سوشل میڈیائی پروپیگنڈا
جنگ کارگل میں سرفروشی اور جانثاری کی داستان رقم کرنے والے کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کو بھی نہیں بخشا گیا
پچھلی ایک دھائی سے اور خصوصاً گزشتہ ایک سال سے سوشل میڈیائی بدتمیزی، جھوٹے پروپیگنڈے اور الزام تراشی کا نتیجہ 9 مئی کو ہمارے سامنے آ گیا ہے۔
9 مئی کو ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ ہمارے نوجوان مرد و خواتین کے ذہن کتنے پراگندہ اور منفی ہو چکے ہیں کہ انھیں اپنے اسلاف اور شہداء کی حرمت کا بھی احساس نہ رہا۔
قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف برسوں سے جاری شرانگیز پروپیگنڈہ مہم اور مخالف سیاستدانوں کا تمسخر اڑانے کا سلسلہ اتنا طاقتور ہو گیا کہ جو کچھ فیس بک، ٹوئیٹر اور سماجی رابطوں کی دیگر سائٹس پر لکھا، بولا اور فلمایا جاتا رہا، اس کا انتہائی دردناک رزلٹ نومئی کو عملی شکل میں سامنے آیا۔ اس جنگی طیارے کے ماڈل کو بھی نہیں بخشا گیا جسے ایم ایم عالم نے اڑایا اور بھارتی جہازوں کو تباہ کر دیا تھا۔
جنگ کارگل میں سرفروشی اور جانثاری کی داستان رقم کرنے والے کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کو بھی نہیں بخشا گیا، مادر وطن کے اس سپوت کی بہادری کی داد اس کے دشمنوں نے بھی دی۔ لیکن اس نشان حیدر کی شان کو خود اس کے اپنے علاقے والوں نے ہی تباہ کر دیا کیونکہ ان کے ذہن میں سالوں سال سے نفرت و عناد کے بیچ بوئے جا رہے تھے۔
ان کو بالآخر پودے سے درخت تو بننا تھا۔ شہیدکرنل شیر خان کا مجسمہ توڑنے کے بعد بھی انھیں ندامت محسوس نہیں ہوئی بلکہ اس جنونی گروہ کے ارکان کی زبان درازی حدود کراس کر گئی، وہ اپنے سیاہ کرتوت اور مجرمانہ حرکت پر پشیمان ہونے اور معافی مانگنے کے بجائے یہ پراپیگینڈا کرتے رہے کہ پاکستان نے تو کرنل شیر کو شہادت کے بعد پہچاننے سے انکار کر دیا تھا حالانکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
شہید کا پورا نام کرنل شیر تھا، ان کے والد محترم نے پاک فوج سے محبت میں بیٹے کا نام کرنل شیر رکھا ۔ خیر جنھوں نے ہمارے بچوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا، وہ اس میں کچھ حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمارے ان گمراہ جوانوں نے اپنے ہاتھوں اپنی شناخت مٹانے کی کوشش کی۔
ریڈیو پاکستان کی عمارت پشاورشہر کی پہچان تھی' ہے اور رہے گی۔ یہ وہ ریڈیو پاکستان ہے جہاں بڑے بڑے ادیب اور شاعر پروان چڑھے۔
ریڈیو پاکستان پشاور پشتو، ہندکو ثقافت، تاریخ، ادب اور موسیقی کے لحاظ سے کسی بڑی لائبریری سے کم نہیں۔ لیکن چند گمراہ نوجوانوں نے اپنے شہر کی اس شناخت کو آگ لگا کر ناقابل معافی جرم کر ڈالا۔ حکومت اور انتظامیہ نے یہ بہت اچھا کام کیا کہ ریڈیو پاکستان اور کور کمانڈر لاہور کے گھر کو عام عوام کے لیے کھول دیا تاکہ وہ اس کو دیکھ اور اس کے جلانے والوں کے ایجنڈے کو پہچان سکیں اور پروپیگنڈے کے ماحول سے باہر آ سکیں۔ جھوٹ، نفرت ، عدم برداشت اور الزام تراشی کا جو بازار ایک سیاسی جماعت نے سجانا شروع کیا تھا، وہ بازار اب بھی برقرار ہے۔
اس کی واضح مثال فرانسیسی ٹی وی کی جانب سے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شیئر کی جانے والی تصاویر اور وڈیوز ہیں۔ عمران خان نے امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر ہونے والے احتجاج کو پاکستان بنا ڈالا جب کہ پارہ چنار میں دہشت گردوں کے ہاتھوں اسکول کے شہید اساتذہ کے جنازوں کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ''شہادت'' سے جوڑ دیا۔
سوچیں ایک ملک کا سابق وزیراعظم اور ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو اس کے کارکن کس لیول پر جاسکتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کی طرح سائبر کرائمز اور جھوٹے الزامات کے حوالے سے بھی خصوصی عدالتیں قائم ہوں جہاں ان مقدمات کا فیصلہ دنوں ہفتوں میں کیا جائے۔ ایف آئی اے کا سائبر ونگ کریڈیبلٹی کے بحران کا شکار ہے۔
شرفاء اپنی شکایت لے کر وہاں جانے سے ڈرتے ہیں ۔ ہتک عزت کے دعوؤں کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ ہمیں اگر جھوٹ کو روکنا ہے تو اس کے لیے سخت ترین اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ جعلی صحافی و اینکرز خصوصاً یوٹیوبر اور وی لاگرز جو کچھ کہہ رہے ، دکھا رہے ہیں یا کسی سے کہلوا رہے ہیں، وہ صحافت نہیں بلکہ بدتمیزی، بدتہذیبی، شرانگیزی ہے ۔
ملک کی سیاست، معیشت اور معاشرت کو بے لگام اور بے علم ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اب سمندر پار بیٹھے نام نہاد پاکستانیوں کا بھی علاج کرنا ہو گا۔ دہری شہریت کے قانون کے حوالے سے قانون سازی لازمی ہے۔
اگر کوئی پاکستانی کسی دوسرے ملک کی شہرت رکھتا ہے تو اسے پاکستانی شہریت چھوڑنا ہو گی۔ زیادہ تر جھوٹ اور الزام تراشی کا سلسلہ بیرون ملک مقیم دہری شہریت کے حامل پاکستانی چلاتے ہیں ۔ بہرحال مجرم کو سزا تو ملنی ہے تاہم بے گناہوں کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے ، جن کا جرم سنگین ہے انھیں سزا دی جائے۔