پی آئی اے طیارہ حادثے کی حتمی رپورٹ 3 سال بعد بھی پیش نہ کی جاسکی
پی کے 8303 کے حادثے میں عملے کے 8 ارکان سمیت 97 افراد جاں بحق ہوئے تھے
جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب پی آئی اے کے گرکرتباہ ہونے والے بدقسمت طیارے کے حادثے کو تین سال بیت گئے لیکن حادثے کی حتمی رپورٹ 3 سال بعد بھی پیش نہیں کی جاسکی۔
22 مئی 2020 کو جمعتہ الوداع کی دوپہر پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 کے حادثے میں عملے کے 8 ارکان سمیت 97 افراد جاں بحق ہوئے تھے، یہ کوویڈ کی پابندیوں کے سبب دو ماہ کی بندش کے بعد پہلی پرواز تھی جومنزل مقصود پرنہ پہنچ سکی تھی، پروازمیں سواربیشترمسافرعیدالفطرپرگھرواپس آرہے تھے۔
پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 نے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے دن ایک بجکر 10منٹ پر کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ کے لیے اڑان بھری تھی، دوپہر 2 بجکر 37 منٹ پر طیارے کی کراچی ایئرپورٹ پر لینڈنگ بھی ہوئی مگر ناہموارلینڈنگ کے بعد جہاز کے کپتان نے طیارے کو دوبارہ گراؤنڈ کی غرض سے ٹیک آف کیا مگررن وے سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایئرپورٹ کے قریب واقع رہائشی آبادی جناح گارڈن پرگرکرتباہ ہوگیا۔
پی آئی اے کا تباہی سے دوچارہونے والا طیارہ 11 سال پرانا تھا، طیارہ 2 بجکر 37 منٹ پر جس وقت رن وے پر پہنچا تو ڈیوٹی پرمامور ایئرٹریفک کنٹرولرنے جہاز کے کپتان سجاد گل کو پیغام دیا کہ طیارے کی بلندی اوررفتارزیادہ ہے، جہاز 1800 فٹ کے بجائے 3000 ہزارفٹ کی بلندی پر ہے جس پر کپتان نے اونچائی اور رفتار کو کنٹرول کرنے کا جواب دیا۔
اس دوران جہاز نے بغیر لینڈنگ گیئر کے رن وے پر ٹچ ڈاون کیا، پہلی لینڈنگ کے دوران طیارہ کئی میٹرتک رگڑتا چلا گیا جبکہ انجن کے رن وے سے ٹکرانے کی وجہ سے چنگاریاں نکلیں، اسپیڈ زیادہ ہونے کے باعث پائلٹ نے ٹیک آف کرکے گراؤنڈ کا فیصلہ کیا، حادثے کے کچھ عرصے کے بعد ایئرپورٹ رن وے پر نصب سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج سے یہ بات مزید واضح ہوئی کہ اترنے وقت طیارے کا لینڈنگ گیئرنیچے نہیں ہوا تھا۔
طیارے کے رن وے پرٹکراؤ اورگراؤنڈ کے دوران جہاز کے کپتان کا کنٹرول ٹاور سے ایک منٹ سولہ سیکنڈ رابطہ رہا جس کے دوران پائلٹ نے ائرٹریفک کنٹرولرز کو لینڈنگ گیئر جام ہونے اورانجن خراب ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے دو مرتبہ مے ڈے کال دی،(انتہائی مشکل اورنامساعد حالات کے دوران ہنگامی اطلاع) کی کال کے بعد جہازاگلے چند ساعتوں بعد ریڈارکے نقشے سے غائب ہوگیا، گراونڈ کی کوشش کے دوران طیارہ رن وے سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع رہائشی علاقے جناح گارڈن کے ایک مکان کی بالائی منزل سیمنٹ سے بنی پانی کی ٹنکی سے ٹکرایا اوربعدازں دیگر مکانوں پرزوردارآوازکے ساتھ گرگیا،جس کی وجہ سے کئی مکانات مکمل اورجزوی طورپر متاثر ہوئے،اورگھروں کے باہر پارک کئی کاروں اورموٹرسائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا۔
طیارہ حادثے میں زندہ بچنے والے بینک آف پنجاب کے صدرظفرمسعود اور پیشے کے اعتبار سے مکینکل انجیئنرمحمد زبیرنامی مسافرخوش قسمت رہے، ملکی سطح پرطیارہ حادثے کی تحقیقات حکومت کی جانب سے قائم پاکستانی ٹیم ائرکرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ نے ائرکموڈور عثمان غنی کی سربراہی میں تحقیقات شروع کی، حادثے کے تین روز بعد ائربس کی 11رکنی ٹیم کراچی پہنچی، جنہوں نے بدقسمت طیارے کے انجنوں، لینڈنگ گیئر،ونگز اورایویانیکس سسٹم کا معائنہ کیا اوربعدازاں جائے حادثہ سے ملنے والے بلیک باکس اوروائس ریکارڈرکو ڈی کوڈ کرنے فرانس گئے۔
حادثے کے ایک ماہ بعد حکومت کی جانب قومی اسمبلی میں عبوری رپورٹ پیش کئی گئی جس میں سابق وفاقی وزیرہوابازی کا کہنا تھا کہ پائلٹ نے ائرٹریفک کنٹرولرز کی ہدایات کو نظراندازکیا جبکہ دونوں پائلٹ کے ذہنوں پرکورونا سوارتھا، وہ دماغی طور پر غیر حاضراور حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکارتھے۔
ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان کے مطابق اب تک طیارے میں جاں بحق ہونے والے 80مسافروں کے لواحقین کو ایک کروڑ روپے فی کس انشورنس،10لاکھ روپے فوری ضروریات یعنی تجہزوتدفین جبکہ ایک لاکھ روپے ان کے سامان کی مد میں ادائیگی کی جاچکی ہے، باقی مسافروں کی ادائیگیاں ان کے لواحقین کے وراثت کے حوالے سے عدالتی کیسز اوروراثتی سرٹیفکیٹ جمع نہ کروانے کی وجہ سے نہیں ہوسکیں۔
ترجمان پی آئی اے کے مطابق طیارہ حادثے کی حتمی رپورٹ آنے میں مزید ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، مستقبل میں ان واقعات کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کئی اصلاحی اقدامات کیے گئے ہیں،جن میں مسافروں کے تحفظ کے لیے سیفٹی مینجمنٹ سسٹم سرفہرست ہے،قومی ائیر لائن کے طیاروں پر لاگو اس نظام کو طیارہ ساز اداروں بوئنگ اور ائیربس نے عالمی معیار کے عین مطابق قراردیا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ رسک اسسٹمنٹ کے بعد اگر کوئی بھی کاک پٹ کریو( کپتان اور نائب کپتان)معمولی سی غلطی کا بھی مرتکب ہوتا ہے تو اس جہاز کے رن وے پر لینڈنگ کے فوری بعد اس نشاندہی ہوجاتی ہے، اس نظام اور ہوابازی کے قواعد و ضوابط سے متصادم کسی بھی اقدام کی صورت میں مرتکب کاک پٹ کریو کے لیے سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں، جن میں جہاز اڑانے کے بجائے اس کو گراونڈ کرنے، لائسنس کی منسوخی جبکہ تربیتی کورسز کروانے جیسے عوامل کو شامل رکھا گیا ہے۔