جب میرے خلاف توہین عدالت کا کیس چلایا گیا

سیاستدان بھی بیان سے مکر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ’’ میرے بیان کو غلط طور پر شایع کیا گیا ہے‘‘


[email protected]

کتابیں دلچسپ ہوں تو اکٹھی پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ اِس وقت چار کتابیں زیرمطالعہ ہیں، دنیائے عرب کے چوٹی کے اسکالر علامہ یوسف القرضاوی (جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے) کی تحریروں کو دنیا بھر میں بڑی سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے۔

ان کی مشہور کتاب '' اسلام اور سیکولرازم'' کا مطالعہ کررہا تھا کہ معروف سفارتکار اور کالم نویس جناب جاوید حفیظ صاحب (جو کئی ملکوں میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں، عربی زبان پر مہارت اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری نظر رکھتے ہیں) نے اپنی نئی کتاب ''احوالِ عالم'' بھیج دی۔ سفیر صاحب کی تعیناتی مختلف ممالک میں رہی ہے، ان ملکوں کے حالات انھوں نے بڑے دلچسپ پیرائے میں تحریر کیے ہیں، جنھیںمیں بڑے انہماک سے پڑھ رہا تھا کہ کشمیر کے معروف رہنما شیخ عبداللہ کی خودنوشت ''آتشِ چنار'' موصول ہوگئی۔

میں نے چھ سو صفحے کی ضخیم کتاب اس لیے پڑھ ڈالی کہ میں جاننا چاہتا تھا کہ '' شیرِ کشمیر'' کہلانے والا شخص کشمیریوں کے جذبات پامال کرکے کانگریس کی زلف کا اَسیر کیسے بن گیا اور ہندو ذہنیت جانتے ہوئے بھی کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس پاکستان کے ساتھ الحاق کا مخالف بن کر کشمیر کی لگام نہرو کے ہاتھ میں دینے پر کیسے تیار ہوا؟ کتاب میں مجھے کچھ سوالوں کے جواب ضرور ملے۔

چوتھی کتاب بھارت کی معروف اور جرأت مند رائیٹر اور انسانی حقوق کی علمبردار ارون دھتی رائے کی انگریزی تصنیف ''آزادی'' ہے جو بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ ہندوتوا کے علمبرداروں کے مظالم کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ چاروں کتابیں تقاضا کرتی ہیں کہ ان پر تفصیل سے تبصرہ لکھا جائے مگر فی الحال قارئین کی خواہش پر اپنی خودنوشت کے کچھ اوراق شیئر کررہا ہوں ... یہ سلسلہ اب گاہے بگاہے جاری رہے گا۔

1997میں مجھے لاہور پولیس کا سربراہ مقرر کیا گیا، لاہور پولیس کی سربراہی بلاشبہ ایک بڑا اعزاز ہے، اُس گریڈ میں (اُس وقت ایس ایس پی لاہور پولیس کا سربراہ ہوتا تھا، اب گریڈ 21کا افسر لگایا جاتا ہے جو سی سی پی او کہلاتا ہے) یہ تعیناتی پورے ملک میں پولیس کی سب سے prestigious پوسٹنگ سمجھی جاتی تھی۔

میں گورنر صاحب کوcall on کرنے گیا تو ان کے ملٹری سیکریٹری نے بتایا کہ گورنر ہاؤس کے ریکارڈ میں یہ درج ہے کہ ایس ایس پی لاہور گورنر پنجاب کو ملنے جاتے تھے تو اس کے بعد گورنر بھی جوابی ملاقات (Return Call)کے لیے ایس ایس پی لاہورکے دفتر جایا کرتے تھے۔

میری تعیناتی کے فوراً بعد مجھے نوائے وقت کے مالک اور چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی صاحب کا فون آیا، انھوں نے خیرمقدمی کلمات کے بعد کہا کہ ''پچھلی بار تو آپ کے نوائے وقت سے تعلقات اچھے نہیں رہے مگر اب ایسا نہیں ہوگا، کل انٹرویو کے لیے ہماری ٹیم آپ کے پاس آئے گی، آپ انھیںانٹرویو ضرور دیجیے۔'' دوسرے روز ٹیم پہنچ گئی۔

میں نے ان سے بات چیت کے دوران کہا کہ ''میں پولیس کی سوچ اور outlook تبدیل کرنے کی کوشش کروںگا اور تھانوں کا فرسودہ کلچر تبدیل کرنا میری اوّلین ترجیح ہوگی'' اس پر دوسرے روزاسی روزنامے نے صفحۂ اوّل پر یہ سرخی جمائی ''میں تھانہ کلچر تبدیل کروںگا، ایس ایس پی لاہور'' اس کے بعد سے تھانہ کلچر کی اصطلاح کا جائز اور ناجائز استعمال شروع ہوگیا اور ہر سیاستدان نے تھانہ کلچر پر طبع آزمائی شروع کردی۔

ایک دو روز بعد ایک دوسرے اخبار سے کال آئی کہ ہماری ٹیم بھی انٹرویو کے لیے پہنچ رہی ہے۔ اُس وقت پرائیویٹ چینلز کا ابھی ظہور نہیں ہوا تھا۔اس اخبار کی طرف سے مقصود بٹ (جو میرا لاء کالج کے زمانے کا دوست تھا۔اس کا تعلق بھی گوجرانوالہ سے تھا۔ کالج میں وہ اپنی پہلوانی اور جسمانی صلاحیّتوں کی وجہ سے معروف تھا مگر بعد میں اس نے کتاب سے ناتا جوڑ لیا اور بے پناہ مطالعے سے علمی اور صحافتی میدان میں بھی اپنا مقام پیدا کر لیا) انٹرویو کے لیے آئے۔

انھیں بھی میں نے اپنی ترجیحات بتائیں۔ انٹرویو کے دوران مختلف موضوعات پرمیں اپنا وژن اور نقطہ نظر بتاتا رہا۔ اس کے بعد میں نے ان کے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ ''وہ عوامل جن سے لاہور پولیس کا مورال گرا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہائیکورٹ میں ہر روز سیکڑوں پولیس افسروں کو بلاکر ان سے توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پولیس افسر عدالتوں میں ملزم کی حیثیت سے نہیں بلکہ گواہ کی حیثیت سے جاتے ہیں اور دنیا بھر کی عدالتوں میں انھیں عزت وتکریم دی جاتی ہے مگر لاہور ہائیکورٹ کے کچھ جج صاحبان پولیس افسروں کے ساتھ ملزموں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ انھیں کرسی پر بیٹھنے کی بھی اجازت نہیںدیتے، پولیس افسروں کو مجرموں کی طرح treatکرنا انتہائی نا مناسب ہے، اس سے پولیس کے مورال پر بڑا منفی اثر پڑتا ہے۔

میں اس سلسلے میں جلد ہی نئے چیف جسٹس صاحب سے ملوںگا اور یہ اِشو اِن کے نوٹس میں لاؤں گا'' اس مرحلے پر انٹرویو تو ختم ہوگیا مگر اٹھتے اٹھتے مقصود بٹ نے کہا ''اگر چیف جسٹس صاحب سے ملاقات کے بعد بھی پولیس افسروں کے ساتھ یہ سلوک جاری رہا تو پھر آپ کیا کریں گے''؟

اب ہم کمرے سے اُٹھ آئے تھے اور میں اپنی گاڑی کی جانب جارہا تھا، میں نے ہنستے ہوئے کہا '' پھر تو سپریم جو ڈیشل کونسل ہی رہ جاتی ہے'' میرا خیال تھا کہ یہ آخری فقرہ انٹرویو کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا مگر دوسرے روز اخبار کے صفحۂ اوّل پر چار کالمی سرخی لگی ہوئی تھی ''عدالتوں میں پولیس افسروں کے ساتھ بدسلوکی ختم نہ ہوئی تو ہم سپریم جوڈیشل کونسل جائیں گے''۔ ایس ایس پی لاہور۔

مجھے افسوس ہوا کہ جو بات انٹرویو کا حصہ نہیں تھی اسے سرخی بنادیا گیا۔ بہرحال میں اس قدر مصروف تھا کہ اس کے نتائج پر غور نہ کر سکا۔ اب ہائیکورٹ کے اندرونی ذرایع سے جو خبریں ملیں ان کے مطابق یہ ہوا کہ صبح دس بجے کی چائے پر جج صاحبان کی گفتگو صرف ایک نقطے پر ہوتی رہی اور وہ تھی۔

ایس ایس پی لاہور کا گستاخانہ انٹرویو اور توہین آمیز بیان۔ کچھ جج صاحبان نے چیف جسٹس صاحب کو گھیر لیا اور کہا کہ اب یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ایس ایس پی لاہور ججوں کو دھمکیاں دے رہا ہے اور چیف جسٹس خاموش ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس ماحول میں چیف جسٹس صاحب کیسے خاموش رہتے چنانچہ اُسی روز مجھے لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا۔

ایس ایس پی لاہور کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری ہونے کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی، اس سے میری فیملی اور عزیز و اقارب کو بلاشبہ پریشانی لاحق ہوئی، میرے سگے ماموں جان ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج رہ چکے تھے، سب سے پہلے ان کا فون آیا اور انھوں نے فیملی کے بزرگ کی حیثیت سے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت کسی مسئلے پر سمجھے کہ اس کی توہین ہوئی ہے تو پھر بحث کی گنجائش نہیں رہتی، غیر مشروط معافی ہی اس کا واحد حل ہے۔

اسی نوعیت کا مشورہ مجھے بڑے بھائی جان (وہ بھی جج تھے) نے بھی دیا۔ ہمارے ایک اور قریبی عزیز جسٹس عبدالحفیظ چیمہ اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے سرونگ جج تھے۔ انھوں نے بھی مجھے ہمدردانہ مشورہ دیا کہ ''ہائیکورٹ کا موڈ سخت خراب ہے اس لیے معافی مانگ کر بات ختم کی جائے'' کچھ سینئر افسروں اور کئی صحافی دوستوں نے مشورہ دیا کہ '' آپ اس خبر کو disown کردیں، یہ معمول کی بات ہے۔

سیاستدان بھی بیان سے مکر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ'' میرے بیان کو غلط طور پر شایع کیا گیا ہے'' خود اخبار کی انتظامیہ یہی توقع کررہی تھی کہ میں خبر سے لاتعلقی کا اظہار کروںگا، مگر کچھ صحافیوں کے پوچھنے پر میں نے کہا ''میں ایک یونیفارم فورس کا سربراہ ہوں، بیان سے مکرنا میں اپنی اور فورس کی توہین سمجھتا ہوں'' عام لوگوں کا خیال ہوگا کہ ایس ایس پی لاہور کو تو حکومت کی مکمل آشیرباد حاصل ہوگی مگر حقیقت یہ ہے کہ وزیرِاعلیٰ صاحب نے نوٹس جاری ہونے کے بعد نہ ہی فون کیا ، نہ انھوں نے کسی مدد کی پیشکش کی اور نہ ہی میں نے ان سے مدد مانگی۔

نوٹس ملنے کے دوسرے روز معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی (جوسفیر بن کر باہر جارہے تھے) کے اعزاز میں جمخانہ کلب میں ایک تقریب تھی جہاں میں بھی مدعو تھا ،وہاں تقریروں کے فوراً بعد صحافیوں نے مجھے گھیرلیااور نوٹس کے بارے میں میرا موقف پوچھنے لگے، میں نے کہا ''میں اپنا موقف عدالت میں بتاؤںگا''۔

انھوں نے کچھ اور سوال کیے تو میں نے کہا ''دیکھیں میں تو عدلیہ کی دل سے عزت کرتا ہوں، مگرکچھ کرپٹ اور بدنام ججوں کی منصب ِ قضاء پر موجودگی عدلیہ کی توہین ضرور ہے، اور عدالتِ عالیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے'' دوسرے روز علی الصبح آئی جی جہانزیب برکی صاحب کا فون آیا، سخت ناراض تھے، کہنے لگے ''ابھی آپ کے پہلے بیان کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ آپ نے ایک اور گولا داغ دیا ہے۔

لگتا ہے آپ سُولی پر چڑھنے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں ۔'' میں نے کہا '' نہیں سر! ایسی بات نہیں ہے۔'' کہنے لگے '' آج کے اخبار پڑھیں اور پھر مجھ سے بات کریں'' اخبار منگوائے تو میرا بیان پھر صفحۂ اوّل پر بہت نمایاں طور پر لگا ہوا تھا ''کرپٹ اور بدنام ججوں کی موجودگی عدلیہ کی توہین ہے،ایس ایس پی لاہور۔ آئی جی صاحب کا خدشہ درست تھا اور یہ ہائی کورٹ کو مزید ناراض کرنے والی بات تھی۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں