سافٹ کارنر
ملک آج پیچیدہ مسائل اور بحرانوں میں گھرا ہوا ہے خارجی و داخلی ہر محاذ پر سنگین چیلنج حکومت کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں
KARACHI:
ایک جانب وطن عزیزکے 18 کروڑ عوام کو امن وامان، دہشت گردی، انرجی بحران، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے گمبھیر مسائل و مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف مقدمے سمیت دیگر اہم داخلی و خارجی معاملات کے حوالے سیاعلی حلقوں کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی، تناؤ اور فاصلوں کے باعث جمہوری نظام کے تسلسل پر منڈلاتے امکانی خطرات نے صورتحال کو مزید غیر تسلی بخش بنادیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی تیسری بار حکومت بعد بننے کے بعد قوم یہ توقع کر رہی تھی کہ اس نے ماضی کے سانحات سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور حاصل کرلیا ہوگا اور اپنے تیسرے عہد حکومت میں پچھلی غلطیاں نہیں دہرائے گی بلکہ زیادہ سوجھ بوجھ اور سیاسی فہم و تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے انتخابی دعوؤں اور وعدوں کے مطابق ملک و قوم کو درپیش سنگین چیلنجوں سے نکالنے میں کسی قدر کامیابی حاصل کر لے گی۔ بعینہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں پانچ سالہ آئینی مدت کی تکمیل پر جمہوری نظام کو جو تقویت حاصل ہوئی ہے اس کے تسلسل کو یقینی بنانے اور سابق صدر آصف علی زرداری کی طرح دانشمندی کے ساتھ مقتدر قوتوں اور طاقت کے اصل مراکز سے اچھے و خوشگوار تعلقات قائم رکھتے ہوئے اپنی حکومت کی بھی 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی ۔جس کے نتیجے میں ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی و آئین و قانون کی حکمرانی کی مثال قائم ہوگی اور جمہوریت کی ٹرین پٹری پر چلتی رہے گی۔ لیکن موجودہ حکومت کی گزشتہ 11 ماہ کی کارکردگی کسی بھی حوالے سے کلی طور پر اطمینان بخش اور عوامی توقعات کے مطابق قرار نہیں دی جاسکتی اس ضمن میں میڈیا میں اٹھائے جانے والے سوالات حکمرانوں کی توجہ کے طالب ہیں۔
ملک آج پیچیدہ مسائل اور بحرانوں میں گھرا ہوا ہے خارجی و داخلی ہر دو محاذ پر سنگین چیلنج حکومت کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ امن کا قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کو حکومت اپنی پہلی ترجیح قرار دے رہی ہے۔ اس حوالے سے ٹی ٹی پی کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے تاہم مذاکراتی عمل جاری رکھنے کی حکومتی خواہش اور کوششوں کے خاطر خواہ نتائج تاحال سامنے نہیں آئے۔ مقتدرہ قوتوں کے تحفظات کے باوجود ٹی ٹی پی کے بعض قیدیوں کو رہا کردیا گیا لیکن ادھر سے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان سامنے آگیا نتیجتاً قومی سلامتی کے حالیہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ٹی ٹی پی کے حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حالات امن کی بجائے مزید خون خرابے کی طرف جائیں گے اور عوام کو چند دنوں کے لیے امن و سکون کی جو گھڑیاں میسر آئی تھیں۔ وہ اب ختم ہوگئی ہیں اور ملک کے اہم شہروں اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، لاہور بالخصوص اہم صنعتی وتجارتی شہر کراچی میں پھر سے ٹارگٹڈ وارداتوں میں اضافہ ہوجائے گا جس کی ایک جھلک ٹی وی اینکر حامد پیر کے کراچی میں نشانہ بننے پر سامنے آگئی ہے۔ عوام کا تو پہلے ہی برا حال ہے امن و امان کی مخدوش صورتحال اور عدم تحفظ کے احساس نے انھیں زندہ رہنے کے آزادانہ آئینی حق سے محروم کردیا ہے۔
عام آدمی تو غربت، بے روزگاری اور بلاخیز مہنگائی کے باعث پاتال میں اترتا جا رہا ہے۔ افلاس و تنگ دستی کا یہ عالم ہے کہ لوگ خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہوچکے ہیں۔ حالات اس قدر ناگفتہ با ہیں کہ چیف جسٹس کو بھی کہنا پڑا کہ عوام سے سانس لینے کی بھی قیمت وصول کی جا رہی ہے یہ کیسی اسلامی ریاست ہے جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ معزز عدالت کی جانب سے یہ ریمارکس بھی حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں کہ غریبوں کو سستا آٹا نہیں دے سکتے تو انھیں چوہے مار گولیاں ہی دے دیں۔ عدلیہ کی آبزرویشن موجودہ حالات کی ترجمان، عوام کی پریشانیوں و مشکلات کی عکاس اور حکومت کی ناقص پالیسیوں پر تازیانے کے مترادف ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے اپنی انتخابی مہم کے دوران برسر اقتدار آنے پر عوام سے ان کے گمبھیر مسائل حل کرنے اور مشکلات سے بچانے، غربت، مہنگائی و بے روزگاری ختم کرنے کے جو بلند و بانگ دعوے کیے تھے تو ان ہی عوامی مسائل کا حل بھی ان کی پہلی ترجیح ہونا چاہیے لیکن حکومت کو بجائے عوامی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرنے کے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت قائم مقدمے سے منسلک معاملات کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ مقتدر حلقوں کے ساتھ معاملات میں گرمی آگئی۔ آرمی چیف کے بیانسے ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں تو ایک طوفان برپا ہوگیا جمہوریت پر منڈلاتے امکانی خطرات کے پیش نظر سیاسی قیادت پارلیمنٹ کے وقار کے تحفظ کا اعلان کرنے لگی ہے۔ عدلیہ اپنے ادارے کے وقار اور آئین و قانون کے دائرے میں رہنے کی تلقین کر رہی ہے اور میڈیا اپنی آزادی کے تحفظ کی بات کر رہا ہے۔ یوں صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس پس منظر میں وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر پاکستان اور پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری صاحب کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات کو نہایت اہمیت کا حامل اور سیاسی قوتوں کے اتفاق و جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے خوش آیند قرار دیا جا رہا ہے۔ میڈیا میں اس ملاقات کے بارے میں دو طرح کے تبصرے اور تجزیے کیے جا رہے ہیں اول یہ کہ ملک کی دو اہم اور بڑی سیاسی قوتوں کے مل بیٹھنے سے غیر سیاسی قوتوں کو یہ پیغام جائے گا کہ ملک کی سیاسی قیادت بالغ نظر اور اپنے اختلافات بھلاکر جمہوری استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے متحد ہوگئی ہے اور اگر جمہوریت کش اقدام کیا گیا تو 1999 کی طرح اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور چونکہ عدلیہ بھی آزاد ہے۔
لہٰذا ''نظریہ ضرورت'' کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں مل سکے گا لہٰذا غیر سیاسی قوتیں ''طالع آزمائی'' سے گریز کریں۔ دوئم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت نے ماضی کی ٹھوکروں اور غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا وہ ایک مرتبہ پھر ''ہیوی مینڈیٹ'' کے زعم میںمقتدر حلقوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کے لیے کمر کس رہی ہے۔حکومت کے چند رفقا ہر صورت سابق صدر پرویز مشرف کو غداری مقدمے میں سزا دلانے کے خواہاں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح آمریت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔ صدر زرداری سے ملاقات کا مقصد بھی یہی تھا کہ مقتدر قوتوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ جمہوریت کش اقدام سے گریز کریں اور پرویز مشرف کے معاملے کو آئین و قانون کے مطابق چلنے دیں۔ مذکورہ صورتحال میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت کے پاس دو راستے ہیں اول محاذ آرائی کا کہ وہ نقصانات کی پروا کیے بغیر اپنے موقف پر ڈٹی رہے، دوئم حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے کرکٹ کے اچھے کھلاڑی کی طرح ایک قدم پیچھے ہٹ کر شارٹ کھیلے اور ''مائٹ از رائٹ'' کے ''پاکستانی تقاضوں'' کو سمجھے۔ ملک کو اس وقت بحرانوں اور سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ملک کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ''سافٹ کارنر'' ہر صورت تلاش کرنا پڑے گا۔