والدین کا مقام

والدین ہمیشہ اولاد کے بارے میں نیک نیتی کے ساتھ سوچتے ہیں۔ والدین کبھی غلط نہیں ہوتے


والدین کبھی غلط نہیں ہوتے۔ اگر ان سے غلط فیصلے ہو بھی جائیں تو ان کی نیّت صاف ہوتی ہے اور انہی کی دعائوں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں فوٹو:فائل

انسان زندگی میں چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اسے بے انتہاء محبت دیتے ہیں اور بنا لالچ کے اس کے لیے اپنے ہاتھوں کو رب کے حضور بلند کرتے ہیں ان میں سے ایک بے لوث رشتہ والدین کا ہے۔

جب بھی انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو بے ساختہ ایک لفظ نکلتا ہے: ''ماں'' اور جب بلندیوں کی ضرورت ہوتی ہے تو انسان کی آس و امید والد ہوتا ہے کہ وہ ان حالات میں اس کا سہارا بنے گا، یہ دونوں رشتے کمال کے ہوتے ہیں جب والدین زندہ ہوتے ہیں تو انسان آندھیوں اور طوفانوں کے ساتھ ٹکراتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا جب ان کا سایہ سروں سے اٹھ جاتا ہے تو پھر ہر قدم سوچ سمجھ کے اٹھاتا ہے۔ ان کی دعائیں اور ادائیں ہمیشہ انسان کے ساتھ شاملِ حال رہتی ہیں۔

والدین ہمیشہ اولاد کے بارے میں نیک نیتی کے ساتھ سوچتے ہیں۔ والدین کبھی غلط نہیں ہوتے۔ اگر ان سے غلط فیصلے ہو بھی جائیں تو ان کی نیّت صاف ہوتی ہے اور انہی کی دعاؤں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ جن کے والدین زندہ ہیں وہ ان کی قدر کریں جن کے وفات پاگئے وہ دعائے مغفرت کریں۔ اﷲ پاک نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر والدین کی شان بیان کی اور ان کے ساتھ حسن ِ سلوک کا حکم دیا ہے۔

اﷲ پاک کے پاک کلام میں والدین کے متعلق ارشادات، مفہوم:

''اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار! جیسا انہوں نے میری بچپن میں (شفقت سے) پرورش کی ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما۔'' (بنی اسرائیل)

''اور ہاں! باپ سے اچھا سلوک کرتے رہنا۔'' (الانعام)

''اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔'' (النسائ)

''اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔'' (العنکبوت)

حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! میں اپنی ماں کو سخت گرم و پتھریلی زمین پر اپنے کندھوں پر اٹھا کر چھے کوس لے گیا۔ وہ زمین اتنی گرم تھی کہ میں اگر اس پر گوشت کا ایک ٹکڑا ڈال دیتا تو وہ پک جاتا۔ کیا میں نے اس کے احسانات کا بدلہ ادا کر دیا۔۔۔ ؟ نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا، مفہوم: ''شاید درد ِزہ کی ایک ٹیس و تکلیف کا بدلہ ہوگیا ہو، باقی تکالیف اور احسانات تو اس کے علاوہ بہت ہیں۔''

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ سے ایک آدمی نے دریافت کیا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے (تیسری مرتبہ) پھر دریافت کیاؒ: اس کے بعد کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: پھر اس کے بعد کون ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تیرا باپ۔

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

''ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والی اولاد جب بھی رحمت کی نظر سے ماں باپ کو دیکھے، تو ہر نظر کے عوض اﷲ اس کے لیے مقبول حج کا ثواب لکھ دیتے ہیں۔'' صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اگرچہ روزانہ سو مرتبہ نظر کرے۔۔۔ ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! اﷲ بہت بڑا ہے اور وہ بہت زیادہ پاک ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

''جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اس کی روزی میں کشادگی ہو، اس کو چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور (رشتے داروں) کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔'' (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اس کی ناک خاک آلود ہوئی۔ اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی۔ اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی۔ عرض کیا گیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! کس کی؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے ماں باپ میں سے ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا اور پھر جنت میں داخل نہ ہُوا۔

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ''رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔''

رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: آدمی اپنے والدین کو کیسے گالیاں دے سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک آدمی دوسرے آدمی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے پس وہ جواباً اس کے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے۔

حضرت ابوالدردائؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی کہ اپنے والدین کی اطاعت کرو! اگر وہ تمہیں اس بات کا بھی حکم دیں کہ اپنے گھر، مال و دولت سب کچھ چھوڑ کر نکل جا، تو نکل جاؤ۔

حضرت ابُواسید ؓ فرماتے ہیں ہم حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، قبیلہ بنو سلمہ کے ایک آدمی نے دریافت کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! کیا والدین کی وفات کے بعد بھی کچھ ایسی صورتیں ممکن ہیں کہ جس سے میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا رہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! ان کے لیے دعا و استغفار کرنا۔ ان کے عہد کو پورا کرنا۔ ان کے تعلق سے جو تمہارے رشتے دار ہیں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرنا اور ان کے احباب، دوستوں کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کرنا۔

وہ لوگ جو زندگی بھر والدین کی خدمت اور ان کی فرماں برداری کرتے رہے۔ اب جب والدین دنیا میں نہیں رہے تو وہ یہ گمان نہ کریں کہ شاید اب حسن سلوک کا دروازہ بند ہوگیا ہے، بل کہ تعلیماتِ نبویؓ کی روشنی میں حسنِ سلوک جاری رکھیں۔ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے، صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا رہے اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔

جن حضرات کے والدین زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کر کے جنّت حاصل کرلیں اور جن کے وفات پاگئے وہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بنیں تاکہ ان کی روح کو ان کے اعمال سے تسکین پہنچے۔ اﷲ تعالیٰ تمام قارئین کے والدین کی مغفرت فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں