امتحانات بد انتظامی اور نقل
تعلیم کے محکمہ کے افسران عمومی طور پر ان الزامات کی تردید کرتے ہیں
ملک کی ترقی کا انحصار سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی پر ہے۔ سائنس کی دنیا میں کامیابی کے لیے تعلیمی معیار کا بلند ہونا ضروری ہے۔ تعلیمی معیار کی بلندی کے لیے امتحانات کا ایک شفاف اور اعلیٰ معیار کا نظام قائم ہونا ضروری ہے۔ تعلیمی معیار کی بنیاد اسکول کی تعلیم ہے۔
اسکول کی میٹرک تک تعلیم کے دوران طالب علم کی علمی بنیاد پڑتی ہے، یوں میٹرک کے امتحانات انتہائی اہم قرار دیے جاتے ہیں مگر جب بھی میٹرک کے امتحانات شروع ہوتے ہیں بدانتظامی اور نقل عام ہونے کے واقعات ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کی رپورٹر عائشہ خان انصاری نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کراچی میں میٹرک کے امتحانات میں بدنظمی کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ میٹرک کا امتحانی بورڈ شفاف نظام قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق نہم اور دہم جماعتوں کے امتحانات شروع ہونے کے بعد بھی طلبہ کے سینٹر تبدیل ہو رہے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ 400 سے زائد طالبات نے دو پرچوں کا امتحان اعظم بستی کے ایک نجی اسکول میں دیا، پھر ان طالبات کا سینٹر ایک پرائمری اور سیکنڈری اسکول میں منتقل کیا گیا۔ الشفیق اسکول کے پرنسپل طارق کا کہنا ہے کہ اس امتحانی مرکز میں کوئی بد انتظامی نہیں تھی۔ اچانک ڈی ڈی او اور اسسٹنٹ کمشنر نے اسکول کا دورہ کیا اور کہا کہ امتحانی مرکز تبدیل کیا جائے۔
اسکول کے پرنسپل نے یہ مفروضہ اخذ کیا کہ کچھ بااثر افراد کے دباؤ پر ڈی ڈی او اور اسسٹنٹ کمشنر نے امتحانی سینٹر تبدیل کرنے کے احکامات دیے۔
بورڈ کے ناظم امتحانات حبیب اﷲ نے سینٹر کی تبدیلی کے واقعہ کی تصدیق کی اور کہا کہ نجی اسکول غیر رجسٹرڈ تھا اور اس کی عمارت خستہ حالت میں ہے پھر اسسٹنٹ کمشنر فیروز آباد اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر نے کئی شکایات ملنے پر سینٹر کا دورہ کیا تو پتہ چلا کہ اسکول کے کمرہ میں 100طلبہ کے امتحان دینے کا گنجائش ہے مگر 30 طلبہ کو اس کمرہ میں بٹھا گیا ہے۔
اس اسکول میں بجلی بھی نہیں تھی نہ پینے کے پانی کا انتظام تھا ، کھلے عام موبائل فون استعمال ہو رہا تھا۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ الشفیق اسکول کے حالات کے بارے میں جو کہا گیا وہ درست ہو مگر پھر الزام محکمہ تعلیم کے افسروں پر آتا ہے کہ انھوں نے اسکولوں کے معائنہ کے بغیر انھیں امتحانی سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا جو ایک انتہائی سنگین غلطی شمار ہوتی ہے۔
صرف یہی اسکول نہیں بہت سے اسکول بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس رپورٹر نے مزید لکھا ہے کہ اورنگی ٹاؤن میں ایک اسکول امتحانی مرکز میں طلبہ شدید گرمی میں بغیر پنکھے کے ایک ڈیسک پر 3 طلبہ امتحان دینے پر مجبور ہیں۔ اسکول کے پرنسپل نے صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کو دو دن قبل ہی امتحانی سینٹر بنایا گیا۔
اس اسکول میں 400 طلبہ کی گنجائش ہے مگر ثانوی تعلیمی بورڈ نے 600 طلبہ بھیج دیے۔ بچے شدید گرمی میں اوپن ایریا کے گرین شیڈ میں امتحان دے رہے ہیں۔ اسکول کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فرنیچر کی عدم فراہمی اور خستہ حال عمارت کی بناء پر ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
میٹرک کے امتحانات میں محض انتظامی خامیاں ہی نہیں ہیں بلکہ نقل مافیا مکمل آزادی سے اپنے اہداف پورے کررہی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی نقل کی دوڑ میں آگے اور کھلے عام نقل کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کے ایجوکیشن رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نقل مافیا اتنی مضبوط ہے کہ امتحانی مرکز اپنی مرضی سے طے کرنے، امتحان سے 24 گھنٹے پہلے پرچہ آؤٹ کرنے اور واٹس ایپ پر حل شدہ پرچہ فراہم کرنے، امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال کے وقت نمبر بڑھانے کے علیحدہ علیحدہ نرخ مقرر ہیں۔
اس رپورٹر کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ بورڈ میں نقل مافیا کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اگر کوئی طالب علم حاصل کردہ نمبر سے مطمئن نہ ہو تو وہ ری چیکنگ کا فارم بھرے گا اور اس طالب علم نے مطلوبہ رقم مافیا کے ایجنٹ کو دیدی تو ری چیکنگ میں اس کو مطلوبہ نمبر مل جائیں گے۔
کراچی کے مضافاتی علاقوں میں امتحانی مراکز پر امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہے۔ کورنگی سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز عمر نے الزام لگایا ہے کہ کورنگی نمبر 5 میں قائم ایک اسکول میں کورنگی نمبر ڈیڑھ اور کے ایریا کی طالبات کا سینٹر بنایا گیا۔
اس اسکول کا عملہ طالبات سے پیسے طلب کرتا ہے اور یہ دھمکی دیتا ہے کہ جن طالبات نے 500 روپے فی پرچہ ادا نہ کیے تو ان کے پرچہ حل شدہ سوالات کے جوابات پر لال پین سے سوال کاٹ دیے جائیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر ممتاز عمر کا بیانیہ ہے کہ یہ مافیا کچھ برسوں پہلے فعال تھی مگر پھر انتظامیہ کی سختی کے بعد یہ سلسلہ رک گیا تھا مگر اب مافیا نے پھر معصوم طالبات کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ امتحانات میں بدنظمی امتحانات میں نقل، طلبا و طالبات سے زبردستی رقم کی وصولی جیسے واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں۔
تعلیم کے محکمہ کے افسران عمومی طور پر ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ہر سال امتحانات آتے ہی اعتراضات کی بھرمار ہوتی ہے۔ اس کی وجہ امتحانی نظام کا فرسودہ طریقہ کار ہے۔ اب دنیا کے بیشتر ممالک میں سالانہ امتحانات کا طریقہ کار متروک ہوچکا ہے۔ یورپ، امریکا اور کینیڈا وغیرہ میں سمسٹر کی بنیاد پر امتحانات ہوتے ہیں۔
اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے امتحان سے بدانتظامی اور پرچہ کے آؤٹ ہونے اور نقل جیسے جرم پر قابو پالیا گیا ہے۔ ضروری ہے کہ امتحانی طریقہ کار میں تبدیلی کی جائے اور سالانہ نظام امتحانات کو متروک کیا جائے۔
حکومت اسمارٹ امتحانی رومز بنائے۔ ایسے اسمارٹ رومز جن میں ہر طالب علم کے سامنے لیپ ٹاپ موجودہ ہوں۔ہر کلاس کا علیحدہ امتحانی پرچہ امتحان شروع ہوتے ہی لیپ ٹاپ میں وائرل ہو۔ امتحانی مرکز کی کلوز ڈور کیمروں کے ذریعہ نگرانی کی جائے۔
طالب علم لیپ ٹاپ کے اسکرین پر پرچہ دیکھ کر اس کو لیپ ٹاپ پر حل کرے اور خودکار نظام کے ذریعہ امتحان ختم ہونے کے بعد چند گھنٹوں بعد امتحانی نتیجہ ظاہر ہوجائے۔ مگر ایسے جدید امتحانی مرکز کے قیام پر اربوں روپے خرچ ہوںگے۔ سندھ کی حکومت تو امتحانی نظام کو ٹھیکے پر دینے کی خواہاں ہے۔
اس لیے امتحانی نظام کو آؤٹ سورس کرنے کے طریقہ کار پر غور ہو رہا ہے۔ شاید وقت کی کمی کی بناء پر اس سال یہ فیصلہ عملی شکل اختیار نہیں کرسکا۔ اگر حکومت نے امتحانی نظام کو ٹھیکہ پر دیا تو تعلیم کا معیار مزید گر جائے گا۔ حکومت نئے امتحانی نظام کے نفاذ کے لیے غور و فکر کرنا چاہیے۔
سندھ کے وزیر تعلیم اعلیٰ ادبی ذوق کے مالک ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنے کچھ دن امتحانی نظام کے رائج کرنے کے طریقہ کار کے لیے وقف کریں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اساتذہ، انتظامی افسران، تعلیمی ماہرین، طلباء و طالبات کے والدین اور سابق طلبہ کی کانفرنسوں کا انعقاد کریں اور مکمل محفوظ امتحانی نظام کے نفاذ کے لیے اگر ضرورت پڑے تو بھارت، ترکیہ اور برطانیہ وغیرہ کے ماہرین سے مشاورت کی جائے۔
دفعہ 144 کے نفاذ کے اعلانات اور ڈپٹی کمشنر کے سخت پریس نوٹ اور فوٹو اسٹیٹ کی مشینوں کو بند کرنے کے انتظامی اقدامات سے نہ نقل رکے گی نہ شفاف نظام قائم ہوگا، یوں تعلیمی معیار مزید گر جائے گا۔ ڈگریاں لینے والے بے روزگاری نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ تعلیم کو اولین ترجیح قرار دینے سے ہی کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔