یہ نظام ایسے نہیں چل سکے گا
منفی بنیادوں پر مقابلہ بازی کے رجحان نے ہمیں معاشی طور پر پسماندہ اورسیاسی طور پر بے سمت کردیا ہے
کیا پاکستان کا سیاسی، انتظامی، قانونی، معاشی، جمہوری ،آئینی اور حکمرانی کا نظام موجودہ طور طریقوں کی بنیاد پر آگے بڑھ سکے گا؟ تو اس کا جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے۔
اس وقت ملک کا سسٹم جس انداز یا طرز عمل کی بنیاد پر چل رہا ہے، وہ مسائل کے حل کی بجائے اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔حالات بہتری کے بجائے انتشار ، فساد اور ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ملک کا نظام فرسودہ ہوچکا ہے، اس میں تبدیلیاں لانا ناگزیر ہوچکا ہے۔
منفی بنیادوں پر مقابلہ بازی کے رجحان نے ہمیں معاشی طور پر پسماندہ اورسیاسی طور پر بے سمت کردیا ہے۔ سیاست او رجمہوریت جس کا بنیادی مقصد حالات کی بہتری کا راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے مگر یہاں ہم حالات کو اور زیادہ بگاڑ دیتے ہیں ۔
کسی بھی علمی ، فکری یا سیاسی یا اہل دانش کی مجلس میں بیٹھیں تو ان کی گفتگو میں جذباتیت بھی ہے اور غصہ بھی۔ ان کو لگتا ہے کہ حالات کی یہ غیر یقینی کیفیت میں بہتری کے امکانات کم ہیں۔
ان کے بقول جو بھی فیصلہ سازیا طاقت کے مراکز ہیں ان میں نہ تو حالات کی درستگی کا ادراک ہے او رنہ ہی وہ حالات کی سنگینی کو محسوس کررہے ہیں ۔ کیونکہ جو کچھ ہورہا ہے اس کو بنیاد بنا کر یہ برملا کہا جاسکتا ہے کہ ہم درست نہیں بلکہ غلط سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ہماری ترجیحات میں اجتماعی مفادات کے بجائے ذاتی اور طبقاتی مفادات کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔لوگ بالخصوص کمزور طبقات سیاسی او رمعاشی بنیادوں پر تنہا ہورہے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ اس موجودہ نظام میں اتنی سکت نہیں یا ان کی ترجیح نہیں کہ یہ نظام ہمارے لیے کچھ آسانیوں کو پیدا کرسکے۔ یہ منظر نامہ عملی طور پر ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔
اس وقت قومی سیاست کا منظر کافی سنگین بھی ہے اور خوفناک بھی۔ سیاسی دشمنی کے اس کھیل میں ہم وہی تاش کے پتے کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں جو کھیل ماضی میں کھیلا جاتا تھا۔ امید تھی کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہوگا مگر اب صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم نے کچھ بھی نہیں سیکھا بلکہ ہماری ضد، تعصب ، نفرت، غصہ نے سیاست کو ایک مشکل موضوع بنا دیا ہے۔
سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کی تربیت نہیں ہوتی ، لیڈر شپ اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے ، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے الیکٹیبلز جب چاہیں، ایک پارٹی چھوڑ دیں اور متوقع حکمران جماعت میں شامل ہوکر اقتدار کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آج بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے اپنا منفی سفر شروع کیا تھا اور اب ان معاملات میں اور زیادہ شدت دیکھنے کو مل رہی ہے ۔
موقع پرستی کی سیاست اورسیاسی فیصلوں کا نہ تو ماضی میں کوئی اچھا نتیجہ نکل سکا اور نہ ہی اب نکل سکے گا کیونکہ ووٹر بھی اس عمل کے عادی ہوچکے ہیں۔ ایک جماعت اقتدار میں ہوتی تو اس کا موقف اور پالیسی یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ وہ اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں لیکن جیسے ہی اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیتی ہے۔ آج اداروںکی بے توقیری کو دیکھ کر واقعی دل اداس ہے۔
اس میں ادارے بھی ان حالات کے ذمے دار ہیں۔ ملک میں انصاف نظام کی خرابیوں کے نتائج سب کے سامنے ہیں، آج عدلیہ جس انداز میں کام کررہی ہے،اس نظام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ بقول کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر نظام نہیں چل سکتا ۔ لیکن یہاں اوپر سے لے کر نیچے تک انصاف کے نظام پر سوالیہ نشان ہیں ۔ طاقت کی حکمرانی کا یہ کھیل ہمیں آگے لے نہیں بلکہ پیچھے کی طرف تیزی سے دکھیل رہا ہے ۔
اس کی ذمے داری کسی ایک فریق پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر ریاست سے لے کر سیاست تک اور سیاست سے معیشت یا اداروں تک سب ہی کے فیصلوں یا طرز عمل نے ہمیں یہاں لا کر کھڑا کیا ہے۔
معیشت کی بدحالی ہمارے تمام سیاسی فیصلوں سے جڑی ہوئی ہے اور جب تک ہم اپنی سیاست کو درست سمت میں نہیں لے کر جائیں گے معیشت کی بہتر ی کا خواب کبھی بھی پایہ تکمیل پر نہیں لے کر جایا جاسکتا ۔سیاست کی درستگی کے بغیر معیشت کی بحالی کی سوچ حالات کو درست کرنے کی بجائے اور زیادہ بگاڑے گی کیونکہ یہ سوچ اور فکر مسائل کا حل نہیں ہے ۔
ایک دوسرے پر بالادستی کی جنگ کے نتائج بھی ہم اچھے نہیں دیکھ رہے او رایسے لگتا ہے کہ ہم ایک ایسے کھیل کا حصہ بنتے جارہے ہیں جس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں مل سکے گا۔
اس کے آثار نظر آنا شروع بھی ہو گئے ہیں۔ سیاسی قیادت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ان کے سیاسی اختلافات جمہوری بنیادوں پرنہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اقتدار حاصل کر کے اپنے اپنے حامیوں کو فوائد پہنچانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔
پاکستان سے باہر جو تصویر ہم خود اپنے طرز عمل یا اعمال سے بنارہے ہیں اس پر بھی عالمی دنیا میں ہم پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔سب ہی اس نقطہ پر متفق ہیں کہ ہماری سمت درست نہیں اور ہم جو غلط سمت میں چل پڑے ہیں اس کو تحمل، تدبر ، فہم وفراست اور ٹھراو کی مدد سے کوئی درست کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ مفاہمت اور اعتماد سازی یا حالات میں بہتری یا سازگار ماحول فریقین میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
بداعتمادی کے ماحول میں ہم اعتماد سازی کی تلاش میں ہیں لیکن اس کے لیے راستہ نہیں مل رہا اور جو راستہ نظرآ رہا ہے اس پر ہم چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح ٹکراو کے ماحول میں مفاہمت کی سیاست کو تلاش کررہے ہیں ۔
لیکن کوئی تو ہے جو پس پردہ بھی ہے اور پردہ کے سامنے بھی ہے جو مفاہمت کے مقابلے میں ٹکراو کی سیاست کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ٹکراؤ کی سیاست یا سیاسی دشمنی سے جڑے طبقات مفاہمت کی سیاست پر بالادست نظر آتے ہیں او رایسے لوگو ں کو پیچھے کیا جائے توجہ طلب مسئلہ ہے ۔
ہمارے طاقت ور طبقات یا سیاسی طاقت ور اشرافیہ خدارا سیاست او رجمہوریت کو گالی مت بنائیں اور نہ ہی اسے ایسے کھیل کا حصہ بنائیں کہ لوگ اس سیاست او رجمہوریت سے توبہ کریں۔ ہمارا مستقبل سیاست او رجمہوریت سمیت معاشی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے لیے ہی ہمیں سیاسی اور عماشی جدوجہد کرنی ہے۔
لیکن اس کے لیے پہلے سیاست میں موجود تلخیوں اور دشمنیوں کو تبدیل کرنا ہوگا او رایک ایسے فارمولہ پر متفق ہونا ہوگا جو سب ہی فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ کیونکہ اس وقت اگر کوئی نقطہ ہمیں سیاسی اور معاشی طو رپر بچاسکتا ہے تو وہ سیاست یا جمہوریت سمیت آئین اور قانون کی پاسداری سے جڑا ہوا ہے۔
ہمیں سیاسی انتقام اور سیاسی دشمنی کہ کھیل سے باہر نکلنا ہے اور ہر قوت کو اس کے آئینی، سیاسی اور قانون حق تک قبول کرنا ہے او راسے سیاسی راستہ دینا ہے۔مسائل کا علاج سیاسی، آئینی اور قانونی راستوں کی بنیاد پر ہی تلاش کرنا دانش مندی ہوگی۔ہم اس وقت جن داخلی اور خارجی مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اس میں ہماری مجموعی سیاسی شدت یا انتہا پسندی یا ٹکراو اورمحاذ آرائی کی سیاست یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرنے کی روش نے بہت زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم پر غصہ اور بدلہ کی سیاست غالب ہے جو ہمیں کسی مثبت نتیجہ کی طرف لے جانے سے روکتی ہے ۔
اب بھی ہمارے طاقت کے مراکز یا سیاسی قوتوں کے پاس وقت ہے او رہمیں ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات پر نہ صرف سوچ بچار کرنی ہے بلکہ اس پر عملدرآمد کا ایک مربوط اور مضبوط نظام یا پالیسی یا سخت گیر فیصلے کرنے ہیں۔
ایک دوسرے کو فتح کرنے کی بجائے ہم ملک کے سنگین مسائل کے حل پر فتح کے جھنڈے گاڑیں اور حالات کو اس طرف لے کر جائیں جہاں ہم مجموعی طور پر اپنے لیے بھی او راپنے اس ملک کے لیے بہتری کے نئے مثبت امکانات کو تلاش کرسکیں۔اس کے لیے ہمیں مجموعی طو رپر مہم جوئی اور ایڈونچرز کی سیاست اور فیصلوں سے باہر نکلنا ہوگا او رایسے فیصلوں سے گریز کرنا ہوگا جو ہمیں پیچھے کی طرف دکھیلنے کا سبب بن رہے ہیں ۔