بات صاف ہے کہ یہ دہشت گردی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی۔
افواج پاکستان اور سپہ سالار کے خلاف جو بہتان تراشی عمران احمد نیازی نے 2022 کے اوائل میں شروع کی تھی، وہ 9 مئی 2023 کو ساری حدیں پار گئی۔ مگر افواج پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا، نظرانداز کرو اور مٹی پائو کے طرز عمل کی وجہ سے عمرانی ٹائیگرز اور ٹائیگرسزکا حوصلہ بڑھا اور اس بار انھوں نے ساری حدیں پار کیں، تاکہ آرمی اپنا فوری ردِ عمل دے، جسے بعد میں وہ اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرسکے۔
آرمی کے اس سنجیدہ ردعمل نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ پاک فوج کے عمران پر احسانات کو دیکھ کر عمران کا یہ رویہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جنرل باجوہ پر تو انھوں نے ایوان اقتدار سے نکالنے کا الزام لگایا مگر آخر موجودہ آرمی چیف کے ساتھ کیا دشمنی ہے؟ حالانکہ جنرل باجوہ اور جنرل عاصم منیر کا بطور آرمی چیف زمین آسمان کا فرق ہے مگر عمران کی دشمنی دونوں سے، اس کا مطلب ہے کہ یہ دشمنی یا نفرت کسی آرمی چیف کے ساتھ نہیں بلکہ ادارے سے ہے۔ ویسے بھی روایت یہی رہی ہے کہ جو بھی آرمی چیف بنا، وہ سب سے پہلے امریکا کے دورے پر گیا، لیکن جنرل حافظ عاصم منیر نے پہلے سعودی عرب اور پھر چین کا دورہ کیا جو ان کی ترجیحات کی عکاس ہے۔
ادھر عمران احمد نیازی متحرک ہوا، امریکی سفیر فوادچوہدی سے ملنے ان کے گھر گئے، اور فواد چوہدری، امریکی سفیر سے ملاقات کے بعد عمران خان سے ملنے زمان پارک پہنچ گئے۔ اسی دن سے عمران احمد نیازی نے ایک بار پھر آرمی چیف کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔ عمران خان کی گرفتاری ہوئی اور ان کی فوری گرفتاری کے فوراً بعد سیدھا جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہائوسز، آئی ایس آئی کے دفاتر، ائیر بیسز اور دوسری دفاعی انسٹالیشنز پر مختلف شہروں میں بیک وقت حملے کیے گئے۔
یہ سب ہوتے ہی سی آئی اے ایجنٹ زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹویٹس میں آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا، عمران کے بعد یہ امریکی ایجنٹ دوسرا شخص ہے جس نے آرمی چیف کے استعفٰی کا مطالبہ کیا۔ جس سے یہ بات کھل گئی کہ عمران خان اور ان کے فدائین کن کے لوگ ہیں۔ اور جنہوں نے عمرانی رنگدار عینک پہن رکھی ہے ان کو بھی یہ سب کچھ نظر آنے لگا ہے مگر جن کی بینائی عمران داری کی نذر ہوچکی ہے، ان کی باچھیں اب بھی کھلی ہیں، جن میں اکثریت ان بھگوڑوں کی ہے جو ملک چھوڑ چکے ہیں اور سمندر پار سے سنگ باری کر رہے ہیں۔
اب منظر نامہ بہت واضح ہوچکا ہے ۔ پشاور سے گرفتار چند بلوائیوں کا تعلق افغانستان سے نکلا، جو تربیت یافتہ بھی تھے اور خطرناک بھی۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ اقتدار کی ہوس میں ایک شخص اپنے ہی ملک پر کس طرح چڑھ دوڑا۔ پرتشدد واقعات میں جو سہولت کار، منصوبہ ساز اورسیاسی بلوائی ملوث ہیں ان کی شناخت کر لی گئی ہے، ان میں سے بہت سے گرفتار بھی ہوچکے ہیں، باقیوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ان میں جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہائوسز، دفاعی انسٹالیشنز پر حملے میں ملوث اور شہداء کی یادگاروں کی توہین، توڑنے اور نذر آتش کرنے والے شامل ہیں۔
ملک دشمنی تو ثابت ہوچکی ہے مگر چادر اور چاردیواری کے تحفظ کے علمبردار عمران اور فتنہ عمرانیہ کے عمران داروں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا چادر اور چاردیواری کا تقدس صرف ان کا ہوتا ہے؟ اگر پولیس معاشرے کے ناسور کسی منشیات فروش کے گھر پر بھی چھاپہ ماریں تویہی پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا گینگ اداروں کی بینڈ بجا دیتاہے۔ کیا کور کمانڈر لاہور کی چادر اور چاردیواری کا کوئی تقدس نہیں تھا؟ کیا اس کے گھر کی خواتین کی کوئی عزت نہیں تھی؟
ہر بندہ اپنے گھر کا سوچے کہ اگر ایسا ایک جلوس آپ کی گھر کی دیوار توڑ کر آپ کے گھر میں گھس آئے، اورگھر کا سب کچھ لوٹ کر لے جائے، آپ کی خواتین کو گھر میں گھیر لے؟ تو آپ کے کیا تاثرات ہوںگے؟ آپ کو احتجاج سے کسی نے منع نہیں کیا لیکن کسی کے گھر میں گھس کر لوٹ مار کرنا کسی صورت سیاست اور سیاسی احتجاج سے جوڑا نہیں جاسکتا، یہ ننگی دہشت گردی ہے۔
چادر اور چاردیواری کے تحفظ کے لیے پاکستان کے قانون و آئین اور شریعت مطہرہ میں گھر کے اندر بلا اجازت داخل ہونے والے کا انجام واضع ہے مگر افواج پاکستان نے گھر کے اندر داخل ہونے والے بلوائیوں پر بھی گولی نہیں چلائی۔ جس پر مجھ سمیت ہر محب وطن پاکستانی پریشان تھا کہ آخر اتنی ڈھیل کیوں؟
مگر آرمی چیف کی صدارت میں اسپیشل کور کمانڈر اجلاس اور ان کے فیصلوں نے غمزدہ اور افسردہ محب وطن پاکستانی کو حوصلہ دیا کہ اب کوئی دہشت گرد، ان کے ہینڈلرز، دہشت گردی کی پلاننگ کرنے والے، اس میں ساتھ دینے والے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں بچے گا اور سب کے مقدمات آرمی ایکٹ کے مطابق چلیں گے اور اس جرم کی سزا عمر قید حتیٰ کہ سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا پہاڑوں میں چھپتے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا قومی فریضہ اور جہاد ہے بالکل اسی طرح ہمارے شہروں میں بیٹھے ان سفید پوش سیاسی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا پاک فوج اور سول سکیورٹی اداروں پر واجب ہے۔
جی ایچ کیو پر ماضی میں حملہ ٹی ٹی پی نے کیا تھا اور اب کی بار عمران دارفدائین نے۔ کورکمانڈر ہائوس پشاور اور لاہورجناح ہائوس میں ان دہشت گردوں نے گھسنے کا سوچا بھی نہیں ہوگا مگر عمران دار فدائین نے لوٹ مار کے بعد اسے راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ یہ تو شکر ہے ورنہ عمران کے فدائین تو سرگودھا اور میانوالی کے ائیر بیسز جلانے کے لیے گھسنے پر بضد تھے، مگر افواج پاکستان نے بڑی حکمت اور تدبر کے ساتھ اس ہولناک سازش کو ناکام بنایا، مگر ایم ایم عالم کے اس تاریخی جہاز کے ماڈل کو نذر آتش کر گئے جس پر ایک منٹ کے اندر انھوں دشمن کے پانچ طیارے مار گرانے کا عالمی ریکارڈ قائم کرکے بھارت کے عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا۔
ان سیاسی بمبار دہشت گردوں کو عبرتناک سزا دینا اب ناگزیر ہے، اگر چہ پی ڈی ایم کی ڈھیلی ڈھالی حکومت نے بھی غیر متوقع طور پر ہمت پکڑ لی ہے مگر اگر انھوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کی آڑ میں اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو پھر ایمرجنسی نافذ کرنا پڑے یا مارشل لاء لگانا پڑے اس ناسور کو ختم کرنا پڑے گا، ورنہ یہ عمران دار سیاسی خود کش اس ملک کے بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی پیشینگوئی کو قوم اور ہمارے قومی سلامتی کے ادارے بہت سطحی طور پر لے رہے ہیں۔
عمران احمد نیازی کے بعد ان کے صاحبزادوں کو ان کا جانشین بنا کر میدان میں اتارنے کی قیاس آرائیاں بھی ہورہی ہیں اور رائے عامہ بنانے اور ہموار کرنے کا کام شروع ہوچکا ہے۔یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ پامسٹری کے ماہرین کے ذریعے من پسند زائچے نکالنے کا کام شروع ہے اور سوشل میڈیا کے پی ٹی آئی پلیٹ فارم سے اس کی تشہیر جاری ہے۔ لہٰذا معاملات خاصے آگے بڑھ چکے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار بہت احتیاط اور باریک بینی سے اپنی اندرونی صفائی بھی کرنا پڑے گی۔
موجودہ حالات سے پریشان پاکستانیوں کو کہتا ہوں کہ مایوسی کفر ہے اور اللہ رب العزت شر سے خیر برآمد کرنے پر قادر ہے، انشاء اللہ بہت جلد پاکستان کومعاشی استحکام حاصل ہوگا۔ ہم سب کو محب وطن قوتوں کا ساتھ اور پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔