سندھ کے لوکل باڈیز الیکشن بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق بااختیار بنایا جائے

مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کا ’’ایکسپریس فورم کراچی‘‘ میں اظہار خیال


مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کا ’’ایکسپریس فورم کراچی‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : ایکسپریس

سندھ کے بلدیاتی نظام کے بحران کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم کراچی'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مرتضیٰ وہاب

(ترجمان سندھ حکومت و سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی)

2001ء اور 2005ء کے بلدیاتی نظام جب نعمت اللہ اورمصطفی کمال ناظم تھے، اس وقت یہ تھا کہ کوئی بھی شخص جس کے پاس کونسل میں اکثریت ہو، وہ ناظم کا الیکشن لڑ سکتا ہے۔

ہم نے نئے قانون میں یہی منظور کیا ہے کہ جس طرح کوئی بھی شخص 2001ء میں ناظم منتخب ہوسکتا تھا، اسی طرح وہ اب میئر کا انتخاب لڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس کے پاس کونسل ممبران کی اکثریت ہو اور پھر 6 ماہ میں اسے خود کو کسی یونین کونسل سے منتخب کرانا ہوگا۔

اس طرح کی روایت آئین پاکستان کے تحت وفاقی و صوبائی سطح پر بھی نظر آتی ہے کہ کوئی بھی شخص وفاقی یا صوبائی وزیر بن سکتا ہے، بعدازاں چھ ماہ کے اندر اسے قومی اسمبلی، سینیٹ یا متعلقہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ کر رکن بننا ہوگا۔ سندھ میں بلدیات کی تمام نشستوں پر عام و ضمنی انتخابات ہوچکے ہیں۔

اصولی طور پر تو ضمنی انتخابات کا انتظار کیے بغیر ہی الیکشن کمیشن کو میئر و چیئرمین کا انتخاب کروا لینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ پہلے فیز کے انتخابات کو سوا سال گزر چکے، ان کے نمائندوں نے نہ حلف لیانہ ہی میئر و چیئرمین کا انتخاب ہوا۔ اسی طرح کراچی، حیدر آباد میں بھی 5 ماہ گزر چکے ہیں، اب چند دن کا کام رہ گیا ہے، مناسب یہ ہے کہ انتخابی عمل کو مکمل کرکے، عوام کے منتخب نمائندوں میئر ، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین کا مرحلہ مکمل ہو تاکہ عوام کے مسائل حل کیے جاسکیں۔

کراچی میٹرو پولیٹن سٹی کی کونسل میں جس جماعت کے زیادہ نمائندے ہیں، میئر بنانے کا پہلا حق اس کا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے لہٰذا میئر ہمارا ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات اور نظام کے حوالے سے مخالف جماعتیں بلاوجہ تنقید کر رہی ہیں۔دھرنے اور احتجاج کی سیاست کو ختم کریں، تمام سیاسی جماعتیں بیٹھیں، چارٹر آف کراچی بنائیں اور یکسوئی کے ساتھ مل کر لوگوں کی خدمت کریں، سب کو اپنی اناء کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔

ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے تاکہ عوام کی خدمت کی جاسکے۔ مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم، 'پی ڈی ایم' کی صورت میں وفاق میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ جماعت اسلامی کو بھی سوچناچاہیے کہ دھرنوں سے باہر نکلیں، جن ٹاؤنز میں اکثریت ملی ہے وہاں اپنی حکومت بنائیں اور لوگوں کی خدمت کریں۔ کراچی میں پیپلزپارٹی کی مدد کریں تاکہ مل کر اس شہر کی خدمت کی جاسکے۔

حافظ نعیم الرحمان

(امیر جماعت اسلامی کراچی)

کراچی میں بلدیاتی نظام کے تسلسل کے حوالے سے ایک ناخوش گوار تاریخ ہے۔ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، سب نے ہی نچلی سطح پر اقتدار کی منتقلی سے جان چھڑائی ہے۔

اس کی وجہ اراکین اسمبلی ہیں جو لوکل باڈیز کے نمائندوں کو اپنی سیاست کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ جب دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ قریب آیا تو پیپلزپارٹی نے انتخابات نہ کروانے کی کوشش کی۔ اس پر جماعت اسلامی نے ''حق دو کراچی تحریک''کا آغاز کیا ۔

احتجاجی دھرنا طویل ہوتا دیکھ کر بالآخر صوبائی حکومت کی نامزد کمیٹی نے دھرنے کے مقام پر میڈیا اور عوام کے سامنے ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق سندھ لوکل گورنمٹ ایکٹ 2021میں بہتری اور بلدیاتی اختیارات کی غرض سے جماعت اسلامی اور حکومت سندھ کی کمیٹی بنائی گئی جس میں بلدیاتی ایکٹ میں جو حقوق غصب کیے گئے تھے وہ بلدیہ کو واپس کردیے جانے کا وعدہ کیا اور کہا کہ میئر کراچی واٹر وسیوریج بورڈ کے چیئرمین ہوں گے۔

بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے 30دنوں کے اندر PFCکی تشکیل اور ایوارڈ کا اعلان کیا جائے گا۔PFCکے تحت ٹیکس کا حصہ 1999ء کے قانون کے تحت کیا جائے گا،یوسیز کے تناسب سے فنڈز دیے جائیں گے،سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے بعد90دن میں انتخاب کا اعلان کردیاجائے گا۔

سندھ حکومت تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی میں اہم کردار اداکرے گی،کے ایم ڈی سی کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے۔ معاہدہ ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ادارہ نور حق کا دورہ کیا اور معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی لیکن کچھ ہی دن کے بعد حسب سابق پیپلز پارٹی نے روایتی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا، الیکشن کمیشن نے مختلف وجوہات پر تین مرتبہ انتخابات ملتوی کیے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی نے سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پٹیشن دائر کی جس کے بعد بالآخر 15جنوری کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ جماعت اسلامی نے کراچی میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے شہر کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

الیکشن کا پہلا مرحلہ منعقد ہونے کے بعد اگلے مرحلے میں 11خالی نشستوں پر (جن کے امیدواروں کے انتقال ہوگیا تھا) انتخابات ہونے تھے تاخیر ہوتی گئی۔ پھر ان انتخابات میں دھاندلی گئی اور جماعت اسلامی 11میں سے 4نشستوں پر کامیاب ہو سکی۔ انتخابی مرحلہ تقریباً مکمل ہو گیا لیکن عوامی مسائل بدستور جوں کے توں ہیں جس کی وجہ سے لوگ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں، ایسی صورتحال میں مناسب یہ ہی ہے کہ الیکشن کے مراحل مکمل کر کے منتخب نمائندوں کو باقاعدہ اختیارات دیے جائیں ۔

تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے میئر کے لیے حمایت کا اعلان کیا ہے، پیپلز پارٹی 9مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر یوسی چیئرمینز کے خلاف مقدمے بنا کر انہیں انتخابی عمل سے دور رکھنا چاہتی ہے، اس کو دیکھنا ہوگا۔

خرم شیر زمان

(پارلیمانی لیڈر پی ٹی آئی سندھ اسمبلی)

سندھ بالخصوص کراچی کے ساتھ پیپلزپارٹی نے 15 برسوں کے دوران سوتیلی ماں سے بھی بدتر سلوک کیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں جس طرح حکومت نے بلدیاتی ایکٹ پاس کیا، اس سے اس کی بدنیتی واضح ہوگئی ہے۔

مئیر کا منصب عوام کے منتخب کردہ نمائندے کیلئے ہوتا ہے جبکہ سندھ حکومت کے کالے بلدیاتی قانون کے مطابق کسی بھی غیرمنتخب فرد کو مئیر یا ڈپٹی مئیر بنایا جاسکتا۔6 ماہ کے بعد انتخابات میں جانے کی شرط خانہ پوری سے زیادہ کچھ نہیں۔ پیپلز پارٹی کے نمائندے تو الیکشن کے بعد نظر ہی نہیں آتے، آج تک سندھ کے عوام ان نمائندوں کو اپنے حلقوں میں تلاش کررہے ہیں۔

سندھ میں ناقص بلدیاتی نظام کے باعث سیلاب کی صورتحال پیش آئی اور سندھ کے باسیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ کراچی میں پیپلزپارٹی کی غفلت سے بارشوں میں ہر سڑک تالاب کا منظر پیش کرتی ہے،پی ٹی آئی کے دورحکومت میں کراچی کے 3 بڑے نالوں کی صفائی کرائی گئی جس سے کراچی میں تباہی میں کمی آئی تھی،مگر 2022 میں کراچی کی اہم شاہراہیں ایک مرتبہ پھر حکومتی لاپرواہی سے زیر آب آئی اور لوگوں کے گھروں میں قیمتی سامان کو نقصان پہنچا۔

سندھ حکومت نے اس وقت پی ٹی آئی کیخلاف گرفتاریوں کا عمل اس لیے تیز کیا ہے تاکہ کراچی میں باآسانی اپنا مئیر لاسکیں کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کی موجودگی پیپلز پارٹی کو ان کے ذاتی مقاصد میں کامیابی کیلئے رکاوٹ ثابت ہوگی۔

محمد حسین خان

(رکن سندھ اسمبلی ایم کیو ایم و سابق وزیر بلدیات)

ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر، جہاں بھی شہروں اور دیہاتوں میں ترقی ، بہترصفائی ستھرائی،تعلیمی نظام، صحت، ٹرانسپورٹ، ٹریفک کنٹرول کا نظام بہتر نظرآتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں بااختیار بلدیاتی نظام موجود ہے جسے کاسموپولیٹن سٹی یا نظام کہا جاتا ہے۔

یہ مکمل طور پر خود مختار ہوتا ہے، ریونیو سے لے کر انتظامی اختیارات اور ترقیاتی منصوبوں سمیت ہر طرح کے اقدامات کیلئے مضبوط اور بااختیار ہوتا ہے، اس پر وفاقی و صوبائی حکومتیں اثر انداز نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں شہری و دیہی علاقے ہر گزرتے دن کے ساتھ زبوں حالی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے بااختیار نہیں۔ سوائے جنرل(ر) پرویز مشرف کی حکومت کے، کسی وفاقی و صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو سیاسی، مالی اور انتظامی طور پر بااختیار نہیں بنایا بلکہ انہیں صوبائی حکومتوں کے مرہون منت رکھا۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے شہر ہوں یا دیہات، ان کا انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے، وہ پانی کی کمی کا شکار ہیں، وہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات مخدو ش ہیں، تفریحی پارکس، کھیل کے میدان، فٹ پاتھ، سٹریٹ لائٹس سمیت کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے، سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، مقامی پولیس نہ ہونے کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہو رہی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان جب سے سیاست میں آئی ہے، اس دن سے ہی ہماری اولین ترجیح، کوشش اور مطالبہ رہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو آرٹیکل 140 کے تحت مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات دے کر انہیں خودمختار بنایا جائے۔ جب وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی نظام سے اختیارات لے کر اسے مفلوج کر دیا تو ہم 2017ء میں ہم سپریم کورٹ گئے اور دسمبر 2021ء میں ہم نے کیس جیتا اور عدالت عظمیٰ نے حکومت سندھ کو احکامات صادر کیے مگر تاحال ان پر عملدرآمد نہیں ہوسکا جو افسوسناک ہے۔

اگر حکومت چاہتی ہے کہ شہر اور دیہات ترقی کریں تو پھر دنیا میں کامیابی سے چلنے والے بلدیاتی نظام کو، جو لوگوں کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر موثر انداز میں حل کرتا ہے،میرے نزدیک آئین کا آرٹیکل 140 بلدیاتی اداروں کے حوالے سے نامکمل ہے۔بلکہ آرٹیکل 140(A) کی ضرورت ہے جس میں باقاعدہ ہر بلدیاتی حکومت کے بعد نگران سیٹ اپ کا ذکر ہو اور 90 روز میں بلدیاتی انتخابات کروانے کیلئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو پابند کیا جائے۔صوبائی فنانس کمیشن کا بھی اس میں ذکر ہو، طریہ کار رج ہو کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے میٹروپولیٹن سٹیز، ڈسٹرکٹ کونسلز، ٹاؤن و دیگر کو کس فارمولا کے تحت بجٹ دیاجائے گا۔

بلدیاتی حکومتوں کو آئینی ترمیم لاکر ، آئینی تحفظ دیا جائے اور بااختیار بنایا جائے۔ بھارت کے آئین میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے ایک مکمل چیپٹر موجود ہے کہ کس طرح بلدیاتی ادارے کام کریں گے اور ان کے پاس کیا اختیارات ہونگے۔ وہاںکوئی وفاقی یا صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کے اختیارات صلب نہیں کرسکتی۔

اسی طرح لندن، نیویارک، ٹوکیو و دیگر بڑے میٹروپولیٹن سٹیز کے بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ حاصل ہے، کوئی بھی حکومت اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی نہیں کر سکتی۔ میرے نزدیک اگر ہم بلدیاتی اداروں کوآئینی تحفظ دینے اور انہیں صحیح معنوں میں بااختیار بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارے شہری و دیہی علاقے ترقی کر جائیں گے، وہاں کا انفراسٹرکچر بہتر ہوگا اور لوگوں کے مسائل حل ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں